بلٹ پروف ٹرین، پراسرار کشتی اور لگژری گاڑیاں: شمالی کوریا کے رہنما دنیا کا سفر کیسے کرتے ہیں؟
شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملنے کے لیے ایک بلٹ پروف ٹرین میں رواں ماہ کے دوران روس کے ساحلی شہر ولادیووستوک جائیں گے۔
شمالی کوریا کے رہنماؤں کی ایک روایت یہ رہی ہے کہ وہ روس تک پہنچنے کا 1180 کلومیٹر طویل سفر ایک آہستہ چلنے والی ٹرین میں 20 گھنٹے میں طے کرتے ہیں۔
اس ٹرین کی رفتار صرف 50 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس ٹرین کے سست چلنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں حفاظت کی غرض سے بہت زیادہ آرمرڈ پروٹیکشن نصب ہوتی ہیں، جو ٹرین کو کافی وزنی بنا دیتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں لندن کی ہائی سپیڈ ریل کی زیادہ سے زیادہ رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ جاپان کے شنکانسن بلٹ ٹرینوں کی زیادہ سے زیادہ رفتار 320 کلومیٹر فی گھنٹہ تک جا سکتی ہے۔
یہ طویل سفر شمالی کوریا کے کئی سال پرانے ریل کے ٹریک کے ذریعے ہو گا۔
اس ٹرین کا نام ’ٹائے یانگ ہو‘ ہے جس کا کورین زبان میں مطلب ’سورج‘ ہے اور یہ نام شمالی کوریا کے بانی کِم ال سنگ کی علامت ہے۔
شمالی کوریا کی تاریخ اور ٹرینیں
شمالی کوریا کے بانی کم جونگ اُن کے دادا کم ال سنگ نے ٹرین کے ذریعے طویل فاصلے کے سفر کی روایت شروع کی تھی جو ویتنام اور مشرقی یورپ کے سفر پر اپنی ٹرین لے کر جاتے تھے۔
سکیورٹی ایجنٹس ان پُرتعیش ٹرینوں کی سخت حفاظت کرتے ہیں اور وہ راستے میں آنے والے سٹیشنز کو دھماکہ خیز مواد اور دیگر خطرات کے لیے سکین کرتے ہیں۔
سنہ 1994 سے سنہ 2011 کے دوران اپنی موت تک شمالی کوریا پر حکمرانی کرنے والے کم جونگ اُن کے والد کم جونگ اِل مبینہ طور پر فضائی سفر سے ڈرتے تھے لہذا وہ ٹرین کا استعمال کرتے تھے۔
کم جونگ ال کا ایک مشہور سفر سنہ 2001 والا تھا جس میں انھوں نے روسی صدر پوتن سے ملنے ماسکو تک 10 دن کا سفر کیا تھا۔
سنہ 2001 کے سفر میں شمالی کوریا کے راہنما کے ساتھ ایک روسی فوجی کمانڈر کونسٹنٹین پولیکوفسکی بھی تھے جنھوں نے اپنی یادداشت ’اورینٹ ایکسپریس‘ میں اِس پُرتعیش ٹرین کا ذکر کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’(اس ٹرین میں سفر کے دوران) روسی، چینی، کورین، جاپانی اور فرانسیسی کھانوں میں سے کسی بھی ڈش کا آرڈر دینا ممکن تھا۔‘
انھوں نے لکھا کہ صدر پوتن کی نجی ٹرین میں بھی ’کِم جونگ اِل کی ٹرین جیسا آرام نہیں تھا۔‘
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کے مطابق کم جونگ ان کی موت بھی اسی ٹرین پر سفر کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔
نومبر 2009 میں قدامت پسند جنوبی کوریا کے روزنامہ جوسن البو نے یہ خبر دی تھی کیا کہ کم جونگ ال کی بکتر بند ٹرین میں تقریباً 90 بوگیاں تھیں۔ پیلے رنگ کی پٹی والی سبز ٹرین میں کانفرنس روم، سامعین کے چیمبر اور بیڈ رومز بھی تھے، جن میں بریفنگ کے لیے سیٹلائٹ فون اور ٹیلی ویژن نصب تھے۔
