برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے فلیٹ کی تزئین و آرائش پر آنے والے اخراجات سے متعلق تحقیقات
سابق امریکی خاتونِ اول مشیل اوبامہ اور سیمنتھا کیمرون کی 11 ڈاؤننگ سٹریٹ کے فلیٹ میں لی گئی ایک تصویر۔
برطانیہ کے الیکٹورل کمیشن نے وزیرِ اعظم بورس جانسن کی 11 ڈاؤننگ سٹریٹ پر واقع سرکاری رہائشی فلیٹ کی مرمت، تزئینِ نو اور آرائش کے اخراجات کے بارے میں الزامات کی باقاعدہ تحقیقات کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
الیکٹورل کمیشن نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کا آغاز کر رہا ہے کہ آیا 11 ڈاؤننگ سٹریٹ کے فلیٹ میں کام کے اخراجات کی ادائیگیاں مناسب طریقے سے ڈیکلیئر کی گئی تھیں یا نہیں، اس کے علاوہ کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ اس بارے میں ‘مناسب اسباب ہیں کہ شاید ایک جرم یا ایک سے زیادہ جرائم سرزد ہوئے ہوں۔’
برطانیہ کے ایک اعلیٰ افسر سائمن کیس کا تحقیقاتی افسر کے طور پر تقرر کیا گیا ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ فلیٹ کی مرمت، تزئینِ نو اور آرائش کے لیے کیے گئے اخراجات کس طرح ادا کیے گئے تھے۔
یہ تنازعہ کیا ہے؟
وزیرِ اعظم بورس جانسن اور ان کی منگیتر کیری سیمنڈز نے اپنے اُس رہائشی فلیٹ کی تزئینِ نو کرائی تھی جو کہ 11 ڈاؤننگ سٹریٹ کی عمارت کی بالائی منزل پر واقع ہے۔
باتیں یہ ہو رہی ہیں کہ اس فلیٹ کی مرمت، تزئینِ نو اور آرائش کے لیے دو لاکھ پاؤنڈز خرچ کیے گئے تھے، جبکہ وزیرِ اعظم کو اس فلیٹ کے لیے اس مقصد سے سالانہ صرف 30 ہزار پاؤنڈ ملتے ہیں۔
بورس جانسن کے سابق مشیر اعلیٰ ڈومینِک کمِنگز کا دعویٰ ہے کہ وزیرِ اعظم نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ عطیات دینے والے ان کے فلیٹ پر ہونے والے کام کے اخراجات کی ‘خفیہ طریقہ سے ادائیگیاں’ کریں۔
ڈومینِک کمنگز نے کہا ہے کہ یاہ ادائیگیاں ‘غیر اخلاقی، احمقانہ اور ممکنہ طور پر غیر قانونی ہیں، اور ایک بات تو یقینی ہے کہ یہ عطیات جن مقاصد کے لیے دیے گئے تھے اور جس طرح استعمال کیے گئے، ان کے بارے میں اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔’
حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کا پہلا مطالبہ تو یہ ہے کہ اس فلیٹ کی مرمت پر جتنی رقم خرچ ہوئی ہے اس بارے میں وزیرِ اعظم تمام معلومات ظاہر کریں۔
حکومت کا موقف کیا ہے؟
حکومت کے ایک وزیر لارڈ ٹرو نے 23 اپریل کو کہا تھا کہ اس فلیٹ کی تزئینِ نو کے لیے ‘اضافی رقم وزیرِ اعظم نے ذاتی طور پر اپنی جیب سے ادا کی ہے۔’
