- مصنف, کیٹی رازل، لیریسا کینلے، ڈیرن گراہم
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 54 منٹ قبل
سنہ 2020 میں ایک ڈچ ڈیلر ڈاکٹر ایتائی گریڈل کو یہ شک ہونے لگا کہ آن لائن پلیٹ فارم ای بے پر جو شخص انھیں نوادرات فروخت کرتا رہا وہ حقیقت میں برٹش میوزیم سے چوری میں ملوث تھا۔تقریبا دو سال گزرنے کے بعد برٹش میوزیم کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ ہزاروں نوادرات غائب یا چرائے جا چکے تھے اور کچھ کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔میوزیم نے آخرکار ڈاکٹر گریڈل پر یقین کر لیا لیکن اسے ایسا کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟
پہلا ثبوت
ڈاکٹر گریڈل کو پیچیدہ نقش و نگار والے قدیم جواہرات اکھٹا کرنے کا شوق ہے اور اس شعبے میں کام کرنے والوں کی کم تعداد کی وجہ سے انٹرنیٹ اور ای بے جیسے پلیٹ فارم خرید و فروخت کا اہم ذریعہ ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ بیچا جا رہا ہوتا ہے۔ لیکن سات اگست سنہ 2016 کے دن کچھ غیر معمولی ہوا۔
سلطان 1966 نامی ای بے صارف نے ایک نادر ہیرا فقط 40 پاؤنڈ میں فروخت کے لیے پوسٹ کیا لیکن چند ہی گھنٹوں بعد اس اشتہار کو ہٹا دیا گیا۔
ڈاکٹر گریڈل کہتے ہیں کہ بہت ہی عجیب و غریب ہے کہ وہ ایک چھوٹے سے ڈینش جزیرے پر کمپیوٹر پر بیٹھ کر برٹش میوزیم میں ہونے والی اس غلط چیز کو دریافت کر سکے۔انھوں نے سلطان 1966 کو پیغام بھیجا کہ انھوں نے پریاپس کو کیوں ہٹا دیا۔ بیچنے والے نے لکھا یہ غلطی سے ہوا کیوں کہ یہ دراصل ان کی بہن کا ہے اور اسے وہ بیچنا نہیں چاہتیں۔وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سلطان کو اپنے شک کے بارے میں پتہ نہیں چلنے دیں گے۔ اس کے بجائے انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سلطان پر نظر رکھیں گے کہ کیا ان کی جانب سے میوزیئم کی کوئی اور چیز فروخت کے لیے پوسٹ کی جاتی ہے یا نہیں۔اگلا ثبوت آنے میں چار سال لگے لیکن اس بار ڈاکٹر گریڈل کو یہ اندازہ ہو گیا کہ برٹش میوزیم کے اندر ہی موجود کوئی فرد اس میں ملوث تھا۔
دوسرا ثبوت
مئی 2020 میں ڈاکٹر گریڈل نے قیمتی پتھروں سے متعلق ایک نئی شائع ہونے والی کتاب میں ایک تصویر دیکھی۔ تصویر نمبر 736 میں روم کے بادشاہ آگسٹس کی ایک شبیہہ کو قیمتی پتھر پہنے دکھایا گیا۔لیکن اس کے بالوں نے ان کو شک میں مبتلا کر دیا کیوں کہ ان کے نزدیک یہ اس زمانے کے حساب سے غیر معمولی تھے۔اس پتھر پر لگا لیبل یہ بتا رہا تھا کہ یہ برٹش میوزیم سے منسلک ہے۔ ڈاکٹر گریڈل نے اس کے ریکارڈز کو دیکھا اور ان کو علم ہوا کہ ایک برطانوی ڈیلر میلکم نے ان کو یہ فروخت کرنے کی پیشکش کی تھی۔ڈاکٹر گریڈل نے میلکم کو اپنے شک سے فوری طور پر آگاہ کر دیا۔جب میلکم نے میوزیم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انھیں بتایا گیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے میوزیئم بند ہے۔تاہم میلکم کو جس شخص نے یہ پتھر بیچا تھا وہ ڈاکٹر گریڈل کا بھی دوست تھا اور رولف وون کائیر نامی اس شخص سے ڈاکٹر گریڈل نے فوری طور پر رابطہ کیا۔