برطانیہ: دنیا کے ‘تیز اور بہترین’ ذہنوں کے لیے خصوصی ویزا
برطانیہ نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے طلبہ کو راغب کرنے کے لیے ایک خصوصی ویزے کا انتظام کیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ‘ہائی-پوٹینشل انڈیویجوئل’ یعنی ممکنہ اعلیٰ ذہن والے افراد والا ویزا پیر یعنی 30 مئی سے نافذ العمل ہے اور اس کے تحت اپنے کیریئر کے آغاز میں ہی دنیا کے سب سے زیادہ ہونہار ذہنوں کو راغب کیا جا سکے گا۔
یہ سکیم برطانیہ سے باہر کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے سابق طلباء کے لیے دستیاب ہوگی جنھوں نے پچھلے پانچ سالوں میں گریجویشن کیا ہے۔
اس کے تحت ان یونیورسٹیوں کے گریجویٹ اہل ہوں گے قطع نظر اس کے کہ وہ کہاں پیدا ہوئے اور انھیں ویزا کی درخواست کے لیے نوکری کی پیشکش دکھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
کامیاب درخواست دہندگان کو دو سال کا ورک ویزا ملے گا اگر ان کے پاس بیچلر یا ماسٹرز ڈگری ہے اور اگر ان کے پاس ڈاکٹریٹ ہے تو تین سال کا ویزا دیا جائے گا۔
اگر وہ کچھ ضروریات کو پورا کرتے ہیں تو اس کے بعد وہ دوسرے طویل مدتی کام کے ویزوں پر جانے کے اہل ہو جائیں گے۔ اہل گریجویٹس کی تعداد پر کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔
منتخبہ نمائندہ یونیورسٹیاں
کوالیفائی کرنے کے لیے، کسی شخص نے کسی ایسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہو جو امیدوار کے فارغ التحصیل ہونے والے سال میں کم از کم تین میں سے دو درجہ بندی میں ٹاپ 50 میں شامل ہو۔
ان تین فہرستوں میں سے کسی دو میں اگر یونیورسٹی کا نام ہے تو وہاں کے طلبہ کو ویزا دیا جائے گا۔
ان درجہ بندی دینے والے اداروں کے انگریزی میں نام اس طرح ہیں: Times Higher Education World University Rankings, Quacquarelli Symonds World University Rankings اور Academic Ranking of World Universities.
برطانوی حکومت کی طرف سے شائع کردہ 37 تعلیمی اداروں کی فہرست میں کوئی لاطینی امریکی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے تمام اداروں کا تعلق امریکہ، یورپ اور ایشیائی ممالک سے ہے۔
اس فہرست میں خاص طور پر ہارورڈ، ییل اور ایم آئی ٹی سمیت 20 امریکی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ اور امریکی سرزمین سے باہر دیگر 17 مستند ادارے ہیں جن میں یونیورسٹی آف ہانگ کانگ، یونیورسٹی آف میلبورن اور یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ لیٹرز آف پیرس شامل ہیں۔
کچھ ماہرین تعلیم نے جنوبی ایشیا، لاطینی امریکہ یا افریقہ سے یونیورسٹیوں کے اخراج پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ویزا دینے کے اس خیال کو انتہائی غیر مساوی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے
یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن کے ڈائریکٹر اور پرنسپل تفتیش کار کرسٹوفر ٹریسوس نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر برطانیہ توانائی تک رسائی، موسمیاتی تبدیلی اور وبائی امراض سے نمٹنے میں جیسے اس صدی کے بڑے چیلنجز میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے ‘تو اسے ترقی پذیر ممالک کی بہت سی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد کی مختلف مہارتوں اور بصیرت کو تسلیم کرنے اور اس میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔’
ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبہ بھی اس میں شامل ہیں
ویزا کے اخراجات اور ضروریات
ویزا کی لاگت 715 پاؤنڈ یا 905 امریکی ڈالر ہوگی، علاوہ ازیں امیگریشن ہیلتھ سرچارج بھی واجب الادا ہوگا۔ یہ ایک ایسی فیس ہے جو برطانیہ میں آنے والوں کو صحت عامہ کا نظام استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
گریجویٹس اپنے اہل خانہ کو اپنے ساتھ لا سکیں گے، حالانکہ ان کے پاس کم از کم 1270 پاؤنڈ یا 1606 امریکی ڈالر سے زیادہ رہائشی فنڈ ہونے چاہیے۔
اس کے علاوہ انھیں سکیورٹی اور کرائم چیک پاس کرنے کی بھی ضرورت ہوگی اور ان کے پاس کم از کم انٹرمیڈیٹ لیول یا بی ون تک انگریزی زبان کا سرٹیفکیٹ ہونا ضروری ہوگا، جس کی تعریف ‘مقامی انگریزی بولنے والوں کے ساتھ آسانی سے بات چیت کرنے کی روانی’ کے طور پر کی گئی ہے۔
نیا ویزا ان اقدامات کے پیکج کا حصہ ہے جس میں غیر ملکیوں کو اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد ملک چھوڑنے کی بجائے دو سال تک برطانیہ میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت دینا شامل ہے۔
برطانوی چانسلر آف دی ایکس چیکر رشی سونک نے کہا ‘ویزے کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ جدت، تخلیقی صلاحیتوں اور کاروباری صلاحیتوں کے لیے ایک معروف بین الاقوامی مرکز بن جائے گا۔’
انھوں نے مزید کہا: ‘ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل کے کاروبار یہاں اور آج بنائے جائیں، اسی لیے میں طلباء سے کہتا ہوں کہ وہ یہاں اپنے کیریئر بنانے کے اس ناقابل یقین موقع سے فائدہ اٹھائیں۔’
اس میں انڈیا پاکستان کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ جرمنی، فرانس، آسٹریلیا اور سویڈن کی ایک ایک، کینیڈا کی تین جبکہ چین، ہانگ گانگ، سوئٹزر لینڈ، سنگاپور اور جاپان کی دو دو یونیورسٹیاں شامل ہیں۔
جہاں ایک طرف برطانیہ اس ویزا کے تحت ‘ذہین فطین ذہنوں’ کی تلاش میں ہے وہیں ریاست کی امیگریشن پالیسی اور دیگر اقدامات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پچھلے مہینے، برطانیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو روانڈا بھیجنا چاہتا ہے۔
Comments are closed.