برطانیہ میں چار بڑے ہاتھیوں کے وزن کے برابر تین لاکھ پاؤنڈ کی پنیر کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا

  • مصنف, ڈین سلاڈینو
  • عہدہ, میزبان دی فوڈ پروگرام
  • 2 گھنٹے قبل

جب برطانیہ سے تعلق رکھنے والے پیٹرک ہولڈن نامی ایک ڈیری فارمر کو رواں سال جولائی میں ہاوڈ نامی انتہائی مہنگے پنیر کا 22 ٹن کا آرڈر موصول ہوا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔پیٹرک بتاتے ہیں کہ انھیں یہ آرڈر فرانس کے کسی خریدار کی جانب سے آن لائن موصول ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس اتنا بڑا آرڈر پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ چونکہ یہ آرڈر آیا بھی فرانس سے تھا تو میں نے سوچا کہ آخر کار دیگر ممالک کے لوگوں کو بھی ہمارے کام کی قدر آ رہی ہے۔‘پیٹرک ہولڈن برطانیہ میں ’ہاوڈ چیز‘ نامی انتہائی مہنگی اور منفرد پنیر تیار کر کے فروخت کرنے والے ’نیلز یارڈ ڈیری‘ ہول سیلر کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ انھیں ہاوڈ پنیر بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ہاوڈ کی پہلی کھیپ ستمبر میں لندن میں ان کے گودام پہنچی۔ ایک مربع میٹر پر پھیلی ہاوڈ چیز بنانے میں دو سال کا وقت لگا اور ہول سیل میں اس کی قیمت 35 ہزار پاؤنڈ بنتی ہے۔

نیل یارڈ ڈیری کے خریدار برون وین پرسیول بتاتے ہیں کہ ’یہ برطانیہ میں بنائے جانے والے پنیر کی سب سے خاص اقسام میں سے ایک ہے۔ ایک مربع میٹر پر پھیلی ہاوڈ چیز ململ کے کپڑے میں لپیٹ کر سور کی چربی کی تہہ سے سیل ہونے کے بعد تیار ہونے میں 18 مہینے کا وقت لیتی ہے اور ہول سیل میں اس کی قیمت 35 ہزار پاؤنڈ بنتی ہے۔‘تاہم نیلز ڈیری فارم کے پاس فرانس سے آئے 22 ٹن ہاوڈ پنیر تیار کرنے کے وسائل نہیں تھے۔ آرڈر کو مقررہ مدت میں پورا کرنے کے لیے دو اور ڈیری فارمز نے 20 ٹن کی چیز فراہم کی۔کرتے کراتے اس آرڈر کی کل قیمت تین لاکھ پاؤنڈ بن رہی تھی یعنی برطانیہ میں تیار ہونے والا اب تک کا سب سے مہنگا پنیر۔14 اکتوبر کو نیلز یارڈ ڈیری کے گودام سے 22 ٹن کی ہاوڈ پنیر کا آرڈر ایک کوریئر کمپنی نے اٹھایا اور اپنے گودام لے گئی۔ تاہم اس کے بعد یہ پنیر کہاں گیا کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ اصل میں ایسا کوئی خریدار تھا ہی نہیں جس نے برطانیہ سے فرانس اتنی مقدار میں ہاوڈ چیز منگوائی ہو۔ بلکہ یہ آرڈر ایک ایسے شخص نے دیا تھا جو خود کو خریدار ظاہر کر رہا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesراتوں رات 22 ٹن پنیر غائب ہو جانے کی اتنی بڑی چوری دنیا بھر میں رپورٹ ہوئی۔ اسے ’دی گریٹ چیز رابری‘ کا نام دیا گیا۔ہاوڈ چیز کی چوری رپورٹ ہونے کے بعد برطانیہ کے ایک مشہور شیف جیمی اولیور نے ایکس پر اپنے فالوئرز کو خبردار کیا کہ ’اگر کسی کو انتہائی مہنگی چیز سستے داموں فروخت ہونے کے بارے میں معلوم ہو تو سمجھ جائیں کہ اس چیز میں کچھ گڑبڑ ہے۔‘معاملے کے تفتیش جاری تھی کہ اکتوبر کے آخر میں لندن سے ایک 63 برس کا شخص گرفتار ہوا۔ پھر اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ تاہم اس کے بعد سے اب تک اس کیس میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔تاحال پتہ نہیں چل سکا ہے کہ چیز کے 950 ٹکڑے جن کا وزن چار بڑے ہاتھیوں کے برابر ہے انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔پیٹرک ہولڈن اکیلے نہیں ہیں جن کی دو سال کی محنت اس طرح چوری ہوئی ہے۔ ان کے ایک ساتھی ٹام کیلور نے بھی اس آرڈر کو مکمل کرنے کے لیے پنیر بنائی تھی۔ٹام کہتے ہیں کہ ’دنیا میں مختلف اشیا چوری کی جاتی ہیں۔۔۔ لیکن کوئی 22 ٹن پنیر چوری کر لے گا؟ بہت ہی حیرت کی بات ہے۔‘شاید عام لوگوں کے لیے یہ حیرت انگیز ہو لیکن اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ پہلی بار نہیں کہ پنیر کی اتنے بڑے پیمانے پر چوری ہوئی ہو۔