ہو سکتا ہے کم جونگ ان اپنے والد کی طرح فضائی سفر سے نہیں ڈرتے کیونکہ انھوں نے متعدد دوروں کے لیے روسی ساختہ نجی جیٹ کا استعمال کیا ہے۔
لیکن جب وہ آخری بار صدر پوتن سے سنہ 2019 میں ملے تھے تو وہ بھی بذریعہ ٹرین روس کے مشرق میں واقع ولادیووستوک شہر پہنچے تھے۔ اس کے بعد عہدیداروں نے بریڈ اور نمک کی روایتی پیشکش کے ساتھ ان کا استقبال کیا تھا۔
یہ ممکنہ طور پر کم جونگ ان کا آخری بیرون ملک سفر تھا۔ مبینہ طور پر وہ وہی ٹرین استعمال کرتے ہیں جو ان کے والد بین الاقوامی سفر کے لیے کرتے تھے۔
اگر یہ دورہ ہوتا ہے تو یہ غالباً پیانگ یانگ میں شروع ہو گا اور روسی سرحد پر واقع تمانگانگ سٹیشن سے گزرے گا جہاں ٹرین کے پہیے روسی پٹریوں کے لیے بدل دیے جائیں گے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ پہیے تبدیل کرنے میں کچھ گھنٹے یا اس سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
نجی طیارے
ٹرینوں کے علاوہ سفر کے لیے کم جونگ ان کو دوسری قسم کی پرتعیش سواریاں استعمال کرتے بھی دیکھا گیا ہے۔ یہ سواریاں شمالی کوریا کے لوگوں کے غریب طرز زندگی کے بالکل برعکس ہیں۔
کم جونگ اُن نے سوئٹزرلینڈ کے بورڈنگ سکول میں تعلیم حاصل کی لہذا فضائی سفر سے وہ اجنبی نہیں ہیں۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد مئی 2018 میں کم جونگ اُن نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے لیے اپنی پہلی بین الاقوامی پرواز چینی شہر ڈالیان کے لیے بھری تھی۔
میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ وہ پہلے بھی شمالی کوریا کے اندر سفر کے لیے اپنا پرائیویٹ جیٹ استعمال کر چکے ہیں۔
چین کے سفر کے لیے انھوں نے سویت ساختہ لانگ رینج ’الیوشن-62 کا استعمال کیا۔
آئی ایل 62 جیٹ طیارے کو جنوبی کوریا میں سنہ 2018 کے سرمائی اولمپکس میں شمالی کوریا کے وفد کو لے جانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا
این کے نیوز ویب سائٹ پر شمالی کوریا کے مبصرین کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ اسے شکرے کی مقامی نسل کے نام سے ’چمے -1‘ کہتے ہیں۔
فضائی جہاز کے سفید بیرونی حصے پر دونوں طرف کورین زبان میں شمالی کوریا کا سرکاری نام لکھا ہوا ہے اور اس کے ساتھ قومی پرچم ہے۔ دم میں سرخ اور نیلے دائروں کے اندر ایک سرخ ستارہ ہے۔
فضائی جہاز کا اندرونی حصہ جدید ہے اور کبھی کبھار کِم جونگ ان کی کام کرتے ہوئے اور جہاز پر میٹنگز کرتے ہوئے تصاویر لی جاتی ہیں۔
سنہ 2018 میں ’چمے-1‘ اس وقت سرخیوں میں آیا جب وہ شمالی کوریا کے اعلیٰ سطحی اولمپکس وفد کو جنوبی کوریا لے کر گیا تھا۔ اس وفد میں کم جونگ اُن کی بہن کم یو جونگ بھی شامل تھیں۔
جنوبی کوریا کی خبر رساں ایجنسی ’یونہاپ‘ کے مطابق اس فلایٹ نے شناختی نمبر ’پی آر کے-615‘ کا استعمال کیا ممکنہ طور پر یہ 15 جون کے شمالی-جنوبی کوریا کے مشترکہ اعلامیے کا علامتی حوالہ تھا جس پر دونوں ممالک نے سنہ 2000 میں دستخط کیے تھے۔
