برٹش میوزیم سے بیش قیمت نوادرات کی کئی برس تک چوری کا پول ایک ڈیلر نے کیسے کھولا
،تصویر کا کیپشن پیٹر ہگز نے میوزیم میں سنہ 1933 میں کام شروع کیا

  • مصنف, کیٹی رازل، لیریسا کینلے، ڈیرن گراہم
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 54 منٹ قبل

سنہ 2020 میں ایک ڈچ ڈیلر ڈاکٹر ایتائی گریڈل کو یہ شک ہونے لگا کہ آن لائن پلیٹ فارم ای بے پر جو شخص انھیں نوادرات فروخت کرتا رہا وہ حقیقت میں برٹش میوزیم سے چوری میں ملوث تھا۔تقریبا دو سال گزرنے کے بعد برٹش میوزیم کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ ہزاروں نوادرات غائب یا چرائے جا چکے تھے اور کچھ کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔میوزیم نے آخرکار ڈاکٹر گریڈل پر یقین کر لیا لیکن اسے ایسا کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟

پہلا ثبوت

ڈاکٹر گریڈل کو پیچیدہ نقش و نگار والے قدیم جواہرات اکھٹا کرنے کا شوق ہے اور اس شعبے میں کام کرنے والوں کی کم تعداد کی وجہ سے انٹرنیٹ اور ای بے جیسے پلیٹ فارم خرید و فروخت کا اہم ذریعہ ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ بیچا جا رہا ہوتا ہے۔ لیکن سات اگست سنہ 2016 کے دن کچھ غیر معمولی ہوا۔

سلطان 1966 نامی ای بے صارف نے ایک نادر ہیرا فقط 40 پاؤنڈ میں فروخت کے لیے پوسٹ کیا لیکن چند ہی گھنٹوں بعد اس اشتہار کو ہٹا دیا گیا۔

