برطانیہ میں نوکری کا فراڈ اور پاکستانی ایجنٹ: ’اس نے کہا آپ میری بہنوں جیسی ہیں، زیادہ پیسے نہیں لوں گا‘
- مصنف, ایمی جانسٹن
- عہدہ, بی بی سی منڈلینڈز انوسٹیگیشنز
- 54 منٹ قبل
برطانیہ میں اچھے مستقبل اور نوکری کے خواب دیکھنے والے ہزاروں طالب علم ایک عالمی گروہ کو ویزا دستاویزات کے ایک فراڈ میں لاکھوں پاؤنڈ دے چکے ہیں۔بی بی سی کی ایک تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ میں نوکری کے حصول کے خواہش مند بین الاقوامی طالب علم کس طرح ریکروٹمنٹ ایجنٹ بن کر کام کرنے والوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں اور ایسے سپانسر شپ سرٹیفیکیٹ کے لیے 17 ہزار پاؤنڈ تک کی رقم دے چکے ہیں جو انھیں مفت مل جانا چاہیے تھا۔تاہم جب رقم دینے اور یہ دستاویزات حاصل کرنے کے بعد اب طلبہ نے ’سکلڈ ورکر‘ یعنی ہنرمند کیٹگری کے تحت ویزا کی درخواست دی تو ان کے کاغذات کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا۔بی بی سی نے ایسی دستاویزات دیکھی ہیں جن کے مطابق تیمور رضا نامی ایک شخص 141 ویزا دستاویزات مجموعی طور پر ایک ملین پاؤنڈ سے زیادہ کے عوض بیچ چکا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ کاغذات کسی کام کے نہیں تھے۔
تاہم تیمور رضا نامی شخص کا دعوی ہے کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور وہ طلبہ کی جانب سے جمع کرائے جانی والی کچھ رقم ان کو لوٹا چکے ہیں۔ تیمور رضا نے برطانیہ میں ویسٹ مڈلینڈز میں دفاتر لے رکھے ہیں جہاں عملہ کام کرتا ہے اور انھوں نے درجنوں طلبہ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ کیئر ہومز میں نوکری کے لیے انھیں سپانسرشپ دلائیں گے۔ہمیں بتایا گیا ہے کہ تیمور رضا نے قانونی دستاویزات بیچنا شروع کی تھیں اور چند طلبہ نے ویزا حاصل کرنے کے بعد واقعی نوکری حاصل بھی کی۔ لیکن بہت سے طلبہ اپنی ساری جمع پونجی بے وقعت کاغذات پر خرچ کر چکے ہیں۔
’میں یہاں پھنس چکی ہوں‘
بی بی سی نے 17 افراد سے بات چیت کی جو نوکری کا ویزہ حاصل کرنے کی کوشش میں بہت سے پیسے گنوا چکے ہیں۔تین طلبہ نے مختلف ایجنٹوں کو 38 ہزار پاؤنڈ کی رقم دی۔ انڈیا سے تعلق رکھنے والی ان طلبہ کا کہنا ہے کہ انھیں سہانے خواب دکھائے گئے تھے کہ برطانیہ میں ان کی قسمت بدل جائے گی۔ لیکن اب وہ سب کچھ لٹا چکی ہیں اور اپنے خاندان والوں کو سچ بتانے سے بھی ڈر رہی ہیں۔ایک خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’میں یہاں (برطانیہ میں) پھنس چکی ہوں۔ اگر میں واپس جاوں تو خاندان کی ساری جمع پونجی ضائع ہو جائے گی۔‘
’فون کال بلاک کر دی گئیں‘
انڈیا سے تعلق رکھنے والی نادیہ، جن کا فرضی نام استعمال کیا جا رہا ہے، 2021 میں سٹڈی ویزا پر کمپیوٹر سائنس پڑھنے برطانیہ پہنچی تھیں۔ ایک سال بعد انھوں نے 22 ہزار سالانہ فیس کی ادائیگی کرنے کے بجائے نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ان کو ایک ایجنٹ کا نمبر ان کی ایک دوست نے دیا اور کہا کہ وہ انھیں ایسے کاغذات فراہم کر سکتا ہے جن کی مدد سے ان کو 10 ہزار پاؤنڈ میں کیئر ہوم میں نوکری مل سکتی ہے۔نادیہ کہتی ہیں کہ ایجنٹ نے ان سے کہا کہ ’میں آپ سے زیادہ پیسے نہیں لوں گا کیوں کہ آپ کی شکل میری بہنوں سے ملتی ہے۔‘ وولورہیمپٹن میں رہائش پذیر نادیہ کے مطابق انھوں نے آٹھ ہزار پاؤنڈ کی رقم دی اور پھر چھ ماہ بعد ان کو کاغذات ملے جن میں لکھا ہوا تھا کہ وہ والسال کے ایک کیئر ہوم میں کام کر سکتی ہیں۔نادیہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے سیدھا اس کیئر ہوم فون کیا اور اپنے ویزا کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ہم نے سپانسر کا سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیا کیوں کہ ہمارے پاس عملہ مکمل ہے۔‘ جب نادیہ نے ایجنٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو اس نے نادیہ کے نمبر کو بلاک کر دیا۔ ایسے میں نادیہ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ پولیس کے پاس جائیں لیکن انھوں نے خود بی بی سی کو بتایا کہ وہ خوفزدہ تھیں۔
