برطانیہ، امریکہ کی گلگت بلتستان کے لیے سفری تنبیہ: سکردو اور دیگر علاقوں میں حالات کشیدہ کیوں ہوئے؟

گلگت بلتستان میں احتجاج

،تصویر کا ذریعہAbdul Hadi

  • مصنف, محمد زبیر خان
  • عہدہ, صحافی

برطانیہ نے اپنے شہریوں کے لیے جاری کردہ سفری انتباہ میں پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان کے سفر سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ امریکہ نے شمالی علاقہ جات کے سفر کے لیے ’انتہائی احتیاط‘ برتنے کا مشورہ دیا ہے۔

اگست کے اواخر میں گلگت بلتستان کے مختلف شہروں میں مذہبی گروہوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور بعض مذہبی رہنماؤں پر فرقہ واریت کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا گیا۔ سکردو کے ایک مذہبی فرقے کے رہنما کے خلاف دیامیر کے شہر چلاس میں پہلے مقدمے کے اندراج اور پھر گرفتاری کے لیے احتجاج ہوا اور مرکزی شاہراہ کو بھی بند کیا گیا۔

اسی دوران سیاحتی مقام سکردو کے احتجاجی مظاہرین نے یہ مطالبہ رکھا کہ ’اگر سکردو کے لوگوں کے لیے چلاس کا روڈ محفوظ نہیں تو ہمارے لیے کارگل روڈ کھول دیا جائے۔‘

ان مظاہروں کے بعد گگلت بلتستان کی حکومت نے ’کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے‘ صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ کیا گیا ہے۔‘

اگرچہ برطانوی سفری تنبیہ میں گلگت بلتستان میں ’حالیہ احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے تمام غیر ضروری سفر سے اجتناب‘ کی ہدایت کی گئی ہے تاہم محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کا کہنا ہے کہ ’حالات مکمل طور پر پُرامن ہیں۔‘

اس کا مزید کہنا ہے کہ خطے میں ’تمام رابطہ سڑکیں، تجارتی و کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کھلے ہیں۔ چہلم امام حسین پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے‘ پاکستانی فوج اور سول آرمڈ فورسز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

دوسری طرف اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں ’پُرامن ارادے کے ساتھ منعقد کردہ اجتماعات بغیر کسی انتباہ کے پُرتشدد ہوسکتے ہیں۔‘

اس نے کہا ہے کہ سکردو اور دیامیر میں مزید مظاہروں، سڑکوں کی بندش، موبائل و انٹرنیٹ کی بندش کا امکان موجود ہے۔

گلگت بلتستان

،تصویر کا ذریعہFahim Akhtar

گلگت بلتستان میں دفعہ 144 نافذ اور چہلم کی سکیورٹی کے لیے پاکستانی فوج طلب

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کا کہنا ہے کہ ’امن و امان کی صور تحال کو بر قرار رکھنے، عوام کے جان و مال کے تحفظ اور کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ کیا گیا ہے۔‘

اس کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ کسی کو بھی جلسہ، جلوس اور احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔

اعلامیہ کے مطابق ’اگر کوئی ایسی اجازت مقامی انتظامیہ نے پہلے دی ہے تو اس کو منسوخ تصور کیا جائے۔ ایسا امن و امان بحال رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘

اس کا مزید کہنا ہے کہ ’تمام اسلحہ لائسنس اور ممنوعہ بور کے خصوصی لائسنس، جو کہ خصوصی حالات کے لیے جاری کیے گئے تھے، تا حکم ثانی واپس لیے جاتے ہیں۔ ماسوائے سرکاری فرائض پر مامور اہلکاروں کے کسی کو بھی اسلحہ کی نمائش اور ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔‘

گلگت بلتستان کے محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں چہلم امام حسین کے پُرامن انعقاد کے لیے پاکستانی فوج اور سول آرمڈ فورسز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

چہلم پر جلوس کے راستوں اور امام بارگاہوں کی سکیورٹی کے لیے ماضی کی طرح ضلع دیامیر کی انتظامیہ نے اپنے ایک نوٹیفیکشن میں بابو سر ٹاپ کے راستے سے سفر کرنے والوں کے لیے مخصوص اوقات مختص کر دیے ہیں۔

