برطانوی وزیر داخلہ کی جولین اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کی منظوری، وکی لیکس کا اپیل دائر کرنے کا اعلان
جولین اسانج: برطانوی وزیر داخلہ نے وکی لیکس کے بانی کو ملک بدر کرنے کی منظوری دے دی، وکی لیکس کا اپیل دائر کرنے کا اعلان
برطانوی وزیرِ داخلہ پریتی پٹیل نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ اسانج کے پاس اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے 14 دن ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے کہا کہ عدالتوں کو نہیں لگتا کہ اسانج کی امریکہ کو حوالگی ’ان کے انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتی‘ اور یہ کہ امریکہ میں رہتے ہوئے ’ان کے ساتھ مناسب سلوک روا رکھا جائے گا۔‘
جولین اسانج امریکی حکام کو 2010 اور 2011 میں لیک ہونے والی دستاویزات کے حوالے سے مطلوب ہیں۔
2019 میں لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے نکالے جانے کے بعد سے اسانج برطانوی جیل میں رہ رہے ہیں۔ ایکواڈور نے ان کو دی جانے والی سیاسی پناہ واپس لے لی تھی جس کے بعد برطانوی پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا تھا۔
وکی لیکس نے اس فیصلے کے بعد کہا ہے کہ یہ ’آزادی صحافت اور برطانوی جمہوریت کے لیے ایک سیاہ دن‘ ہے۔
وکی لیکس نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ فیصلہ ’لڑائی کا خاتمہ نہیں ہے‘ اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔
مئی 2019 میں امریکی محکمہ انصاف نے اسانج کے خلاف جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر 17 الزامات عائد کیے تھے۔ اس وقت بھی وہ برطانیہ میں ضمانت کی خلاف ورزی پر جیل کاٹ رہے تھے۔ امریکہ نے ان پر الزام لگایا کہ وکی لیکس کے ذریعہ حاصل کردہ مواد نے کئی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا ہے۔
جولین اسانج کی قانونی ٹیم نے دعویٰ کیا کہ وکی لیکس کی طرف سے شائع کردہ خفیہ دستاویزات، جو عراق اور افغانستان کی جنگوں سے متعلق ہیں، امریکہ کے غلط کاموں کو بے نقاب کرتی ہیں اور عوامی مفاد میں تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
اسانج کی اہلیہ سٹیلا نے کہا کہ ان کے شوہر نے ’کچھ غلط نہیں کیا‘ اور ’انھوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وہ ایک صحافی اور پبلشر ہیں، اور انھیں اپنے کام کی سزا دی جا رہی ہے۔‘
جولین اسانج کون ہیں؟
وکی لیکس ویب سائٹ کے بانی جولین اسانج ایک ایسی متضاد شخصیت ہیں جن کے دوست بھی بہت ہیں اور ان کے مخالفین کی بھی کوئی کمی نہیں۔
چاہنے والے کہتے ہیں اسانج سچ کی تلاش میں مشن لیے چل رہے ہیں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے حساس معلومات کو سر عام لا کر بہت سوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر دیا۔
مختلف ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے اُن کے خاکوں کے مطابق جو لوگ انھیں قریب سے جانتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی ذہین، محنتی، اور کمپوٹر ہیکنگ کی خصوصی صلاحیت کے حامل ہیں۔ اُن کے ساتھ سفر کرنے والے ‘نیویارکر’ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ کام کرتے ہوئے انھیں کھانے پینے کا ہوش بھی نہیں رہتا۔