سنہ 2014 میں سرکاری ٹیلی ویژن چینل پر نشر ہونے والی دستاویزی فلم میں کم جونگ اُن کو یوکرینی انٹونوف اے این 148 استعمال کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے جس پر سرکاری ایئر لائن ایئر کوریو کا لوگو لگا دکھایا گیا ہے۔
سنہ 2015 میں شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے کم جونگ اُن کی ایک ایسی فوٹیج بھی چلائی جس میں وہ ایک ’مقامی‘ ہلکے طیارے کو چلاتے ہوئے اور اے این- 2 فوجی بائپلین کے کنٹرول میں بیٹھے ہوئے تھے۔
لگژری گاڑیاں
مارچ 2018 میں کم جونگ اُن نے ٹرین کے ذریعے چین کے دارالحکومت بیجنگ کا سفر کیا لیکن شہر کے اندر سفر کرنے کے لیے اپنی ذاتی مرسڈیز بینز ایس کلاس کا استعمال کیا۔
جنوبی کوریا کے روزنامہ جونگ اینگ البو کے مطابق اس گاڑی کو خصوصی طور پر کم جونگ ان کی ٹرین میں لایا گیا تھا۔
اخبار کے مطابق اس گاڑی کو سنہ 2010 میں تیار کیا گیا جس کی قیمت تقریباً 18 لاکھ امریکی ڈالر ہے۔
سنہ 2018 کے پنمونجوم میں ہونے والی بین کوریائی سربراہی اجلاس کے دوران کِم جونگ ان کی پسندیدہ ایس-کلاس ماڈل گاڑی اس وقت نمایاں ہوئی جب اسے باڈی گارڈز کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے سرحد کے پار لایا گیا۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سربراہی اجلاس میں ان کے قافلے میں ایک پرائیویٹ ٹوائلٹ کار بھی تھی جسے کم جونگ ان کے استعمال کے لیے رکھا گیا تھا۔
اس کا تذکرہ جنوبی کوریا سے چلائی جانے والی ویب سائٹ ’ڈیلی این کے‘ کی سنہ 2015 کی ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بکتر بند گاڑیوں قافلے کی ایک کار میں کسٹمائزڈ باتھ روم بنایا گیا ہے۔
پُراسرار کشتی
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے کم جونگ اُن کو کشتیوں، آبدوزوں، بسوں اور یہاں تک کہ سکی لفٹ پر مختلف انداز میں سوار ہوتے دکھایا ہے۔
دیگر قسم کی سواریوں کا استعمال کرنے کے بارے میں بھی افواہیں ہیں، لیکن یہ ابھی تک ان کے بیرون ملک دوروں میں نظر نہیں آیا ہے۔
جب ریاستی میڈیا نے مئی 2013 میں فوج کے زیر انتظام ماہی گیری سٹیشن کے دورے کی تصاویر شائع کیں تو این کے نیوز نے پس منظر میں ایک یاٹ کا مشاہدہ کیا۔
اس بات کی کوئی واضح تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ کشتی، جس کی لاگت کا تخمینہ سات ملین ڈالر ہے، کِم جونگ ان کی ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ لگژری یاٹ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود کیسے درآمد ہوئی تھی۔
لیکن قیمت کو دیکھتے ہوئے بہت سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے ملک کے حکمران کو ہی ممکنہ طور پر مالک قرار دیا۔
جون 2015 میں واشنگٹن میں قائم ریڈیو فری ایشیا نے رپورٹ کیا کہ ایک محقق نے جنوبی پیونگن صوبے میں کم جونگ ان کے جھیل کے کنارے رہائش گاہ میں ایک نیا ہیلی پیڈ دیکھا ہے۔
جانز ہاپکنز سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے یو ایس-کوریا انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے والے محقق کا کہنا ہے کہ ہیلی پیڈ کو کم جونگ ان کے اہل خانہ یا مہمان استعمال کر سکتے ہیں۔
Comments are closed.