،تصویر کا کیپشن ڈاکٹر ایتائی قدیم قیمتی پتھروں کو اکھٹا کرتے ہیں
یہ پریاپس نامی دیوتا کے نقش والا قیمتی پتھر تھا اور شاید بیچنے والے کو امید تھی کہ اتنے مختصر وقت میں کسی نے اسے نہیں دیکھا ہو گا۔ لیکن ڈاکٹر گریڈل اسے دیکھ چکے تھے۔ ان کا کہنا ہےکہ وہ پیدائشی طور پر ہی اچھے حافظے کے حامل رہے ہیں اور اس غیر معمولی مہارت نے انہیں نایاب دریافتوں کی شناخت کرنے میں مدد کی ہے۔اسی مہارت نے ان کو مشتبہ چور کی شناخت کا کا راز حل کرنے میں بھی مدد دی۔ڈاکٹر گریڈل ای بے پر سلطان1966 سے دو سال سے قیمتی پتھر خرید رہے تھے جس نے انھیں بتایا تھا کہ اس کا اصلی نام پال ہیگنز ہے اور یہ جواہرات اسے اپنے دادا سے ورثے میں ملے۔ یہ جواہرات کافی کم قیمت پر بیچے جا رہے تھے لیکن ڈاکٹر گریڈل جانتے تھے کہ ان میں سے بہت سے پتھر بیش قیمت تھے۔ڈاکٹر گریڈل کو معلوم تھا کہ انھوں نے پریاپس والے پتھر کو پہلے دیکھا ہے۔ انھیں یقین تھا کہ یہ قدیم پتھروں کے اس کیٹلاگ میں موجود تھا جو انھوں نے برٹش میوزیم سے لیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ وہی چیز ہے اور میں بہت کنفیوز تھا۔‘،تصویر کا ذریعہbbcمیوزیم کی جانب سے بعد میں ہائی کورٹ میں فراہم کردہ دستاویزات میں بتایا گیا کہ اس کا خیال ہے کہ اس پتھر کو یونان اور روم ڈیپارٹمنٹ کے ایک سٹور روم سے ایک سینیئر منتظم ڈاکٹر پیٹر ہگز نے فروخت کے لیے پیش کرنے سے فقط ایک ہفتہ قبل مستعار لیا تھا۔ڈاکٹر ہگز نے برٹش میوزیم کے ساتھ سنہ 1933 میں کام شروع کیا تھا اور انھوں نے یونیورسٹی آف لیورپول سے آثار قدیمہ کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔میوزیم چیئرمین کے مطابق ڈاکٹر ہگز تنہائی پسند اور خاموش طبع انسان تھے۔میوزیم کا ماننا ہے کہ 2016 میں ڈاکٹر ہگنز نے ای بے پر میوزیم کے ڈیٹا بیس میں لاگ ان کرنے کے پریاپس پتھر کی انٹری سے کیٹلاگ میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی۔ ایک اندازے کے مطابق عجائب گھر کی ملکیت میں تقریبا اسی لاکھ اشیا ہیں جن میں سے چوبیس لاکھ کی فہرست میں انٹری نہیں کی گئی۔ڈاکٹر ہِگنز کے خلاف سول کورٹ میں مقدمہ لانے والے برٹش میوزیم کا اب یہ خیال ہے کہ زیادہ تر ایسے ہی نوادرات کو نشانہ بنایا گیا جو فہرست میں شامل نہیں تھے لیکن اس بار ان سے ایک غلطی سرزد ہوئی۔ہِگنز یہ دیکھ سکتے تھے کہ کیمیو ایک کیٹلاگ شدہ آئٹم تھا اور اسے عوام اور عملہ دونوں ایک ہی طرح سے سرچ کر سکتے تھے۔ حتیٰ کہ یہ میوزیم کی ویب سائٹ پر بھی موجود تھا۔ یہ اس قسم کی چیز نہیں تھی جو غائب ہو اور یاد نہ ہو۔میوزیم نے عدالت میں جمع کرائی جانے والی دستاویزات میں کہا ہے کہ اگر ڈاکٹر ہگنز ڈیٹا میں ردوبدل کی کوشش میں کامیاب ہو جاتے تو اس پتھر کی تصویر کو چھپا دیتے لیکن وہ اس میں ناکام ہو گئے۔اگلے دن ڈاکٹر ہگنز سٹور روم میں اکیلے واپس آئے جہاں انھوں نے کیمئیو کو رکھا تھا۔ میوزیم کا خیال ہے کہ انھوں نے وہ پتھر واپس رکھ دیا۔لیکن اس پتھر کو جس سونے پر رکھا گیا تھا وہ غائب ہو چکا تھا۔ میوزیم کا خیال ہے کہ اسے ڈاکٹر ہگز نے ایک کباڑیے کو بیچ دیا تھا۔کیمیئو کی قیمت اندازاً 15 ہزار پاؤنڈ تھی۔ میوزیم کا کہنا ہے کہ اس پر اگر سونے کا خول اب بھی موجود ہے تو اس کی قیمت اس سے دو گنا زیادہ ہو گی۔

ڈاکٹر گریڈل کہتے ہیں کہ بہت ہی عجیب و غریب ہے کہ وہ ایک چھوٹے سے ڈینش جزیرے پر کمپیوٹر پر بیٹھ کر برٹش میوزیم میں ہونے والی اس غلط چیز کو دریافت کر سکے۔انھوں نے سلطان 1966 کو پیغام بھیجا کہ انھوں نے پریاپس کو کیوں ہٹا دیا۔ بیچنے والے نے لکھا یہ غلطی سے ہوا کیوں کہ یہ دراصل ان کی بہن کا ہے اور اسے وہ بیچنا نہیں چاہتیں۔وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سلطان کو اپنے شک کے بارے میں پتہ نہیں چلنے دیں گے۔ اس کے بجائے انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سلطان پر نظر رکھیں گے کہ کیا ان کی جانب سے میوزیئم کی کوئی اور چیز فروخت کے لیے پوسٹ کی جاتی ہے یا نہیں۔اگلا ثبوت آنے میں چار سال لگے لیکن اس بار ڈاکٹر گریڈل کو یہ اندازہ ہو گیا کہ برٹش میوزیم کے اندر ہی موجود کوئی فرد اس میں ملوث تھا۔

