پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے توہین پارلیمنٹ کا معاملہ استحقاق کمیٹی میں اٹھانے کا مطالبہ کردیا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ اسپیکر صاحب چیف جسٹس اور ججز کو خط لکھنے سے کام نہیں چلے گا، سپریم کورٹ نے اقلیتی فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہمیں مذاکرات کا کہنے والے اپنے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں۔
بلاول نے کہا کہ ہم کل بھی اس ادارے کے ساتھ تھے اور آج بھی ساتھ ہیں کبھی وہ کہتے ہیں استعفے لو، کبھی کہتے ہیں استعفے نہ لو، ہم نے کبھی آمر کے حکم پر بھی آئین نہیں توڑا، اعلیٰ عدلیہ کہ رہی کہ پارلیمان کے حکم کو نظر انداز کیا جائے، ادارہ کیسے لکھ سکتا ہے کہ آپ پارلیمان کے فیصلے کو بھول جائیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھا دیا ،کتنے وزرائے اعظم کو توہین عدالت پر اڑا دیا گیا، ججز کے جو بھی خیالات ہوتے ہیں ہم ان کو عزت کے ساتھ پکارتے ہیں ، جج کو بینچ میں بیٹھ کر اس رائے کے ساتھ کھیلنے کی بھی اجازت نہیں کہ آپ کی اکثریت نہیں۔
ہم چار تین کے اکثریتی فیصلے کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں ، کچھ ہفتوں سے ہمارے ملک میں تماشہ ہو رہا ہے، سپریم کورٹ کو اختیارنہیں کہ وہ آئین میں ترمیم کرے، سپریم کورٹ آئین کی صرف تشریح کرسکتی ہے، پارلیمنٹ کی توہین کی جارہی ہے، عدالت کیسے لکھ سکتی ہے کہ آپ پارلیمنٹ کو بھول جاؤ اور اقلیتی بینچ کا فیصلہ مان لیں؟ عدالت کیسے وزیراعظم کو حکم دے سکتی ہے پارلیمنٹ کے پاس ہی نہ جائیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نےکبھی بھی آئین کی خلاف ورزی کا نہیں سوچا، اگر عدلیہ کہتی ہے کہ پارلیمنٹ کے حکم کو نظر انداز کیا جائے تو یہ ہم یہ ماننے کو تیار نہیں، ہم کل بھی پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے تھے آج بھی پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہم نے بہت برداشت کرلیا آخرکب تک برداشت کریں گے؟ کتنے وزرائے اعظم کو پھانسی دیں گے اور توہین عدالت کی کارروائی کریں گے؟ ایک لکیر کھینچنی پڑے گی، شہباز شریف ہمارے وزیراعظم ہیں، عدم اعتماد تین افراد کے خلاف کیا گیا ہے، اس لڑائی میں عوام اور معیشت کا نقصان ہو رہا ہے، ہم بھی تین نسلوں سے کھیل کھیل رہے ہیں ہمیں نظر آرہا ہے اس لڑائی میں خطرے ہی خطرے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئینی مدت پوری ہونے پر ملک بھر میں ایک ہی ساتھ الیکشن ہونا چاہیے، نظر آرہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے، نظر آرہا ہے کہ اس کنفیوژن اور لڑائی میں خطرہ ہی خطرہ ہے، زبردستی ایک صوبے کا الیکشن پہلے کروایا جا رہا ہے تو کہیں نہ کہیں سے آواز اٹھے گی، کہیں نہ کہیں سے تو آواز اٹھے گی کہ بیک ڈور سے کوئی ملک میں ایک بار پھر ون یونٹ لاگو کرنے جا رہا ہے، تمام اداروں کے سربراہ ہوش کےناخن لیں کہ تاریخ ان کو کس نام سے یاد رکھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں آپ کا نام پی ٹی آئی ٹائیگر فورس کے طور پر یاد رکھا جائے تو آپ کی مرضی، بلدیاتی انتخابات آئین اور قانون کے تحت ہوتے ہیں، پی ٹی آئی دور میں عدالتی حکم کے باوجود بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے گئے، کہا جارہا ہے کہ ہم آئین کے خلاف کوئی قدم اٹھانا چاہتے ہیں، اس معاملے کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، عدلیہ آئین سازی نہیں کر سکتی، ہم نے سب کو جوڑنے اور حقوق دینے کے لیے آئین بنایا، ہم نے کبھی آئین کی خلاف ورزی کا نہیں سوچا، ہم نے کبھی آئین نہیں توڑا، کسی آمر کے کہنے پر بھی ایسا نہیں کیا۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ پارلیمنٹ فیصلہ کرے گی کہ عوام کا پیسہ کہاں خرچ کیا جائے گا، ہم پارلیمنٹ کے فیصلے کے پابند ہیں، کسی اور ادارے کے نہیں، کل بھی ایوان کے ساتھ کھڑے تھے اور آج بھی کھڑے ہیں۔
Comments are closed.