تاہم اس کام پر خرچ کرنے کے لیے یہ رقم وزیرِاعظم کو پیشگی کے طور پر ادا کی گئی تھی، جو یا تو عطیات تھے یا قرضہ تھا جسے انھوں نے بعد میں واپس کردیا تھا۔
جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وزیراعظم نے اس بارے میں ریکارڈ پر بات کی تھی کہ وہ عطیات کے ذریعے مرمت کے اخراجات کی ادائیگیاں کرسکتے ہیں، تو اس پر بورس جانسن نے کہا تھا کہ ‘اگر اس بارے میں کچھ بھی کہا جاسکتا ہے، یا کوئی ڈیکلیئریشین دی جاسکتی ہے تو وہ بلاشبہ وقت آنے پر ضرور کی جائے گی۔’
اگر بورس جانسن نے رقم وصول کی تھی تو کیا یہ ایک متنازعہ بات ہوگی؟
اگر وزیرِ اعظم نے فلیٹ کی تزئینِ نو اور آرائش کے لیے رقم وصول کی ہے تو اس بات کی توقع کی جائے گی کہ وہ اسے عوام کے سامنے بیان کریں گے۔
حزب اختلاف کے محکمہ صحت کے متبادل (شیڈو) سیکریٹری، جوناتھن ایشورتھ نے کہا ہے کہ ‘اگر کسی نے اس رقم میں کوئی حصہ ڈالا ہے تو اب تک انھیں عوام کے سامنے بیان کردیا جانا چاہیے تھا۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ‘کاروباری دوستوں نے اس فلیٹ کی تزئین اور آرائیش کے لیے فنڈ دیے ہیں تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کیا اُن کاروباری لوگوں کے حکومت کی پالیسیوں میں کوئی مفادات ہیں، آیا ان کا حکومت کی خریداری کے ٹھیکوں میں کوئی مفاد بنتا ہے۔’
اگر ایسی رقم موصول کی گئی ہو تو کیسے ڈکلیئر کی جاتی ہے؟
عموماً ارکانِ پارلیمان کو ایسے عطیات ملنے یا قرض حاصل کرنے کے 28 دنوں کے اندر ایسی رقم کو رپورٹ کرنا ہوتا ہے جو اُن کے کام پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
تاہم وزرا کے مفادات یا فوائد حاصل کرنے کو رپورٹ کرنے اور انھیں شائع کرنے کے بارے میں اصول و ضوابط کی ایک علحیدہ فہرست موجود ہے۔
اس فہرست میں یہ واضح نہیں ہے کہ تزئینِ نو اور آرائش کے لیے حاصل کی گئی مالی مدد کو اس اصول کے مطابق ڈکلیئر کیا جانا چاہیے تھا یا نہیں۔
الیکٹورل کمیشن کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیق اس بات کا ‘تعین کرے گی کہ آیا 11 ڈاؤننگ سٹریٹ سے متعلقہ کسی بھی رقم کی ادائیگی ان اصول و ضوابط کے دائرے میں آتی ہے جن کا یہ کمیشن اطلاق کرنے کا مجاز ہے، اور آیا ایسی رقم کی ادائیگی کا مجاز اتھارٹی کو رپورٹ کرنا ضروری تھا۔’
وزیرِاعظم 11 ڈاؤننگ سٹریٹ کی اس عمارت کی بالائی منزل میں رہتے ہیں۔
ان ممکنہ عطیات کے بارے میں کیا رپورٹ کیا گیا ہے؟
حکومت ڈاؤننگ سٹریٹ کی عمارتوں کی عطیات کے ذریعے فنڈنگ کے سوال پر غور کر رہی ہے۔ ایسے انتظامات پہلے ہی سے چیکرز اور ڈورنی ووڈ جیسی سرکاری رہائیش گاہوں کی مرمت کے اخراجات ادا کرنے کے لیے موجود ہیں۔