وہ طلبہ جنھوں نے ہزاروں پاؤنڈ لٹا دیے
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ تیمور رضا نامی پاکستانی شہری، جو برمنگھم میں کام کرتے ہیں، ایک ایسے ہی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں۔تیمور رضا نے ویسٹ مڈلینڈز میں ریکروٹمنٹ ایجنسیوں سے رابطہ کیا اور کیا کہ وہ کیئر ہومز میں نوکری دلوا سکتا ہے اور ان کے کلائنٹس کے لیے ویزا درخواست کا انتظام کروا دے گا۔بی بی سی نے ایک سپانسر شپ دستاویزات کی ایک ایسی فائل دیکھی جو تیمور نے ایک ایجنسی کو 141 لوگوں کے لیے فراہم کیں۔ ان میں سے ہر فرد نے 10 ہزار سے 20 ہزار پاؤنڈ تک کی رقم دی جو مجموعی طور پر ایک عشاریہ دو ملیئن پاؤنڈ بنتی ہے۔بی بی سی نے تصدیق کی کہ تیمور رضا نے یہ دستاویزات پی ڈی ایف فائل کی شکل میں واٹس ایپ کی مدد سے بھیجیں۔ ان میں سے 86 کو ایسے کاغزات دیے گئے جنھیں مسترد کر دیا گیا جبکہ 55 کو ویزا تو ملا لیکن نوکری نہیں ملی۔بی بی سی نے تیمور رضا سے رابطہ کیا جو دسمبر 2023 سے پاکستان میں ہیں۔ انھوں نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ طلبہ کے دعوے ’جھوٹے‘ اور ’یکطرفہ‘ ہیں اور انھوں نے اپنے وکیل سے رابطہ کر لیا ہے۔تیمور رضا نے انٹرویو کی درخواست پر جواب نہیں دیا۔
ویزا درخواستوں میں اضافہ
برطانیہ میں نوکری حاصل کرنے کے لیے ویزا درخواستوں میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے اور جون 2022 سے جون 2023 تک 26 ہزار درخوستیں موصول ہوئی ہیں جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریبا چار ہزار زیادہ ہیں۔گزشتہ سال جولائی میں ہوم آفس نے قوانین میں تبدیلی کی تھی تاکہ بین الاقوامی طالب علم تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ورک ویزا حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔تاہم سکھ سینٹر کا کہنا ہے کہ پولیس اور حکام کی سخت کارروائی ہی ایسے غیر قانونی فراڈ کو روک سکتی ہے۔ جس کور کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان جیسے مذہبی سربراہان سے مل کر کام کرنا چاہیے۔ہوم آفس کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’فراڈ پر مبنی ویزا درخواستوں کی نشان دہی کرنے کے لیے مربوط نظام موجود ہے اور فراڈ کا نشانہ بننے والوں کو علم ہونا چاہیے کہ ان کا سپانسر شپ سرٹیفیکیٹ اگر درست نہیں تو ان کی درخواست مسترد ہو جائے گی۔‘ورک رائٹس سینٹر کے لوک پائپر کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو چاہیے کہ متاثرہ افراد کی مدد کرے اور ایسا ماحول پیدا کرے جس میں یہ لوگ کسی خوف کے بغیر رپورٹ کر سکیں۔‘
برطانوی خواب
فراڈ یا دھوکے کی وجہ سے ایجنٹوں کو پیسے دے کر لٹنے والوں کی درست تعداد کے بارے میں کسی قسم کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔لوک پائپر کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح ہے کہ یہ کام پڑے پیمانے پر ہو رہا ہے کیوں کہ ملک بھر سے ایسی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔‘سکھ سنٹر کو امید ہے کہ وہ انڈیا میں لوگوں کو آگہی دے کر ان خطرات سے آگاہ کر سکتے ہیں کہ ملک چھوڑ کر تعلیم یا نوکری کی تلاش میں انھیں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔مونٹی کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو یہ تلخ حقیقت بھی بتانا ہو گی کہ چند لوگوں کی کامیابی کی کہانی کا مطکب یہ نہیں ہوتا کہ ایسا ہر کسی کے ساتھ ہو گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.