عالمی وباء کورونا وائرس کے بعد گزشتہ تین برسوں میں پہلی بار منعقد ہونے والے اے لیول کے امتحانی نتائج کے گریڈز میں کمی کا رجحان پایا گیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں گریڈز مزید کم ہوسکتے ہیں۔
گزشتہ روز شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق برطانوی اسکولوں سمیت ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں بھی نتائج انتہائی مایوس کن رہے۔
رواں سال اے لیول کے امتحانی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 82.1 فیصد طلبہ نے C گریڈ حاصل کئے ہیں۔ گزشتہ برس یہ تعداد 88.2 فیصد جبکہ 2020 میں 87.5 فیصد تھی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق محکمہ تعلیم کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کلاس روم میں کیے گئے کام کی بنیاد پر طلبہ کی کارکردگی کو اساتذہ کی جانب سے جانچ کرنے کے بعد گریڈز دیئے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں 16 برس کی عمر تک اسکول میں رہنا ہوتا ہے جبکہ بعض جامعات 18 سال کی عمر میں داخلے جاری کرتی ہیں۔
2020 میں برطانوی حکومت کی جانب سے گریڈز کے طریقہ کار کو مسترد کرکے نیا طریقہ کار اپنانا پڑا۔ جس سے یونیورسٹی کے داخلوں میں افراتفری کا رجحان پایا گیا ہے۔
اس وقت کے وزیر تعلیم نے اساتذہ کی جانب سے جمع کرائے گئے سینٹر اسیسڈ گریڈز کی بنیاد پر گریڈنگ کی تھی۔
محکمۂ تعلیم کے ماتحت کام کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ اب لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد ممکن ہے کہ امتحانی نتائج 2019 کے مقابلے مزید خراب ہونے کی توقع ہے، جس کے لیے طلبہ کو پہلے سے تیار رہنا ہوگا۔
ماہرین تعلیم کے مطابق موجودہ نتائج 2019 سے بہتر ہیں کیوں کہ 2021 میں امتحان کا طریقہ کار مختلف تھا۔ مستقبل میں ماضی کے طریقے کار سے ہی امتحانات لیے جائیں گے جس کی وجہ سے نتائج متاثر ہوسکتے ہیں، کورونا سے پہلے کی گریڈنگ پر یک دم نہیں جاسکتے۔
مختلف سرکاری و نجی اسکولوں میں پڑھانے کا مختلف طریقہ ہے جو نتائج کو متاثر کرسکتا ہے اس کے باوجود محکمہ تعلیم پُرامید ہے کہ زیادہ سے زیادہ طلبہ اپنی پسند کی یونیورسٹی میں داخلے لیں گے۔
Comments are closed.