دوسرا ثبوت

مئی 2020 میں ڈاکٹر گریڈل نے قیمتی پتھروں سے متعلق ایک نئی شائع ہونے والی کتاب میں ایک تصویر دیکھی۔ تصویر نمبر 736 میں روم کے بادشاہ آگسٹس کی ایک شبیہہ کو قیمتی پتھر پہنے دکھایا گیا۔لیکن اس کے بالوں نے ان کو شک میں مبتلا کر دیا کیوں کہ ان کے نزدیک یہ اس زمانے کے حساب سے غیر معمولی تھے۔اس پتھر پر لگا لیبل یہ بتا رہا تھا کہ یہ برٹش میوزیم سے منسلک ہے۔ ڈاکٹر گریڈل نے اس کے ریکارڈز کو دیکھا اور ان کو علم ہوا کہ ایک برطانوی ڈیلر میلکم نے ان کو یہ فروخت کرنے کی پیشکش کی تھی۔ڈاکٹر گریڈل نے میلکم کو اپنے شک سے فوری طور پر آگاہ کر دیا۔جب میلکم نے میوزیم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انھیں بتایا گیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے میوزیئم بند ہے۔تاہم میلکم کو جس شخص نے یہ پتھر بیچا تھا وہ ڈاکٹر گریڈل کا بھی دوست تھا اور رولف وون کائیر نامی اس شخص سے ڈاکٹر گریڈل نے فوری طور پر رابطہ کیا۔رولف نے انھیں بتایا کہ یہ سبز پتھر انھیں ای بے پر کچھ سال پہلے فروخت کیا گیا تھا۔ بیچنے والے کا نام تھا سلطان 1966۔ڈاکٹر گریڈل کا یہ احساس زور پکڑنے لگا کہ کچھ بہت ہی غلط ہو رہا ہے۔ انھوں نے ہر اس شے کو تلاش کیا جو انھوں نے سلطان 1966 سے خریدی تھی۔وہ سنہ 2014 سے اب تک ای بے سے اس فرد سے خریدی ہر چیز بشمول پرچیوں کا بغور مشاہدہ کرنے لگے اور آن لائن ٹرانزیکشن کی ایک رسید سے انھیں ایک بہت اہم ثبوت ملا جس فروخت کنندہ کا نام پال ہگنز کے بجائے پیٹر ہگنز لکھا ہوا تھا۔ڈاکٹر گریڈل نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پے پال کی رسید اصل بینک اکاؤنٹ سے منسلک ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہی اس کا اصل نام تھا۔‘

،تصویر کا کیپشنایک رسید پر فروخت کنندہ کا نام پال ہگنز کے بجائے پیٹر ہگنز لکھا ہوا تھا۔
انھوں نے فوری طور پر ایک بار پھر رولف وون کو فون کیا۔’رولف نے مجھ سے کہا کہ اتائی کیا تم جانتے ہو کہ یہ برٹش میوزیم کے روم اور یونان کے شعبے کے منتظم کا نام ہے۔ میرے سر کے بال کھڑے ہوگئے اور میں یہ جان کر ہکا بکا رہ گیا۔‘آنے والے دنوں میں ڈاکٹر گریڈل پیٹر ہگز اور آن لائن پھتروں کے بیوپاریوں کے درمیان نئے نئے حوالوں کو سامنے لاتے رہے۔انھیں پتہ چلا کہ سلطان 1966 ڈاکٹر ہگز کا سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر، جسے اب ایکس کے نام سے جانا جاتا ہے، پر موجود اکاؤنٹ کا نام بھی تھا اور وہ 1966 میں پیدا ہوئے تھے۔آخرکار ڈاکٹر گریڈل کو ایک ای بے کی رسید ملی جس پر ایک مکمل پتہ درج تھا۔ ڈاکٹر گریڈل نے جائیداد کے ریکارڈ سے اس پتے کو چیک کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کو جو نام دیا گیا وہ برٹش میوزیئم کیوریٹر پیٹر ہگز کا تھا۔ہر تصویر ذہن میں نقش کر لینے والے ڈینیش کلیکٹر کو اچانک سب کچھ سمجھ میں آگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ واضح تھا کہ میوزیم کا منتظم ہی اپنے میوزیم سے چوری کر رہا تھا۔‘لیکن ڈاکٹر ہگز نے شروع سے ہی تمام الزامات کی تردید کی اور اب وہ برٹش میوزیم کی جانب سے عدالتی مقدمے میں اپنا دفاع کر رہے ہیں۔

