الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کراچی و حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات اور دہری الیکٹورل فہرستوں کے معاملے پر ایم کیو ایم کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دورانِ سماعت ایم کیو ایم کے وکیل نے بتایا کہ کمیشن نے 29 اپریل 2022ء کو بلدیاتی الیکشن کا اعلان کیا، 15 جنوری کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا اعلان کیا گیا، ہم کہتے ہیں کہ نئی الیکٹورل فہرست پر بلدیاتی الیکشن کرائیں، پرانی فہرستوں کا استعمال قانون کے خلاف ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ آپ مختلف فورمز پر گئے لیکن پہلے کبھی یہ مسئلہ نہیں اٹھایا، آپ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، الیکشن کمیشن میں گئے لیکن یہ معاملہ پہلی بار اٹھایا ہے، کوئی اور بھی مسئلہ ہے تو وہ بھی آج ہی اٹھا لیں تاکہ ہم اکٹھے سن لیں۔
ایم کیو ایم کے وکیل نے جواب دیا کہ ہماری یہ چیزیں عدالتوں میں زیرِ التواء ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ الیکشن نئی الیکٹورل فہرست پر کرائیں، آپ نے 2018ء کے عام انتخابات، ضمنی الیکشن، پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کس الیکٹورل فہرست پر لڑے؟
ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن آزاد آئینی ادارہ ہے، کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا، عدالت الیکشن کمیشن کو ہدایت نہیں دے سکتی، 29 اپریل کو الیکشن کمیشن کا کورم مکمل نہیں تھا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا کورم مکمل نہیں تھا، آپ اصل معاملے پر بات کریں، آپ ابھی تک درخواست پر بات نہیں کر رہے، آپ دلائل میں 15 جنوری سے آگے نکل جائیں گے۔
ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایک بھی رکن ہو تو وہ کمیشن ہی تصور ہو گا۔
ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ آئین کے مطابق کورم الیکشن کمیشن کے لیے لازم ہے، 25 جولائی 2021ء سے 30 مئی 2022ء تک 3 ممبرز کا کورم تھا۔
ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کریں، اس کا فیصلہ ہو جائے گا، اگر کوئی قانون آئین سے متصادم ہے تو کون سا فورم اسے کالعدم قرار دے گا، آپ کورم کے معاملے کو عدالت میں چیلنج کر لیں۔
ایم کیو ایم کے وکیل نے جواب دیا کہ میں عدالت جا چکا ہوں، آئین سپریم ہے، سابق الیکٹورل رولز پر اعتراض ہوا تھا، نئی الیکٹورل رولز کا 6 اکتوبر کو اعلان ہوا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر ایم کیو ایم کے وکیل پر برہم ہو گئے، انہوں نے کہا کہ آپ غلط بیان دے رہے ہیں کہ دہرے الیکٹورل رولز استعمال ہو رہے ہیں، ہم آپ کی بات کو مسترد کرتے ہیں کہ دہرے الیکٹورل رولز پر الیکشن ہو رہے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ آپ الیکشن میں تاخیر کر والیں گے، آپ کے اب تک کے دلائل غیر متعلقہ ہیں، ہم آپ کو بعد میں سن لیں گے، آپ انتظار کریں، ہمیں سندھ حکومت اور جماعتِ اسلامی کو بھی سننا ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہمیں سماعت میں التواء چاہیے، میں نے فائل بھی نہیں پڑھی، وہ مجھے رات کو ملی۔
چیف الیکشن کمشنر نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی استدعا مسترد کر دی اور کہا کہ الیکشن میں تاخیر نہیں ہو سکتی، الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔
جماعتِ اسلامی کے وکیل نے کہا کہ اصل نشانہ الیکشن ملتوی کرانا ہے، ہماری درخواست ہے کہ الیکشن ملتوی نہ ہوں۔
ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ یہ ہم پر الزام لگا رہے ہیں کہ ہم الیکشن نہیں چاہتے، جماعتِ اسلامی والے ہم پر ہر وقت الزام لگاتے ہیں، ہم الیکشن کے لیے تیار ہیں، ہم الیکشن کمیشن پر اعتماد کرتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ اصل مدعے پر آنا ہی نہیں چاہتے، آپ کے اس اعتراض کو مسترد کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے وکیل نے استدعا کی کہ نئی انتخابی فہرستوں کی اشاعت کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن ووٹرز کو مطلع کر دے، پرانی انتخابی لسٹوں میں لوگ انتقال کر گئے، بعض منتقل ہو گئے، کسی اور جگہ منتقل ہونے والا کیسے اپنا ووٹ کاسٹ کرے گا؟ میرا ووٹر حق سے محروم ہو رہا ہو گا تو میں الیکشن کمیشن کے پاس آؤں گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کسی کا انتقال ہو یا ٹرانسفر ہو تو اس حوالے سے پورا طریقہ کار موجود ہے، ووٹر فہرستیں مسلسل اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں۔
ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ درخواست ہے کہ 6 اکتوبر کو جاری کی گئی نئی انتخابی فہرست پر الیکشن کرا دیں، نئی ووٹر فہرست جو اتنی محنت سے بنائی ہے اس پر 15 جنوری کو انتخاب کرا دیں، ہمیں جماعتِ اسلامی کی درخواست بھی فراہم نہیں کی گئی، مجھے جماعتِ اسلامی کی درخواست دیں، 10 منٹ میں پڑھ کر دلائل دے دوں گا۔
الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکریٹری نے کہا کہ ہم نے 29 اپریل کو شیڈول کا اعلان کیا، تب ایک ہی انتخابی فہرست تھی، ضمنی انتخابات پرانی ووٹر لسٹوں پر ہوئے، الیکشن کمیشن نے کبھی الیکشن شیڈول واپس نہیں لیا، صرف پولنگ کی تاریخ تبدیل کی۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے حکومت کو ترامیم تجویز کی ہیں، الیکشن کی تاریخ آتی ہے تو حکومتیں بلدیاتی قانون تبدیل کر دیتی ہیں، الیکشن کمیشن کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں، اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے متعدد بار حکومت، اسپیکر، چیئرمین سینیٹ اور پارلیمٹ کو ترامیم کا کہا، مگر اس طرف سیاسی جماعتوں کی توجہ نہیں ہوتی۔
Comments are closed.