برٹش ایئرویز کی پرواز 149: صدام حسین نے جن مسافروں کو بطور ’انسانی ڈھال‘ استعمال کیا وہ آج بھی جواب کے منتظر ہیں
عراق میں صدام حسین نے جن لوگوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا وہ اب تین دہائیوں کے بعد جواب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وہ مسافر جو دو اگست 1990 کو کویت جانے کے لیے برٹش ایئرویز کی پرواز 149 پر سوار ہوئے تھے وہ چاہتے ہیں کہ برطانیہ کی حکومت اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرے، معافی مانگے اور اس معاملے پر اپنی خفیہ رپورٹ منظر عام پر لائے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک نئی کتاب ’آپریشن ٹروجن ہارس‘ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لندن میں حکام نے اس پرواز کو نئے ملٹری انٹیلیجنس افسران کو کویت میں تعینات کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ حکام یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ اس میں شہریوں کے پکڑے جانے کا خطرہ تھا۔
معاملہ کیا ہے؟
اس کتاب کے مصنف سٹیفن ڈیوس نے بتایا ہے کہ برطانیہ کو امریکی انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ سے تین گھنٹے 45 منٹ پہلے خفیہ اطلاع ملی تھی کہ عراقی ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ اس کے باوجود طیارے کو وہاں اترنے دیا گیا حالانکہ اس رات کویت کے کنٹرول ٹاورز تمام پروازیں واپس بھیج رہے تھے۔
جہاز کے اترنے کے کچھ ہی دیر بعد بموں سے لیس عراقی جیٹ طیارے رن وے پر پہنچ گئے۔ ٹینکوں اور فوجیوں نے ایئرپورٹ کو گھیر لیا۔ اس وقت تک کویتی افواج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
ملائیشیا کے شہر کوالالمپور جانے والے طیارے سے اتارے جانے والے 367 مسافروں اور عملے کے ارکان میں سے کچھ نے چار ماہ سے زائد عرصہ قید میں گزارا۔
انھیں پورے عراق میں ان مقامات پر رکھا گیا جہاں مغربی فوجی اتحادیوں کے حملوں کا خطرہ تھا۔
صدام حسین فلائیٹ پر سوار ایک یرغمالی بچے کے ہمراہ۔ اس تصویر کو جاری کرنے کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ عراق مسافروں سے اچھا سلوک کر رہا ہے
’خاموش سازش‘
55 سالہ بیری مینرز اس وقت اپنے ایک دوست کے ساتھ ملائیشیا جا رہے تھے۔
انھوں نے رواں ہفتے لندن میں کہا کہ جو کچھ ہوا اس کے بارے میں ’خاموشی برتنے کی سازش‘ نے حکام پر سے ان کا اعتماد ختم کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ آپ کو سکھائے جانے والے اور مغربی معاشرے کے تمام اقدار کے خلاف ہے۔‘
65 سالہ مارگریٹ ہرن نے کہا کہ ’مجھے برٹش ایئرویز پر بھروسہ تھا لیکن یہ بہت غصے دلانے والی بات ہے۔ خوش قسمتی سے میں اس معاملے سے باہر آ گئی لیکن اس کے لیے ان کا شکریہ نہیں ادا کروں گی۔‘
’جان جانے کا خوف‘
بطور یرغمالی اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے مینرز نے کہا کہ انھوں نے ایک دوسرے قیدی، جو کہ شمالی عراق کے دوکن ڈیم میں انجینیئر تھے، سے دوستی کر لی تھی۔
وہ خوراک کی کمی سے مسلسل پریشان رہتے تھے اور انھیں خدشہ تھا کہ محافظوں کو قیدیوں کو گولی مارنے کا حکم دے دیا جائے گا۔
انھوں نے ڈیوس کی کتاب کی ریلیز کے موقع پر کہا کہ ’آپ یہ ماننے سے انکار کرنے لگتے ہیں کہ آپ کو رہا کیا جائے گا۔ یہ جھوٹ آپ کو کمزور کرتا جاتا ہے۔‘
مسافروں اور عملے کے اتر جانے کے بعد طیارے کو رن وے پر تباہ کر دیا گیا تھا