’کوئی ان کو پھنسا سکتا ہے‘

ڈاکٹر گریڈل جس وقت ان رسیدوں کو دیکھ رہے تھے پیٹر ہگز کا کیرئیر عروج پر تھا۔جنوری 2021 میں انھیں روم اور یونان کے شعبے کا قائم مقام سربراہ بنایا گیا جس نے دنیا بھر میں چوری شدہ نوادرات کا سراغ لگانے میں مدد کرنے کے لیے شہرت بنائی۔برطانوی حکومت نے ڈاکٹر ہگز کو سنہ 2015 میں اس وقت دنیا کا معروف منتظم قرار دیا جب انھوں نے لیبیا سے چوری ہونے والے 2000 سال پرانے مجسمے کی واپسی میں مدد کی۔ وہ بی بی سی کے پروگرام کرائم واچ میں بھی آئے اور انھوں نے اپنے کام کے بارے میں بتایا۔جب فروری 2021 میں ڈاکٹر گریڈل نے میوزیم کی انتظامیہ کو ای میل کی اور اس میں ڈاکٹر ہگز کے بارے میں اپنے خدشات سے آگاہ کیا تو انھیں ڈپٹی ڈائریکٹر کا جواب ملا لیا۔ ڈاکٹر گریڈل اس بات سے بے خبر تھے کہ انتظامیہ ایک دن پہلے ہی ڈاکٹر ہگز کے بارے میں الزامات سے آگاہ ہو چکی تھی اور ان کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہو سکتا ہے کوئی ڈاکٹر ہگز کو پھنسانے کی کوشش کر رہا ہو۔حقیقت میں ماہر آثار قدیمہ ڈوروتھی لوبل کنگ نے پہلے ہی ڈاکٹر ہگز کو بھی مطلع کر دیا تھا جب ڈاکٹر گریڈل کی جانب سے ان سے سوشل میڈیا پر اسی معاملے پر رابطہ کیا گیا تھا۔کورٹ کی دستاویزات کے مطابق لوبل کنگ کو ڈاکٹر ہگز کے بارے میں یہ تشویش تھی کہ انھیں پھنسایا جا رہا ہے۔ انھوں نے ایک ای میل ڈاکٹر ہگز کو بھیجی جسے ڈاکٹر ہگز نے خود ہی میوزیئم کے نائب ڈائریکٹر ڈاکٹر ولیمز کو بھجوا دی۔میوزیئم نے بھی ڈاکٹر گریڈل کے تحفظات کے بارے میں تحقیقات کیں اور اس دوران ڈاکٹر ہگز کو اپنا ڈیپارٹمنٹ چلانے کی اجازت دی گئی۔میوزیئم کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ہگز نے اس دوران کمپیوٹر ریکارڈ میں ردوبدل کی کیا اور یہ ظاہر کیا کہ کچھ اشیا میوزیم سے کئی دہائیاں پہلے غائب ہو چکی تھیں۔میوزیئم کی عدالتی دستاویزات کے مطابق ڈاکٹر ہگز نے ایک غلط رپورٹ تیار کی جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ سبز رنگ کا قیمتی پتھر جو میلکم نے خریدا دراصل کئی دہائیاں پہلے چرا لیا گیا تھا۔برٹش میوزیئم کے چییرمین جارج اوزبورن کا کہنا ہے کہ میوزیم کی جانب سے جمع کرائی گئی عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ چور کو اپنی چوری چھپانے کے لیے بہت تگ و دو کرنا پڑی۔مئی 2021 میں مالکم کو ایک میٹنگ میں بلایا گیا جس میں انھیں اپنے پاس موجود قیمتی پتھر کو واپس کرنا تھا۔ انھوں نےبتایا کہ میوزیئم کو اس میں دلچسپی نہیں تھی کہ اسے انھوں نے خریدا کہاں سے تھا بلکہ میوزیم اس پر خوش تھا کہ یہ انھیں واپس مل گیا ہے۔اسی دوران ڈاکٹر گریڈل کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی کہ الزامات کے بارے میں باوجود بارہا پوچھنے کے انھیں کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔جولائی 2021 میں انھیں ڈپٹی ڈائریکٹر کی جانب سے جواب موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ میوزیئم نے تفصیلی تحقیقات کی ہیں، ہر چیز کو چیک کیا گیا ہے اور سٹاف کی جانب سے کسی گڑ بڑ کے بارے میں کچھ بھی سامنے نہیں آیا۔ڈاکٹر گریڈل کہتے ہیں ’یہ بہت عجیب وغریب تھا بالکل مضحکہ خیز۔‘جب ڈاکٹر گریڈل نے مزید جاننے کی کوشش کی تو میوزیم کی جانب سے انھیں بتایا گیا کہ تفصیلات خفیہ ہیں۔

