بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

برکینا فاسو میں فوجی بغاوت کا الزام، فرانسیسی مخالف غصے میں اضافہ

افریقی ملک برکینا فاسو میں دوسری فوجی بغاوت کا الزام فرانس پر لگانے کے بعد مقامی افراد میں فرانسیسی مخالف غصے میں اضافہ ہوگیا۔

فرانس کی جانب سے بغاوت کے الزام کی تردید کے باوجود بھی برکینا فاسو میں فرانسیسی مخالف غصے نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ 

برکینا فاسو ایک سال میں اپنی دوسری فوجی بغاوت کا سامنا کرنے کے بعد الجھن اور غیر یقینی کی صورتحال سے دو چار ہے۔ 

ہفتے کے روز دارالحکومت اوگاڈوگو میں گولیاں چلائی گئیں اور مظاہرین نے فرانسیسی سفارت خانے کے باہر آگ لگا دی۔

برکینا فاسو کی فوج نے کیپٹن ابراہیم تراورے کو نیا سربراہ نامزد کیا ہے، فوج نے آئین کو معطل کر کے تمام سرکاری اداروں کو تحلیل کر دیا۔

بغاوت کرنے والے رہنما کیپٹن ابراہیم ٹرور نے صدر پال ہنری ڈمیبا پر الزام عائد کیا کہ وہ جوابی حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا‘۔ 

ابراہیم ٹرور نے فرانسیسی فوج پر ڈمیبا کو اپنے ایک فوجی اڈے پر چھپانے کا الزام بھی لگایا، تاہم اس الزام کی بھی فرانس کی جانب سے فوری طور پر تردید کردی گئی۔ 

فرانسیسی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم برکینا فاسو میں رونما ہونے والے واقعات میں ملوث ہونے کی باضابطہ تردید کرتے ہیں‘۔

اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جس کیمپ میں فرانسیسی افواج مقیم ہیں اس نے کبھی پال ہنری سنڈاگو ڈمیبا کی میزبانی نہیں کی اور نہ ہی ہمارا سفارت خانہ ہے۔‘

برکینا فاسو کے دوسرے سب سے بڑے شہر بوبو دیولاسو میں فرانسیسی مخالف ہجوم نے مبینہ طور پر ایک ثقافتی مرکز ’فرانسیسی انسٹی ٹیوٹ‘ میں توڑ پھوڑ کی۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.