رولف نے انھیں بتایا کہ یہ سبز پتھر انھیں ای بے پر کچھ سال پہلے فروخت کیا گیا تھا۔ بیچنے والے کا نام تھا سلطان 1966۔ڈاکٹر گریڈل کا یہ احساس زور پکڑنے لگا کہ کچھ بہت ہی غلط ہو رہا ہے۔ انھوں نے ہر اس شے کو تلاش کیا جو انھوں نے سلطان 1966 سے خریدی تھی۔وہ سنہ 2014 سے اب تک ای بے سے اس فرد سے خریدی ہر چیز بشمول پرچیوں کا بغور مشاہدہ کرنے لگے اور آن لائن ٹرانزیکشن کی ایک رسید سے انھیں ایک بہت اہم ثبوت ملا جس فروخت کنندہ کا نام پال ہگنز کے بجائے پیٹر ہگنز لکھا ہوا تھا۔ڈاکٹر گریڈل نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پے پال کی رسید اصل بینک اکاؤنٹ سے منسلک ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہی اس کا اصل نام تھا۔‘
’کوئی ان کو پھنسا سکتا ہے‘
ڈاکٹر گریڈل جس وقت ان رسیدوں کو دیکھ رہے تھے پیٹر ہگز کا کیرئیر عروج پر تھا۔جنوری 2021 میں انھیں روم اور یونان کے شعبے کا قائم مقام سربراہ بنایا گیا جس نے دنیا بھر میں چوری شدہ نوادرات کا سراغ لگانے میں مدد کرنے کے لیے شہرت بنائی۔برطانوی حکومت نے ڈاکٹر ہگز کو سنہ 2015 میں اس وقت دنیا کا معروف منتظم قرار دیا جب انھوں نے لیبیا سے چوری ہونے والے 2000 سال پرانے مجسمے کی واپسی میں مدد کی۔ وہ بی بی سی کے پروگرام کرائم واچ میں بھی آئے اور انھوں نے اپنے کام کے بارے میں بتایا۔جب فروری 2021 میں ڈاکٹر گریڈل نے میوزیم کی انتظامیہ کو ای میل کی اور اس میں ڈاکٹر ہگز کے بارے میں اپنے خدشات سے آگاہ کیا تو انھیں ڈپٹی ڈائریکٹر کا جواب ملا لیا۔ ڈاکٹر گریڈل اس بات سے بے خبر تھے کہ انتظامیہ ایک دن پہلے ہی ڈاکٹر ہگز کے بارے میں الزامات سے آگاہ ہو چکی تھی اور ان کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہو سکتا ہے کوئی ڈاکٹر ہگز کو پھنسانے کی کوشش کر رہا ہو۔حقیقت میں ماہر آثار قدیمہ ڈوروتھی لوبل کنگ نے پہلے ہی ڈاکٹر ہگز کو بھی مطلع کر دیا تھا جب ڈاکٹر گریڈل کی جانب سے ان سے سوشل میڈیا پر اسی معاملے پر رابطہ کیا گیا تھا۔کورٹ کی دستاویزات کے مطابق لوبل کنگ کو ڈاکٹر ہگز کے بارے میں یہ تشویش تھی کہ انھیں پھنسایا جا رہا ہے۔ انھوں نے ایک ای میل ڈاکٹر ہگز کو بھیجی جسے ڈاکٹر ہگز نے خود ہی میوزیئم کے نائب ڈائریکٹر ڈاکٹر ولیمز کو بھجوا دی۔میوزیئم نے بھی ڈاکٹر گریڈل کے تحفظات کے بارے میں تحقیقات کیں اور اس دوران ڈاکٹر ہگز کو اپنا ڈیپارٹمنٹ چلانے کی اجازت دی گئی۔میوزیئم کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ہگز نے اس دوران کمپیوٹر ریکارڈ میں ردوبدل کی کیا اور یہ ظاہر کیا کہ کچھ اشیا میوزیم سے کئی دہائیاں پہلے غائب ہو چکی تھیں۔میوزیئم کی عدالتی دستاویزات کے مطابق ڈاکٹر ہگز نے ایک غلط رپورٹ تیار کی جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ سبز رنگ کا قیمتی پتھر جو میلکم نے خریدا دراصل کئی دہائیاں پہلے چرا لیا گیا تھا۔برٹش میوزیئم کے چییرمین جارج اوزبورن کا کہنا ہے کہ میوزیم کی جانب سے جمع کرائی گئی عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ چور کو اپنی چوری چھپانے کے لیے بہت تگ و دو کرنا پڑی۔