نادر پتھر جنھیں پلاس سے خراب کیا گیا

لیکن میوزیم کے اندر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا تھا۔ دسمبر 2021 کو معمول کی جانچ پڑتال کے دوران پتہ چلا کہ یونان اور روم کے ڈیپارٹمنٹ سے کچھ چیزیں غائب ہو گئی ہیں۔ اس وقت دوسری تحقیقات کا آغاز کیا گیااگلے سال اپریل کے مہینے میں ایک منتظم کو بھرتی کیا گیا اور انھیں کہا گیا کہ وہ پیٹر ہگز کی نگرانی میں میوزیئم کے اس شعبے میں موجود ہر آئٹم کو چیک کریں۔میوزیم کی جانب سے کہا گیا کہ نئے منتظم نے 300 سے زیادہ ایسے رجسٹرڈ آئٹمز کا پتہ لگایا جن میں سے بہت سے سونے پر رکھے گئے تھے یا سونے کے خول میں لگے ہوئے تھے اور انھیں یا تو چوری کر لیا گیا یا پھر انھیں نقصان پہنچایا گیا۔کچھ ایسے تھے جن کو بہت زیادہ کھرچا گیا تھا اور ایسے لگتا تھا انھیں پلاس کے ذریعے نقصان پہنچایا گیا ہے۔منتظم نے جب غیر رجسٹرڈ شدہ اشیا کو دیکھا، خاص طور پر جب وہ ایک سٹور میں گئیں، تو انھیں پتہ چلا کہ 1161 اشیا غائب تھیں۔ یہ کل غائب ہونے والی اشیا میں سے تین چوتھائی تعداد تھی۔منتظم نے ابتدائی رپورٹ ڈاکٹر ہگز کو سنہ 2022 کے آخر میں دے دی۔ کورٹ کی دستاویزات کے مطابق پیٹر ہگز نے ان نتائج میں تاخیر کرنے کی کئی بار کوشش کی۔دستاویز کے مطابق پہلے انھوں نے کہا کہ یہ اچھا نہیں کہ اس خبر کو ہفتے کے آخر یا کرسمس کے موقع پر جاری کیا جائے۔ پھر انھوں نے ایک اور موقعے پر کہا کہ یہ ان کی سالگرہ ہے۔ دراصل وہ معاملے کو نمٹانا ہی نہیں چاہتے تھے۔لیکن میوزیئم کا کہنا ہے کہ بھرتی ہونے والی نئی منتظم نے اصرار کیا اور پھر جلد ہی انھیں اوپر اعلیٰ عہدے داروں تک پہنچنے کا موقع ملا۔میوزیئم کے ڈائریکٹر ہارٹ ونگ فشر نے ان معلومات کو چیئرمین جارج اوزبورن کے ساتھ شیئر کیا جنھوں نے فوری طور پر پولیس کو بلانے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر ہگز کو عہدے سے معطل کر دیا گیا۔