’پنیر‘ کی چوری میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

کھانے پینے کی اشیا سے جڑے جرائم میں سمگلنگ اور جعلی اشیا کی خرید و فروخت سمیت ان اشیا کی چوری شامل ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مطابق ان جرائم کی وجہ سے گلوبل فوڈ انڈسٹری کو سالانہ 30 سے 50 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔جرائم اتنے بڑے پیمانے کے بھی ہوتے ہیں کہ اشیائے خورد و نوش سے لدے پورے پورے ٹرک گودام پہنچنے سے پہلے ہی ہائی جیک ہو جاتے ہیں اور ان میں ایسی چوریاں بھی شامل ہیں جیسے سکاٹ لینڈ میں ایک سٹور روم سے 24 زندہ لابسٹرز غائب ہوئے۔تاہم کھانے پینے کی چیزوں سے جڑے جرائم میں پنیر بھی شامل ہے، خاص طور پر انتہائی مہنگی پنیر۔گذشتہ برس کرسمس کے نزدیک برطانیہ کے شہر ووسٹر میں ایک ٹریلر سے لگ بھگ 50 ہزار پاؤند کی پنیر چوری ہو گئی تھی۔اسی طرح سنہ 1998 میں ڈیری فارم کے ایک گودام سے چوروں نے نو ٹن ’چیڈر چیز‘ (پنیر کی ایک قسم) چرائی تھی۔اس قسم کی چوریاں یورپ کے باقی علاقوں میں بھی رپورٹ ہو رہی ہیں۔سنہ 2016 میں شمالی اٹلی میں واقع ایک گودام سے چوروں نے 80 ہزار پاؤنڈ کی ’پامژان ریجیانو چیز‘ (پنیر کی ایک قسم) چرائی تھی۔پامژان چیز کی اس قسم کو تیار ہونے میں کم از کم ایک سال کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اسے تیار کرنے کا طریقہ کار ایک ہزار برس سے چلا آ رہا ہے جس میں بہت ہی کم تبدیلیاں آئی ہیں۔جن دنوں اٹلی میں یہ چوری کی خبر آئی تھی اُن دنوں ’پامژان ریجیانو چیز‘ کا کاروبار کرنے والے ایک گروہ نے سی بی ایس نیوز کو بتایا تھا کہ گذشتہ دو سال کے دورانیے میں 70 لاکھ پاؤند پنیر چوری ہوئی ہے۔تاہم جیسے جیسے پنیر کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا ویسے ویسے یہ مسئلہ بھی مزید سنگین ہوتا جائے گا۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈیری سیکٹر سے منسلک ایک ماہر پیٹرک مک گوئیگن نے بتایا کہ ’پنیر بنانے میں بہت زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ پنیر تیار کرنے کے عمل میں دودھ کو ابالنا پڑتا ہے۔ پھر جب ایک بار پنیر تیار ہو جاتا ہے تو اسے ایسے فریج میں رکھنا پڑتا ہے جنھیں بہت زیادہ بجلی چاہیے ہوتی ہے۔‘

