بریت کے باوجود ملزم کو ریکارڈ یافتہ قرار دینے پر عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بریت کے بعد اُسی مقدمے کو بطور مجرمانہ ریکارڈ پیش کرنا بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کیسز سے بریت کے باوجود ملزم کے ریکارڈ یافتہ قرار دینے پر فیصلہ جاری کیا اور فیصلے میں کہا کہ بریت کے بعد ملزم کا ریکارڈ یافتہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مجرمانہ ریکارڈ میں صرف وہی کیسز آتے ہیں، جن میں ملزم کو سزا مل چکی ہو، ایف آئی آر، سزا معطلی کے احکامات بھی ملزم کے مجرمانہ ریکارڈ میں شامل ہوتے ہیں۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے قرار دیا کہ مقدمہ خارج کرنے کے عدالتی حکم یا پراسکیوشن کے مقدمہ واپس لیے جانے کو مجرمانہ ریکارڈ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
عدالتی فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا کہ عدالت سے بریت کے بعد ملزم کا ریکارڈ یافتہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔
Comments are closed.