،تصویر کا کیپشن جارج اوزبورن کہتے ہیں کہ یہ میوزیم کے تفتیش کاروں کے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا
ڈاکٹر ہِگز کے کام کی جگہ اور گھر دونوں پر میٹروپولیٹن پولیس نے چھاپے مارے۔میوزیئم کی جانب سے ہائی کورٹ میں دی گئی دستاویزات کے مطابق، پولیس کو اس دوران میوزیم کے ریکارڈ میں ترمیم کرنے کے حوالے سے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹ اور پرنٹ شدہ ہدایات ملی ہیں۔اوزبورن کہتے ہیں کہ ’مجھے 100% یقین ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ چیزیں کس نے چرائی ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ہگز کے گھر سے گمشدہ سکے ملے تھے۔لیکن دوسری جانب ڈاکٹر ہِگز نے اس بات کی تردید کی ہے کہ یہ سکے میوزیم سے آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی مرحوم رشتہ دار سے ہے۔ڈاکٹر ہگز کو جولائی 2023 میں میوزیم سے فارغ کر دیا گیا اور یہ سب ڈاکٹر گریڈل کی جانب سے خطرے کی گھنٹی بجائے جانے کے دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد ہوا۔
،تصویر کا کیپشن ڈینمارک میں ڈاکٹر گریڈل کے گھر کا دراز جس میں ان کے مطابق برٹش میوزیم کی اشیا پڑی ہیں
اوزبورن نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈینش نوادرات کے ڈیلر ڈاکٹر گریڈل نے میوزیم کی بہت خدمت کی اور انھیں افسوس ہے کہ پہلے ہی ان کی بات کو نہیں سنا گیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں اور کسی کو بھی نہ تو گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی الزام عائد کیا گیا ہے۔ڈاکٹر گریڈل کی بات کریں تو انھوں نے ابھی تک 360 سے زائد قیمتی پتھر میوزیم کو واپس کیے ہیں۔ انھیں یقین تھا کہ یہ میوزیم کے ہیں۔ انھوں نے دوسرے ڈیلرز کو فروخت ہونے والے نوادرات کا کھوج لگا کر انھیں بھی میوزیئم کو واپس کرنے میں کردار ادا کیا۔میوزیم یہ معاملہ بھی دیکھ رہا ہے کہ وہ کس طرح خریداروں کو ان کے پیسے واپس کرے کیونکہ انھوں نے انجانے میں ان قیمتی پتھروں کو خریدا جو کہ میوزیم کی کلیکشن سے تھے۔گریڈل جیسے خریدار کہتے ہیں کہ وہ ابھی بھی حساب لگا رہے ہیں کہ انھوں نے ان پتھروں کو خریدنے میں کتنی رقم کھوئی جنھیں کبھی بھی بیچنے کے لیے نہیں رکھا جانا چاہیے تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ میرے پاس میوزیم کو یہ مدد دینے کے لیے کہ وہ قیمتی پتھروں کو کیسے بازیاب کر سکتے ہیں مزید کچھ ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}