،تصویر کا کیپشنپنیر کی قیمتوں میں اضافہ
پنیر کا بزنس کرنے میں ایندھن کی قیمت کا اہم کردار ہوتا ہے۔پیٹرک مک گوئیگن نے بتایا کہ ’جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تو پنیر کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا تھا۔‘انھوں نے بتایا کہ برطانیہ میں مجموعی طور پر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی ہے لیکن پنیر کی قیمت میں پھر بھی اضافہ ہوا ہے۔ان کے مطابق ’مئی 2024 تک ’چیڈر چیز‘ کی قیمت 6.5 فیصد تک بڑھ تھی۔ اس لیے اب ہم سوپر مارکیٹوں میں دیکھ رہے ہیں کہ چیڈر چیز پر ’سکیورٹی ٹیگز‘ لگائے جا رہے ہیں۔ صرف اس کی قیمت کی بنا پر ہی یہ ایک ایسی کھانے کی چیز بن چکی ہے جسے چرایا جا سکتا ہے۔‘تاہم پنیر کی نقل و حرکت بھی ایک مشکل عمل ہے، خاص طور پر فارم ہاؤس میں تیار ہونے والی پنیر جو بھاری بھرکم ہوتی ہے اور جسے ایک مخصوص درجہ حرارت پر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔پنیر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا بھی ایک مہنگا اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے جو زیادہ تر مجرموں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اگرچہ مجرم اگر منظم ہوں تو وہ با آسانی یہ کارنامہ انجام دے دیتے ہیں۔لیکن سوال ابھی بھی یہی ہے کہ یہ منظم مجرم ہیں کون اور جو پنیر یہ چراتے ہیں آخر وہ جاتا کہاں ہے؟

منظم جرائم کی دنیا سے فوڈ انڈسٹری کا کیا تعلق ہے؟

برطانیہ کے نیشنل فوڈ کرائم یونٹ سے منسلک اینڈی کوئین نے بتایا کہ اشیا خوردونوش اور منظم جرائم کے درمیان ایک پرانا تعلق ہے۔مثال کے طور پر فوڈ انڈسٹری کی قانونی ’سپلائی چین‘ کے ذریعے ایک بڑی مقدار میں غیر قانونی منشیات سمگل کی جاتی ہیں۔اینڈی کوئین نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ ستمبر فرانس کی ایک سوپر مارکیٹ کے چار سٹورز میں درجنوں کلو گرام کوکین برآمد ہوئی تھی۔ یہ کوکین کیلوں کی پیٹیوں کی ڈیلیوری کے ذریعے یہاں پہنچی تھی۔انھوں نے بتایا کہ یہ بہت غیر معمولی بات ہے کہ منشیات اس طرح ’سپلائی چین‘ کے آخری مرحلے (یعنی کسٹمر) تک پہنچ جائے لیکن اس طرح سرحد پار غیر قانونی اشیا کی نقل و حرکت بہت عام ہے۔کوئین نے بتایا کہ ایک بار جب ڈرگ کارٹیلز اور منظم جرائم سے منسلک دیگر لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ کسی جگہ کی فوڈ انڈسٹری کیسے چلتی ہے تو انھیں کافی مواقع نظر آ جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ منظم جرائم انجام دینے والے گروہ ’ایک جائز کاروبار میں دراندازی کرتے ہیں۔ اس کے ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس پر قابص ہونے کی کوشش کرتے ہیں کریں گے اور پھر اسے چوری شدہ خوراک سمیت دیگر غیر قانونی اشیا کو منتقل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘تاہم کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر مجرموں کو فوڈ انڈسٹری میں دلچسپی ہے۔کوئین کے مطابق مجرم جانتے ہیں اشیائے خوردونوش کی سمگلنگ وغیرہ میں سزا قدرے کم سخت ہوتی ہے بنسبت منشیات درآمد کرنے کے۔تاہم انھیں مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ چیز چرا کر کہاں رکھی جائے۔جیسا کہ برطانیہ میں ایسی بہت کم جگہیں ہیں جہاں چرایا ہوا پنیر رکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ چرایا ہوا پنیر ممالک منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں اس کی بلیک مرکیٹ بہتر ہو۔

