حالتِ نزع (موت کے قریب تر لمحات) کے تقریباً 5 ہزار سے زائد کیسز کا تجربہ اور مطالعہ کرنے والے امریکی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ موت کے بعد بھی زندگی کے آثار موجود ہیں۔
ایک نئی تحقیقی رپورٹ میں موت کا انتہائی قریب سے مشاہدہ (نیئر ڈیتھ ایکسپیریئنس، NDE) کرنے والے امریکی ڈاکٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ بلاشبہ موت کے بعد زندگی موجود ہے۔
امریکی ریڈی ایشن آنکولوجسٹ کے شعبے سے منسلک، ڈاکٹر جیفری لانگ نے موت کا قریب سے تجربہ کرنے والے افراد کا ڈیٹا جمع کرنے کے لیے 1998ء میں ’نیئر ڈیتھ ایکسپیریئنس ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کی بنیاد رکھی تھی۔
حال ہی میں اُنہوں نے امریکی آن لائن میڈیا کمپنی ’انسائیڈر‘ میں اپنے تجربات اور ڈیٹا پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔
انہوں نے اپنے موضوع ’نیئر ڈیتھ ایکسپیریئنس‘ سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ ایک ایسا مشاہدہ ہے جو نیم مردہ یا موت سے قریب تر انسان اپنی حرکات و سکنات، بولنے، دل کی دھڑکن، دیکھنے، سننے، جذبات اور محسوسات اور کسی دوسری مخلوق سے بات چیت کرنے کے تجربے سے متعلق بتاتا ہے۔
ڈاکٹر جیفری لانگ کا کہنا ہے کہ وہ کئی برسوں سے ایسے افراد کا سائنسی طور پر مشاہدہ کر رہے ہیں جو موت کے قریب (حالتِ نزع میں) تھے اور پھر زندگی کی جانب لوٹ آئے، ڈاکٹر لانگ کے مطابق اگرچہ ہر کہانی مختلف ہوتی ہے مگر موت کے قریب بڑھتے افراد کے معاملات اور ترتیب سے متعلق ایک ہی نمونہ دیکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر جیفری لانگ کے مطابق تقریباً 45فیصد لوگ جنہیں ’نیئر ڈیتھ ایکسپیریئنس‘ ہوتا ہے وہ موت سے واپس لوٹ آنے سے قبل اپنے مردہ جسم سے متعلق کیے جانے والے تجربے کی بات کرتے ہیں۔
مسٹر لانگ کا کہنا ہے کہ موت کا انتہائی قریب سے تجربہ کرنے والے افراد دعویٰ کرتے ہیں کہ مردہ حالت میں اُن کا شعور اُن کے جسم سے الگ تھا، اُنہیں عام طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُن کا جسم اپنے مردہ جسم کے اوپر منڈلا رہا تھا اور وہ اس دوران دیکھ اور سُن سکتے ہیں کہ آیا اِن کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر لانگ کا کہنا ہے کہ ایسے افراد بتاتے ہیں کہ ’جسم سے روح باہر ہونے کے تجربے کے بعد اُنہیں کسی اور دائرے میں لے جایا گیا، بہت سے لوگ ایک روشن دار سرنگ سے گزرنے کا تجربہ کرنے سے متعلق بتاتے ہیں۔
ڈاکٹر لانگ کا اپنی اس رپورٹ میں بتانا ہے کہ موت کا قریب سے تجربہ کرنے والے افراد اُنہیں بتاتے ہیں کہ اُن کے جسم سے روح نکلنے کے بعد اُن کا استقبال اُن مرنے والے پیاروں نے کیا جیسے کہ کوئی انسان یا پھر پالتو جانور، زیادہ تر لوگ محبت اور امن کے زبردست احساس سے متعلق بتاتے ہیں، اُنہیں لگتا ہے کہ یہ دوسرا دائرہ ان کا اصل گھر ہے۔
ڈاکٹر جیفری لانگ نے اپنی اس رپورٹ میں ایسے تجربات کرنے والے افراد اور گواہوں کے بیانات بھی شامل کیے ہیں۔
ایک مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر جیفری لانگ کا کہنا تھا کہ ’ایک عورت اپنے گھوڑے پر سواری کرتے ہوئے ہوش کھو بیٹھی، اس کا جسم وہیں اُسی جگہ پر موجود رہا جبکہ اس کا شعور اس کے گھوڑے کے ساتھ سفر کر رہا تھا، جب گھوڑا سَرپَٹ دوڑ کر گودام کی طرف واپس چلا آیا، اس خاتون نے اپنے ہوش میں آنے کے بعد وہاں ہونے والے سارے معاملات کو بالکل صحیح انداز میں بتایا کیونکہ اس نے اپنے جسم کے وہاں نہ ہونے کے باوجود اُن لمحات کو دیکھا تھا، اس خاتون کی باتوں کی وہاں موجود سب افراد نے تائید بھی کی تھی۔
دوسری جانب ڈاکٹر جیفری لانگ کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں آج تک ان تجربات کی کوئی سائنسی وضاحت نہیں ملی ہے۔
ڈاکٹر جیفری کا کہنا ہے کہ ’میں نے تحقیق پڑھی ہے اور نیئر ڈیتھ ایکسپیریئنس کی ہر ممکنہ وضاحت پر غور کیا ہے، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی مثال یا کہانی منطقی نہیں ہے۔‘
اسی طرح کی تحقیق کرنے والے دوسرے ڈاکٹروں نے بھی ڈاکٹر لانگ سے اتفاق کیا اور چند حقیقی مثالوں کا حوالہ دیا ہے۔
Comments are closed.