اپنے اس مشن کی تکمیل کے لیے وہ زندگی بھر کسی ایک ملک میں ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے۔ ملکوں ملکوں گھومتے رہتے ہیں، اپنے دوستوں اور حامیوں کے پاس ٹھہرتے ہیں، کئی مرتبہ وہ ہوائی اڈے پر ہی اپنا بوریا بستر بچھا لیتے ہیں۔
ان کے ساتھ دنیا بھر میں درجنوں رضا کار ہیں جو وکی لیکس کے انتہائی پیچیدہ ڈھانچے کو سنبھالتے ہیں۔
لندن میں ایکواڈور کا سفارت خانہ جہاں اسانج 2012 سے پناہ لیے ہوئے تھے
جولین اسانج نے نوجوانی میں ایک ماہر تعلیم سولیٹ ڈریفس کے ساتھ تین برس تک کام کیا تھا۔ سولیٹ اُس وقت ابھرتے ہوئے انٹرنیٹ کی انقلابی جہتوں ہر تحقیق کررہی تھی۔ اسانژ نے اُن کے ساتھ مل کر ‘انڈر گراؤنڈ ‘ یعنی ‘روپوش ‘ نامی ایک کتاب لکھی جو کمپیوٹراستعمال کرنے والوں کی برادری میں ‘بیسٹ سیلر’ یعنی انتہائی مقبول قرار پائی۔
سولیٹ ڈریفس اسانج کی شخصیت کے بارے میں کہتی ہیں کہ ‘وہ ایک ماہر ریسرچر تھا جو اخلاقیات، انصاف کے تقاضوں اور اس میں گہری دلچسپی رکھتا تھا کہ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے حکومتوں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔’
وہ دسیوں ہزار ایسے خفیہ پیغامات افشا کر چکے ہیں جن سے بہت سربراہان حکومت اور مالی ادارے خفت اٹھا چکے ہیں، مگر2007 میں عراق میں امریکی ہیلی کاپٹر کے بارے میں جو وڈیو جاری کی گئی وہ دنیا بھر میں شہ سرخیوں کا موضوع بنی رہی۔ اس میں امریکی فوجی عام شہریوں کو ہلاک کرتے ہوئے نظر آئے۔ یہ وڈیو امریکی فوج کے لیے انتہائی رسوائی کا سبب بنی۔
چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر اسانج 2006 میں وکی لیکس ویب سائٹ کی بنیاد سویڈن میں ڈالی۔ بی بی سی سے اپنی ایک گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے کام میں بہت مہارت حاصل کر چکے ہیں، ہم معلومات کہاں سے اور کیسے حاصل کرتے ہیں کسی کو پتہ نہیں چلنے دیتے، ہم نے آج تک اپنے کسی ذریعے کو ظاہر نہیں کیا۔ ہم 20 مختلف ویب سائٹس کے ذریعے مواد شائع کرتے ہیں، ہمیں بند کرنے کے لیے ملکوں کو اپنی ویب سائٹس بند کرنی ہوں گی۔‘
اسانج کو کچھ ایسے رضاکار عطیات دیتے ہیں جو اس حق میں ہیں کہ ایسی معلومات کو عوام تک پہنچایا جائے، جو اُن کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے مگر طاقت کی بڑی بڑی ایوان گردشیں نہیں چاہتی کہ اُن کی سرگرمیاں منظر عام پر آئیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اسانج کے خلاف مقدمات ختم کرنے کے لیے مہم چلاتی رہی ہیں
اسانج 1971 میں آسٹریلیا کے شہر کوینز لینڈ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والدین اپنی تھیٹر کمپنی کے ساتھ شہروں شہروں گھومتے رہتے تھے۔
لیکن اسانج کو تھیئٹر کا زیادہ شوق نہیں بلکہ نوجوانی سے ہی کمپیوٹر کا جنون طاری تھا۔ اُن پر 1995 میں درجنوں ویب سائٹس کو ہیک کرنے کا جرم ثابت ہو چکا ہے، جس کے بعد انھیں عدالت سے تنبیہ کی گئی اور جرمانہ بھرنا پڑا۔
اسانج مضبوط اعصاب کے مالک ہیں کیونکہ جو راز وہ منظر عام پر لاتے ہیں اس کے بعد انھیں حکومتوں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، اور جس قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں، کوئی کمزور اعصاب کا شخص اسے برداشت نہیں کر سکتا۔
جولین اسانج کو سویڈن میں جنسی ہراسانی کے الزام کا سامنا ہے تاہم وہ اس الزام کو اپنے خلاف حکومتوں کی مہم قرار دیتے ہیں۔
Comments are closed.