اشیا خوردونوش کی بلیک مارکیٹ

روس ایک ایسا ملک ہے جہاں بلیک مارکیٹ میں دستیاب پنیر کی بہت مانگ ہے۔جب روس نے 2014 میں غیر قانونی طریقے سے کرائمیا کو ملک میں ضم کیا تھا تو یورپی یونین نے اس پر کئی اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں۔ جواب میں صدر پوتن نے یورپی یونین سے در آمد کیے گئے کھانے پینے کی تازہ اشیا پر پابندی عائد کر دی تھی۔سرکاری میڈیا پر چلائی جانے والی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ کیسے برآمد ہوئی کھانے پینے کی اشیا پر بلڈوزر چلائے گئے، انھیں دفنایا گیا یا دفن کیا گیا۔ کھانے پینے کی ان درآمد شدہ اشیا میں پنیر کی ایک بڑی مقدار شامل تھی۔،تصویر کا ذریعہReutersتاہم جب سے روس یوکرین جنگ شروع ہوئی ہے تب سے مشرقی ممالک میں کچھ چیزوں کی کمی پیدا ہو گئی ہے جیسے نورے کی سامن مچھلی اور سکوٹش وسکی جبکہ روس میں یورپی یونین سے آئی انتہائی مہنگی اشیائے خوردونوش کی مانگ بڑھ گئی ہے۔گلوبل انسٹیٹیوٹ آف فوڈ سکیورٹی کے بانی اور اقوام متحدہ کے سینئیر مشیر برائے سائنس پروفیسر کرِس ایلیئٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فی الوقت روس میں سب سے زیادہ غیر قانونی طریقوں سے در آمد ہونے والی دو اشیا میں پنیر اور وائن شامل ہیں۔ اںھیں یہاں تک پہنچانے کے لیے یورپ بھر میں پیچیدہ راستے قائم ہیں جو بیلاروس اور جارجیا سے گزرتے ہیں۔‘کئی روسی باشندوں کو لگتا ہے کہ ملک میں دستیاب پنیر کا معیار اتنا اچھا نہیں ہے جو غیر ملکی ممنوعہ پنیر کا ہے۔ اس لیے اس کی کافی مانگ ہے۔سنہ 2014 میں ایک شخص پولینڈ سے اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر 460 کلوگرام کا ممنوعہ غیر ملکی پنیر روس میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ تاہم وہ پکڑا گیا۔پروفیسر کرِس ایلیئٹ نے بتایا کہ جب سے روس میں یہ پالیسی نافذ کی گئی ہے تب سے یہاں کہ سوپر سٹورز میں مہنگا پنیر نظر آنے لگا ہے۔ کچھ کمپنیاں ایسے پنیر کو درآمد کر کے ان کا لیبل بدل دیتی ہیں اور اس طرح یہ قانونی طریقے سے روس میں فروخت ہوتا ہے۔تاہم رپورٹس کے مطابق پنیر کے بلیک مارکیٹ ڈیلرز چھوٹے چھوٹے جنرل سٹورز چلا رہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ نااہلی کی وجہ سے بھی ممنوعہ اشیائے خوردونوش کی نقل و حرکت ممکن ہو جاتی ہے۔’اس بزنس سے اتنا پیسہ کمایا جا سکتا ہے کہ حکام سمیت سرحد پر تعینات گارڈز کو رشوت دی جا سکتی ہے۔ ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ذریعے ممنوعہ اشیا کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ اور اس آن لائن آرڈرز کا ثبوت دکانوں میں نظر آ جاتا ہے۔‘ممنوعہ پنیر دکانوں میں سامنے رکھا ہوا نظر آ جاتا ہے۔یہ صرف روس میں ہی نہیں ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ کے مختلف حصوں میں اگر ایک ملک کی جانب سے اشیائے خورد و نوش پر رعایت ہے تو دوسرے ملک جہاں حکومتی سبسڈی نہیں ہے یا وہاں کی قمیتیں زیادہ ہیں تو ایسے ملک میں یہ اشیا سمگل کی جا سکتی ہیں۔پروفیسر ایلیئٹ نے بتایا کہ اس خطے میں مہنگے پنیر کی نقل تیار کر کے اسے اصل کی طرح فروخت کرنا بھی بہت عام ہے۔ یہ عمل امریکہ میں بھی عام ہے جہاں مہنگے پامژان کی نقل تیار کے لیے اس میں لکڑی کا برادہ شامل کر دیا جاتا ہے۔