انتظامیہ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ چلاس زیرو پوائنٹ شام ساڑھے چھ بجے سے صبح چھ بجے تک جبکہ بابو سر ٹاپ کا راستہ شام چھ بجے سے صبح چھ بجے تک ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند رہے گا۔

نوٹیفیکشن میں کہا گیا ہے یہ فیصلہ موجودہ حالات میں سخت حفاظتی اقدامات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

دوسری جانب ٹیلیکام اتھارٹی (پی ٹی اے) نے مقامی موبائل کمپنی کو ہدایت کی ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں فور جی کو ٹو جی میں منتقل کر دے تاہم سکردو اور چلاس کے مقامی لوگوں کے مطابق موبائل انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہوئی ہے۔

گلگت بلتستان میں احتجاج

،تصویر کا ذریعہAbdul Hadi

سکردو اور دیگر علاقوں میں احتجاج: ’اشتعال ختم نہ ہونے تک علما کیسے شاہراہ قراقرم پر امن کی ضمانت دیں؟‘

گلگت بلتستان کی حکومت اور انتظامیہ فرقہ واریت کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور اس ضمن میں گلگت میں مولانا قاضی نثار احمد جبکہ سکردو میں علامہ آغا باقر الحسینی کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

مقامی صحافی عبدالہادی کے مطابق چند دن قبل چلاس میں اچانک انتہائی شدید احتجاج ہوا جس میں زیرو پوائنٹ کو 48 گھنٹے کے لیے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

ان کے مطابق ’گذشتہ روز دوبارہ نماز جمعہ کے بعد بھرپور احتجاج کیا گیا تھا۔‘

گلگت سے مقامی صحافی فہیم اختر کے مطابق گذشتہ جمعے کو کم از کم دو مختلف مذہبی فرقوں نے الگ الگ مظاہرے منعقد کر کے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کے علاوہ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کے اندراج کے لیے پولیس میں درخواستیں جمع کروائی ہیں۔

سکردو سے مقامی صحافی رجب قمر کے مطابق چلاس میں مظاہروں کے بعد سکردو میں کم از کم تین بڑے مظاہرے ہوئے ہیں جن میں چلاس میں مظاہروں اور مبینہ دھمکیوں پر غم وغصے کا اظہار کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سوشل میڈیا پر اس وقت دیامیر اور چلاس میں احتجاج کی قیادت کرنے والے مفتی محفوظ کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’ہم شاہراہ قراقرم پر امن کی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں۔‘

چلاس کے مولانا عبدالمالک دیامیر یوتھ علما کونسل کے صدر ہیں اور اس تحریک کے قائدین میں سے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا موقف اب بھی امن ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے روزگار کا اصل ذریعہ سیاحت ہے۔ ہم احتجاج نہیں کرنا چاہتے ہیں۔‘

مولانا عبدالمالک ’ہم چاہتے ہیں کہ مکمل امن و امان بحال ہو تاکہ علاقے میں جاری بڑے منصوبے مکمل ہوں، خوشحالی آئے اور لوگ ترقی کرسکیں۔ لیکن جب تک فرقہ واریت میں ملوث شخص کو قرار واقعی سزا نہیں دی جائے گی، اس وقت تک عام لوگوں میں اشتعال ختم نہیں ہوگا۔ تو علما کیسے شاہراہ قراقرم پر امن کی ضمانت دے سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح پُرامن ماحول کو خراب کیا گیا ہے، اس طرح شاہراہ قراقرم پر بھی پُرامن ماحول کو خراب کیا جا سکتا ہے۔ ’اس لیے ہم کہتے ہیں کہ شاہراہ قراقرم پر امن کی ضمانت اصل مسئلے اور جڑ کو ختم کر کے ہی ہوسکتا ہے۔ (یہ ضمانت) ہم علما نہیں دے سکتے۔‘

