جنرل نک کارٹر: ’برطانیہ کو افغانستان میں شکست نہیں ہوئی’
- ہیمش میکے
- بی بی سی نیوز
برطانوی مسلح افواج کے سربراہ نے کہا ہے کہ گو کہ برطانیہ اپنی بیشتر فوج افغانستان سے واپس بلوا رہا ہے لیکن میدان جنگ میں اُسے شکست نہیں ہوئی ہے۔
یہ بات ایک ایسے وقت کہی گئی جب وہاں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان برطانوی فوجی کی والدہ نے سوال اُٹھایا کہ اس سب سے کیا حاصل ہوا۔
چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل سر نک کارٹر نے کہا کہ اس عرصے میں نائن الیون جیسے حملوں کو ‘افغانستان سے ہونے سے’ روکا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ایک دن بھی ان 457 برطانوی افراد کو یاد کرے بغیر نہیں گزرتا جن کی زندگیاں گئیں۔
برطانیہ کی بیشتر فوج کی افغانستان سے نکل جانے کی تصدیق کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ انخلا کا لمحہ کبھی بھی بہترین نہیں ہوسکتا، برطانیہ کی وہاں مستقل موجودگی کا کبھی ارادہ نہیں تھا۔
ولیم الڈرج سنہ 2009 میں 18 سال کی عمر میں افغانستان میں ہلاک ہوئے تھے، اُن کی والدہ لوسی ایلڈرج نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہوں کہ ہم نے وہاں کیا حاصل کیا؟ قربانی کس لیے دی گئی تھی؟ کیونکہ ہم نے بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔
لوسی ایلڈرج کے سوال کے بارے میں جب جنرل کارٹر سے بی بی سی کے ٹوڈے پروگرام میں پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ ‘بالکل سمجھ سکتے ہیں کہ سوگوار کس وجہ سے یہ بات کہہ رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
امریکہ نے طالبان سے معاہدہ کیا تھا جس کے مطابق اگر جنگجؤں نے معاہدے پر عمل کیا تو امریکہ اور نیٹو کے اتحادی اپنی سب افواج افغانستان سے نکال لیں گے
انہوں نے کہا کہ ‘افغانستان میں لڑنے والے سبھی اپنا سر بلند رکھ سکتے ہیں ۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘برطانوی فوج کو میدان جنگ میں شکست نہیں ہوئی۔ انہوں نے ایک انتہائی چالاک اور ناپاک مخالف کے خلاف حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا اور انہوں نے انتہائی دباؤ میں غیرمعمولی ہمت کا مظاہرہ کیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘آخر میں ہم نےالقاعدہ کی جانب سے 9/11 کی طرح کے حملوں کو روکا اور میرے نزدیک اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ یہ صورتحال برقرار نہ رہے۔
جنگ کے عروج پر نیٹو کے پاس افغانستان میں 50 ممالک سے ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ فوج موجود تھی۔ صرف صوبہ ہلمند میں برطانیہ کے 9500 اہلکار اور 137 اڈے تھے۔
لیکن امریکہ اور برطانیہ دونوں کے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لینے کے بعد ملک میں تشدد بڑھتا ہی جا رہا ہے اور خیال ہے کہ اب ملک کے 400 اضلاع میں تین چوتھائی حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔
جمعہ کے روز افغان عہدیداروں نے کہا کہ طالبان نے افغانستان اور ایران کے درمیان ایک اہم سرحد پر قبضہ کر لیا ہے۔
جنرل کارٹر نے کہا کہ افغان فوج نے ملک کے کچھ دیہی علاقوں سے نکل کر اہم شہری علاقوں پر فورسز کو مرکوز کرنے کا ایک سٹریٹیجک فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی مسلح افواج کے سربراہ جنرل سر نک کارٹر کے مطابق اس بات کا فیصلہ جلدی کرنا ممکن نہیں کہ افغانستان میں انھیں کامیابی ملی یا ناکامی
جب جنرل کارٹر سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں میں کامیابی ہوئی ہے یا ناکامی تو انھوں نے کہا کہ ‘اتنی جلدی اس بات کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا’ اور ان کے سامنے تین ممکنہ صورتحال سامنے آسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا ‘میرے خیال میں سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت اپنی بہت تربیت یافتہ فوج کے ساتھ اپنی گرفت برقرار رکھ سکتی ہے۔ اس وقت وہ تمام صوبائی دارالحکومتوں کو اپنے کنٹرول میں رکھ کر اس بات کا ثبوت دے رہی ہے۔
دوسری صورت، ایک انتہائی افسوسناک منظر ہے۔ جہاں ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے اور آپ حکومت کا خاتمہ دیکھیں، طالبان شاید ملک کے کچھ حصے اور دیگر قومیتوں اور نسلوں کے لوگ ملک کے بقیہ حصوں پر قابض ہو جائیں، جیسا کہ ہم نے 90 کی دہائی میں دیکھا تھا۔
پھر میرے خیال میں ایک تیسری، زیادہ پر امید صورت ہوسکتی ہے جس میں آپ کو حقیقت میں ایک سیاسی سمجھوتہ اور بات چیت ہوتی نظر آئے۔
اگر موجودہ افغان حکومت کچھ عرصے تک برقرار رہی اور اُس نے طالبان کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ اسے شکست نہیں دی جاسکتی، تو میرے خیال میں تیسری صورت کا کہیں زیادہ امکان ہوجاتا ہے۔
جب جنرل کارٹر سے یہ پوچھا گیا کہ کیا امریکہ اور برطانیہ افغانستان سے نکل کر اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو رہے ہیں تو جنرل کارٹر نے کہا کہ دونوں ممالک مستقبل میں کابل میں سفارتی موجودگی برقرار رکھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ افغان فوج ملک میں اب تک کی بہترین فوج ہے اور افغان اداروں جن میں فوج بھی شامل ہے اُن کی بین الاقوامی مالی مدد کی شکل میں حمایت جاری رہے گی۔
Comments are closed.