چار ماہ سے زیادہ عرصے تک قید میں رہنے کے بعد لندن واپس آنے پر مینرز پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے تھے۔ سنہ 1992 میں ان کے ساتھی کی موت کے بعد ان کی ذہنی صحت بگڑ گئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’ایسے حالات میں منفی خیالات اس قدر غالب آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ دنیا میں کوئی خوشی باقی نہیں رہی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے جانے کا کتنا دکھ تھا اور کتنا عراق کا دکھ تھا، دونوں زہر کی طرح تھے۔‘
پانچ ہفتوں کی قید کے دوران ہرن کو کویت سے بصرہ، بغداد اور عراقی ریگستان کے دو حراستی مراکز میں لے جایا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے دو چھوٹے بچوں کی تصویر دیکھ کر روتی تھیں۔ بعد میں افسردگی نے اس کی جگہ لے لی۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہنے لگيں کہ ’میں بے حس ہو چکی تھی۔ آپ چیزوں کو محسوس کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ خوف اور اضطراب کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔‘
ہرن نے کہا کہ ’ہم صدام کے لیے کسی تحفے کی طرح تھے۔ میں نے ان یادوں کو ایک ڈبے میں بند کیا اور کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں دوبارہ خوف محسوس کرنا نہیں چاہتی۔‘
49 سالہ دل کے ڈاکٹر بالاسبرامنیم کو دو ہفتے تک کویت کے ایک ہوٹل میں قیدی بنا کر رکھا گیا۔
ان کا تعلق ایک ملائیشین خاندان سے تھا۔
’میں پہلے جیسا نہیں رہا‘
بالاسبرامنیم کہتے ہیں کہ ’وہ واقعی خوفناک تھا، ایسا لگتا ہے جیسے آپ وہاں نہیں تھے۔ ہم پیچھے چھوٹ جانے والے لوگوں کے لیے خود کو مجرم سمجھ رہے تھے۔‘
مزید پڑھیے
انھوں نے کہا کہ ’میں نے کویت میں کہیں اپنی جوانی کھو دی۔ مجھے اس کی فکر ہوتی ہے۔ وہ موج مستی کرنے والا بے فکرا شخص جو میں پہلے تھا، میں نے اسے کہیں کھو دیا۔‘
اس وقت کے وزیر اعظم پر گمراہ کرنے کا الزام
اس وقت برطانیہ کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر
ڈیوس کو کویت میں برطانوی سفارت خانے کے ایک سابق سفارتکار کی حمایت حاصل ہے جو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ سینیئر سیاستدانوں نے انٹیلیجنس اہلکار بھیجنے کے لیے غلط منصوبہ بنا کر عام چینلز کو نظرانداز کیا۔
ڈیوس نے کہا کہ لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے پر پرواز میں دو گھنٹے کی تاخیر ہوئی اور اس کے لیے ایئر کنڈیشنگ کے مسائل کا حوالہ دیا جاتا ہے اور اسی کے سبب برطانوی عملے کو طیارے میں سوار ہونے دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے پارلیمنٹ سے جھوٹ کہا تھا اور برٹش ایئرویز (بی اے) نے عملے اور مسافروں کو خاموش رہنے کی دھمکی دی تھی۔
اس کے متعلق برٹش ایئرویز نے اے ایف پی کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ایئر لائن اور برطانیہ کی وزارت دفاع نے ہمیشہ غفلت، سازش اور پردہ پوشی کے الزامات کی تردید کی ہے۔
سنہ 2003 میں ایک فرانسیسی عدالت نے برٹش ایئرویز کو حکم دیا کہ وہ پرواز پر سوار فرانسیسی یرغمالیوں کو 1.67 ملین یورو ادا کرے کیونکہ عدالت کے مطابق وہ طیارے کی لینڈنگ کے بعد ’اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں سنگین طور پر ناکام‘ رہے تھے۔
Comments are closed.