بری شہرت، مہنگائی یا سستے متبادل: ترکی کے ہوٹل خالی کیوں پڑے ہیں؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, اوزگ ازدمیر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ترکی
  • ایک گھنٹہ قبل

بحیرہ روم کے کنارے ترکی کے دلکش ساحل یوں سیاحوں سے کھچا کھچ بھرے ہوا کرتے تھے کہ یہاں موسم گرما کے دوران تولیہ رکھنے کی جگہ بھی مشکل سے ملتی تھی۔لیکن اس سال ایسا نہیں ہے۔ اگرچہ حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں سیاحت سے حاصل شدہ منافع 12 فیصد تک بڑھا اور سیاحوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ رہی، ترکی میں سیاحت کا شعبہ حقیقت میں سست روی کا شکار رہا ہے۔ٹکونفیڈ نامی سیاحتی تنظیم کے مہمت گیم کا کہنا ہے کہ برسوں میں پہلی بار جولائی کے مہینے میں ہوٹلوں میں کمروں کی بڑی تعداد خالی ہے۔ان کے مطابق ہوٹلوں میں سیاحوں کی جانب سے کرائے پر کمرے حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ شرح 60 فیصد تک رہی۔ عام طور پر ترکی میں یہ شرح گرمیوں میں 90 سے 95 فیصد تک ہوا کرتی تھی۔

کورونا وبا سے جڑی سفری پابندیوں کے خاتمے کے بعد سے دنیا بھر میں ہر سال سیاحت کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔لیکن ترکی میں یہ رفتار بحیرہ روم کے خطے میں واقع دیگر مقامات کے مقابلے میں اتنی تیز نہیں تھی۔ بظاہر سیاح سستے متبادل کو ترجیح دیتے نظر آئے۔ترکی میں افراط زر نے بھی مقامی لوگوں کو چھٹیاں منانے سے روکے رکھا اور ہوٹلوں میں کم سیاحوں کی موجودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں اس وقت مہنگائی کی شرح 61 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ترکی کے مغرب میں واقع کسمے کے ایک ہوٹل کے مالک نور دمان کہتے ہیں کہ ’میرے ہوٹل کے کمرے صرف سمندر سے قربت کی وجہ سے بھرتے ہیں۔ باقی ہوٹل مشکل کا شکار ہیں۔ ہم سب سے کمروں کا کرایہ بھی کم کر دیا جبکہ بجلی اور باقی اخراجات بڑھے ہیں۔‘یورپ میں رہائش پذیر ترک نژاد افراد، جو اکثر چھٹیوں میں ترکی چلے جایا کرتے تھے، بھی نور کے خیال میں اب نہیں آ رہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

کھیلوں سے جڑی سیاحت کے اثرات

ترکی کے حکام کا ماننا ہے کہ کم سیاحوں کی آمد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بار موسم گرما میں کھیلوں کے اہم ٹورنامنٹ یورپ میں منعقد ہو رہے تھے۔یاد رہے کہ جرمنی میں 14 جون سے 14 جولائی تک یورو فٹ بال چیمپیئن شپ منعقد ہوئی جہاں چھ لاکھ اضافی سیاحوں کی آمد متوقع تھی۔ دوسری جانب پیرس میں اولمپکس کے تین ہفتوں کے دوران ایک کروڑ سے زیادہ سیاح موجود تھے۔ان تقریبات اور ٹورنامنٹ کی وجہ سے، ترکی کے وزیر ثقافت اور سیاحت محمت نوری کا کہنا ہے کہ ستمبر تک سیاحوں کی آمد کا سلسلہ سست روی کا شکار ہی رہنے کے امکانات ہیں۔ تاہم ان کے مطابق اس کے بعد ترکی آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ان کا ماننا ہے کہ حالیہ اعداد و شمار سے علم ہوتا ہے کہ ہم سالانہ چھ کروڑ سیاحوں کا ہدف باآسانی عبور کر لیں گے جو چھ فیصد اضافہ ہوگا۔

یونانی جزیروں کی کشش

وزیر سیاحت کا کہنا تھا کہ یونان کی جانب سے ترکی کے شہریوں کے لیے ویزا پابندیوں میں نرمی کی وجہ سے بھی بہت سے ہوٹل خالی رہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesیاد رہے کہ رواں سال یونانی حکام نے ایک ویزا ایکسپریس سکیم متعارف کروائی تھی جس کے تحت ترکی کے شہری یونان کے 10 جزائر پہنچنے کے بعد ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔اس منصوبے کے نتیجے میں ان مقامات پر سیاحوں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا اور بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے دعوی کیا کہ یونانی جزائر ترکی کے مقابلے میں بہت سستے ہیں۔خبروں کے مطابق ترکی کی حکومت ایکسچینج ریٹ کم رکھ کر مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ترکی کی سیاحتی ایسوسی ایشن کے سربراہ فروز کا کہنا ہے کہ ’ایکسچینج ریٹ کافی عرصے سے کم ہے جب کہ قیمتیں بڑھ چکی ہیں اور اسی وجہ سے رہنے کے اخراجات بڑھے ہیں۔‘

استنبول کے تاریخِ مرکز میں ایک ہوٹل کے مالک تارکان بھی اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’عرب ممالک سے آنے والے سیاح یونان کو ترکی پر ترجیح دیتے ہیں اور کھانے پینے کے ساتھ ساتھ کپڑوں کی زیادہ قیمتوں کی شکایت کرتے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ہم منافع نہیں کما رہے اور شکر کرتے ہیں اگر خرچہ ہی پورا ہو جائے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں ہمارا خرچہ تین گنا بڑھا ہے جبکہ آمدن اتنی ہی ہے۔‘سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین نے یونان کے جزائر پر موجود ہوٹلوں کے بل دکھا کر دعوی کیا کہ وہاں پر ترکی کے مقابلے میں قیمتیں کم ہیں۔ایکس پر ایک صارف نے دعوی کیا کہ وہ یونان کے جزیرے لیسبوس پر چار راتیں جتنے پیسوں میں گزار سکے وہ اتنی قیمت میں ترکی کے پرتعیش ہوٹل میں صرف ایک رات گزار پاتے۔انھوں نے لکھا کہ ’ترکی کے مقابلے میں یہ تقریبا مفت ہی ہے۔‘دوسری جانب مصر، مراکش، تیونس اور دبئی بھی بین الاقوامی سیاحوں کے لیے اہم منزل بن چکے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

بری شہرت

مسئلہ صرف زیادہ قیمت کا ہی نہیں ہے بلکہ سیاحوں کی جانب سے ایسی شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ ان سے دھوکہ ہوا۔ یہ شکایات بھی سیاحوں کے فیصلوں کی وجہ ہو سکتی ہیں۔گزشتہ ماہ انتالیہ میں اس وقت ایک بڑا تنازع سامنے آیا جب ایک سیاح سے انار کے جوس کے دو گلاس کے لیے 1200 لیرا مانگے گئے۔ مقامی حکام کی مداخلت کے بعد سیاح کو ان کی رقم واپس ملی۔اس طرح کے واقعات کی وجہ سے شہرت کو دھچکہ پہنچتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر عارضی پابندی نے بھی ایک مسئلہ پیدا کیا۔تارکان تقریبا چار سو ہوٹلوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے ہم مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کر لیتے تھے۔ اب ہم پریشان ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}