پنیر کی حفاظت کے لیے مائیکرو چِپ کا استعمال

برطانیہ کے نیشنل فوڈ کرائم یونٹ سے منسلک اینڈی کوئین نے بتایا کہ غیر قانونی اشیائے خوردونوش کی سمگلنگ ’صحیح معنوں میں عالمی‘ مسئلہ ہے۔تاہم اٹلی میں اس کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے جس میں پامژان ریجیانو چیز بنانے والے گروپ نے اپنی تیار کردہ پنیر کی سب سے اوپر والی سخت تہہ میں مائیکرو چپ نصب کر دی ہے۔یہ مائیکرو چِپ چاول کے دانے کے برابر ہے اور اس میں پنیر کا اپنا ڈیجیٹل آئی ڈی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے ناصرف پنیر کی چوریوں میں کمی آئی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اصلی اور نقلی پنیر کی بھی نشاندہی آسان ہو گئی ہے۔خریدار اب پنیر کے ہر ’پہیے‘ کو سکین کر کے اس کی صداقت کو جانچ سکتے ہیں یا یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا یہ چوری ہوا ہے۔تاہم کنسورشیم نے ابھی تک کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آیا ٹیکنالوجی جرائم کو کم کر رہی ہے یا نہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesبرطانیہ کے نیلز یارڈ ڈیری کا کہنا ہے کہ مستقبل میں دھوکہ دہی اور فراڈ سے بچنے کے لیے وہ ای میلز اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے کے بجائے پنیر کے بڑے آرڈر دینے والے خریداروں سے ذاتی طور پر ملاقات کر کے انھیں پنیر فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اور جہاں تک اکتوبر میں چوری کیے گئے پنیر کا تعلق ہے تو اس معمے کو حل کرنا آسان نہیں کیونکہ اس پنیر کو دو سال تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور یہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں فروخت کی جا سکتی ہے۔آن لائن پونگ پنیر بیچنے والے بین لیمبورن کا کہنا ہے کہ ’ایسا ممکن ہے کہ کوئی مجرم ٹنوں کے حساب سے پنیر چھپا لے اور پھر آہستہ آہستہ اسے کم مقدار میں سپلائی چین میں شامل کر کے مارکیٹ میں لائے۔‘پنیر بنانے والے محض اس لیے پریشان نہیں کہ پنیر چوری ہو گیا مگر پنیر کی جو قسم لاپتہ ہے یعنی ہاؤڈ ویسٹ کام اور پچ فورک۔۔۔ یہ وہ اقسام ہیں جو پنیر بنانے کے ان طریقوں پر عمل پیرا ہو کر بنائی گئیں جنھیں بننے اور تبدیلی کے عمل سے گزرنے میں ہزاروں سال لگے ہیں جس کے بعد ہی یہ برطانوی ثقافت کا حصہ بنیں۔ یہ اقسام دراصل اس دور کی نشاندہی کرتی ہیں جو چند نسلوں بعد ہی ختم ہو گیا۔لنکاشائر میں پنیر بنانے والے اینڈی سوئنسکو کا کہنا ہے کہ 20ویں صدی کے آغاز میں ان کی دکان کے آس پاس کے علاقے میں پنیر بنانے والے دو ہزار فارم ہاؤس تھے۔ آج ان کی تعدا محض پانچ ہے۔سمرسیٹ میں چیڈر پنیر، جبکہ ایسٹ مڈلینڈز میں سٹیلٹن اور شمال مغرب میں چیشائر پنیر بنانے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔سوئنسکو کا کہنا ہے کہ ’یہاں کے چھوٹے فارموں کے مالک خاندانوں کے لیے صرف مائع حالت میں دودھ بیچ کر گزر بسر کرنا ناممکن ہو گا اور وہ اپنے دودھ سے پنیر بنا کر زیادہ رقم کما سکتے ہیں۔‘پیٹرک ہولڈن تسلیم کرتے ہیں کہ اس چوری سے ہونے والے مالی نقصان کا ان کے فارم پر بہت زیادہ اثر پڑ سکتا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ’اس پیمانے پر کی جانے والی دھوکہ دہی آسانی سے فارمنگ اور پنیر سازی کی صنعت کا خاتمہ کر سکتی ہے۔‘تاہم نیلز یارڈ نے اپنے سپلائرز کو مکمل ادائیگی کر دی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس فراڈ سے ان کے کاروبار کو مالیاتی طور پر بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔اس طرح کے جرائم کی روک تھام نہ کی گئی تو اس سے باقی فارم اور کاروبار بھی متاثر ہوں گے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب لگژری اور قیمتی پنیر کی تلاش ابھی تک جاری ہے۔این ایف سی یو کے اینڈی کوئین کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں جاری تنازعات، مہنگائی اور موسمیاتی تبدیلی۔۔۔ یہ ساری صورتحال مجرموں کو فوڈ فراڈ (کھانے پینے کی اشیا کی چوری) کی ترغیب دے سکتی ہے۔‘صورتحال بہتر ہونے تک، پنیر بنانے والوں کو اپنی سکیورٹی مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ اور اگر کوئی آرڈر اتنا بڑا ہو کہ آپ کو اپنی قسمت پر یقین نہ آئے تواس صورت میں ذرا غور سے اس کے بارے میں دوبارہ سوچ لیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}