لندن کے ایک اخبار ڈیلی میل کے مطابق، حکمران جماعت ٹوری کے دارالامراء کے رکن لارڈ براؤن لا نے مبینہ طور پر پچھلے برس اکتوبر میں کہا تھا کہ وہ کنزرویٹو پارٹی کو 58 ہزار پاؤنڈ کا عطیہ ‘عنقریب پارٹی کی جانب سے تشکیل دی جانے والے ایک ڈاؤننگ سٹریٹ ٹرسٹ (نامی خیراتی ادارے) کے لیے دے رہے ہیں۔’
ارکانِ پارلیمان سے بات کرتے ہوئے سول سروس کے سربراہ سائمن کیس نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ لارڈ براؤن لا کو اس خِیراتی اداری کا سربراہ بننے کی دعوت دی گئی ہے اور یہ کہ وہ مخلتف پارٹیوں کے دیگر ارکان کو بھی اس خیراتی ادارے میں ٹرسٹی کے طور پر شامل ہونے کی دعوت دیں۔
تاہم ابھی تک ایسا کوئی خیراتی ادارہ وجود میں نہیں آیا ہے۔
سائمن کیس نے کہا ہے کہ یہ معاملہ ‘واقعی بہت ہی پیچیدہ’ ہے، جس میں حکومت کو کئی سوالات کے جوابات دینے ہیں، اور خیراتی اداروں پر نظر رکھنے والے ادارے چیریٹی کمیشن سے بھی یہ جاننا ہے کہ اس طرح کے کسی خیراتی ادارے پر نظر کس طرح رکھی جائے گی۔
بہرحال انھوں نے کہا کہ اس طرح کا کوئی بھی خیراتی ادارہ ڈاؤننگ سٹریٹ کے نجی علاقوں کی مرمت کے اخراجات ادا نہیں کرسکتا ہے۔
وزیرِاعظم 10 ڈاؤننگ سٹریٹ سے اگلے گھر میں کیوں رہتے ہیں؟
اپنے پیشروؤں کی طرح بورس جانسن اور ان کی منگیتر کیری سیونڈز 11 ڈاؤننگ سٹریٹ کی بالائی منزل کے چار کمروں کے اس فلیٹ میں اس لیے رہتے ہیں کیونکہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کی بالائی منزل والے فلیٹ کی نسبت یہاں رہائش کے لیے زیادہ کھلی جگہ ہے۔
ٹونی بلیئر پہلے وزیرِ اعظم تھے جنھوں نے 11 ڈاؤننگ سٹریٹ میں رہائش اختیار کی تھی۔ انھوں نے اور ان کی بیوی شیری نے اس فلیٹ کو اپنے اور اپنے تین بچوں کی رہائش میں تبدیل کردیا تھا (کچھ عرصے کے بعد ان کے ہاں چوتھا بچہ بھی پیدا ہوا تھا)۔
لندن کے قدیم عمارتوں کے تحفظ کے قانون کے مطابق گریڈ 1 میں شمار ہونے والی اس عمارت کے فلیٹ کی ڈیوڈ کیمرون اور ان کی بیوی سیمنتھا کے لیے 30 ہزار پاؤنڈ کے اخراجات سے شاندار طریقے سے تزئینِ نو کی گئی تھی۔
سابق امریکی خاتونِ اول مشیل اوبامہ اور سیمنتھا کیمرون کی 11 ڈاؤننگ سٹریٹ کے فلیٹ میں لی گئی ایک تصویر۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ 11 ڈاؤننگ سٹریٹ کے اس فلیٹ کی مرمت، تزئینِ نو اور آرائش کا کام ایک معروف انٹیریئر ڈیزائینر ‘لُولُو لیٹل’ نے کیا ہے۔
ایک مقامی میگیزین ٹیٹلر کے مطابق، بورس جانسن اور کیری سیونڈز اس فلیٹ کو اپنے پیشرو سابقہ وزیراعظم ٹریزا مے کے دور کے ‘جان لوئیس کے پرانے اور ڈراؤنے فرنیچر’ کی جگہ آج کل کے ‘طبقہِ امراء’ یا ہائی سوسائٹی کے فیشن کے معیار کے مطابق سجانا چاہتے تھے۔
Comments are closed.