مئی 2021 میں مالکم کو ایک میٹنگ میں بلایا گیا جس میں انھیں اپنے پاس موجود قیمتی پتھر کو واپس کرنا تھا۔ انھوں نےبتایا کہ میوزیئم کو اس میں دلچسپی نہیں تھی کہ اسے انھوں نے خریدا کہاں سے تھا بلکہ میوزیم اس پر خوش تھا کہ یہ انھیں واپس مل گیا ہے۔اسی دوران ڈاکٹر گریڈل کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی کہ الزامات کے بارے میں باوجود بارہا پوچھنے کے انھیں کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔جولائی 2021 میں انھیں ڈپٹی ڈائریکٹر کی جانب سے جواب موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ میوزیئم نے تفصیلی تحقیقات کی ہیں، ہر چیز کو چیک کیا گیا ہے اور سٹاف کی جانب سے کسی گڑ بڑ کے بارے میں کچھ بھی سامنے نہیں آیا۔ڈاکٹر گریڈل کہتے ہیں ’یہ بہت عجیب وغریب تھا بالکل مضحکہ خیز۔‘جب ڈاکٹر گریڈل نے مزید جاننے کی کوشش کی تو میوزیم کی جانب سے انھیں بتایا گیا کہ تفصیلات خفیہ ہیں۔
نادر پتھر جنھیں پلاس سے خراب کیا گیا
لیکن میوزیم کے اندر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا تھا۔ دسمبر 2021 کو معمول کی جانچ پڑتال کے دوران پتہ چلا کہ یونان اور روم کے ڈیپارٹمنٹ سے کچھ چیزیں غائب ہو گئی ہیں۔ اس وقت دوسری تحقیقات کا آغاز کیا گیااگلے سال اپریل کے مہینے میں ایک منتظم کو بھرتی کیا گیا اور انھیں کہا گیا کہ وہ پیٹر ہگز کی نگرانی میں میوزیئم کے اس شعبے میں موجود ہر آئٹم کو چیک کریں۔میوزیم کی جانب سے کہا گیا کہ نئے منتظم نے 300 سے زیادہ ایسے رجسٹرڈ آئٹمز کا پتہ لگایا جن میں سے بہت سے سونے پر رکھے گئے تھے یا سونے کے خول میں لگے ہوئے تھے اور انھیں یا تو چوری کر لیا گیا یا پھر انھیں نقصان پہنچایا گیا۔کچھ ایسے تھے جن کو بہت زیادہ کھرچا گیا تھا اور ایسے لگتا تھا انھیں پلاس کے ذریعے نقصان پہنچایا گیا ہے۔منتظم نے جب غیر رجسٹرڈ شدہ اشیا کو دیکھا، خاص طور پر جب وہ ایک سٹور میں گئیں، تو انھیں پتہ چلا کہ 1161 اشیا غائب تھیں۔ یہ کل غائب ہونے والی اشیا میں سے تین چوتھائی تعداد تھی۔منتظم نے ابتدائی رپورٹ ڈاکٹر ہگز کو سنہ 2022 کے آخر میں دے دی۔ کورٹ کی دستاویزات کے مطابق پیٹر ہگز نے ان نتائج میں تاخیر کرنے کی کئی بار کوشش کی۔دستاویز کے مطابق پہلے انھوں نے کہا کہ یہ اچھا نہیں کہ اس خبر کو ہفتے کے آخر یا کرسمس کے موقع پر جاری کیا جائے۔ پھر انھوں نے ایک اور موقعے پر کہا کہ یہ ان کی سالگرہ ہے۔ دراصل وہ معاملے کو نمٹانا ہی نہیں چاہتے تھے۔لیکن میوزیئم کا کہنا ہے کہ بھرتی ہونے والی نئی منتظم نے اصرار کیا اور پھر جلد ہی انھیں اوپر اعلیٰ عہدے داروں تک پہنچنے کا موقع ملا۔میوزیئم کے ڈائریکٹر ہارٹ ونگ فشر نے ان معلومات کو چیئرمین جارج اوزبورن کے ساتھ شیئر کیا جنھوں نے فوری طور پر پولیس کو بلانے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر ہگز کو عہدے سے معطل کر دیا گیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.