نجب علی عوامی ایکشن بلتستان کے چیئرمین ہیں جن کا کہنا تھا کہ ہر کچھ عرصے کے بعد بلتستان کے لوگوں کے لیے شاہراہ قراقرم، بابو سر ٹاپ کے علاقے غیر محفوظ ہوجاتے ہیں۔

’ابھی حالیہ دونوں چلاس میں منعقد ہونے والے مظاہروں کے بعد لوگ اسلام آباد کی طرف سفر کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ جس پر مقامی لوگ یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر ہمارے لیے شاہراہ قراقرم محفوظ نہیں ہے تو کارگل روڈ کھول دیں۔ ہم لوگ ویسے بھی تقسیم ہیں، ہمارے خونی رشتہ دار اس طرف ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ احتجاج کی بنا پر کیا گیا ہے۔ ’حکام کو اندازہ ہوسکے کہ ہم لوگ کتنی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہم شاہراہ قراقرم کا متبادل کسی اور روڈ کو نہیں سمھجتے ہیں۔ مگر ہمیشہ ہمارے ساتھ شاہراہ قراقرم کے نام پر بلیک میلنگ ہوتی ہے۔ دھمکیاں ملتی ہیں کہ شاہراہ قراقرم سے نہیں گزرنے دیں گے۔ محصور کر دیں، یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔‘

نجب علی کے مطابق ’جب بار بار یہ ہوگا کہ تو پھر بلتستان کے لوگ کچھ متبادل تو مانگیں گے۔ ورنہ شاہراہ قراقرم کو ہمارے سفر کے لیے محفوظ بنا دیں۔‘

ادھر نجف علی نے فرقہ ورایت پھیلانے کے الزام کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ’بلتستان کے لوگ اس پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔‘

گلگت بلتستان میں احتجاج

،تصویر کا ذریعہAbdul Hadi

’جذبات ٹھنڈے کر رہے ہیں‘

گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس الحق لون کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں اس وقت حالات میں کشیدگی افسوس ناک ہے جس کا سب سے پہلا اور براہ راست اثر سیاحت پر پڑا ہے۔

’مجھے بتایا گیا ہے کہ ہزاروں سیاح واپس چلے گئے ہیں جس سے لوگوں کا روزگار ختم ہوا ہے جو کہ انتہائی قابل افسوس ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت میں، کابینہ کے ممبران، وزیر اعلیٰ، اپوزیشن سب مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے۔ میں نے خود چلاس اور سکردو کا دورہ کیا ہے۔ وہاں پر علما سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان سے اپیل کی ہے وہ امن کی خاطر اپنا کردار ادا کریں۔ ‘

ان کے مطابق ’ہفتے کے روز استور میں ایک بڑا مظاہرہ تھا۔ میں خود امن و امان کی بحالی کے لیے گیا تھا۔ وہاں پر مظاہرہ ختم ہوگیا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔‘

شمس الحق لون کہتے ہیں کہ ’اس وقت ہم امن کی بات کر رہے ہیں۔ مذاکرات کر رہے ہیں۔ سب سے کہہ رہے ہیں کہ دل کو بڑا کریں، کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے دوسرے کی دل آزاری ہو، کسی کو تکلیف ہو۔ ہمیں منبر رسول پر بیٹھ کر ایسی کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سات ستمبر کو ایک اور مذہبی تقریب بھی منعقد ہونی ہے اور اس کے پُرامن انعقاد کے لیے بھی کوشش کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے علاوہ امن بحال کرنے کے لیے دیگر آپشن بھی غور جاری ہے۔‘

شمس الحق لون نے بتایا کہ اس وقت گذشتہ روز گلگت میں حالات میں کشیدگی پیدا ہونے پر پیرا ملٹری فورسز کو طلب کرلیا ہے۔ ’چلاس اور گلگت میں بڑی تعداد میں پیرا ملڑی فورسز کے جوان کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کے لیے تیار ہیں۔‘

وزیر داخلہ کے مطابق ’سکردو میں بھی دستے بھجوا دیے گئے ہیں۔ مگر میں توقع کرتا ہوں کہ ایسی کوئی صورتحال نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس فوج بھی ایک آپشن کے طور پر موجود ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