ریٹا رابرٹس جن کی لاش قتل کے 31 سال بعد ’آپریشن آئیڈینٹیفائی می‘ کے ذریعے شناخت ہوئی
،تصویر کا ذریعہINTERPOL
- مصنف, ایلس کڈی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
’ہماری بہت ہی محبت کرنے والی، پیاری اور خوش مزاج بہن کو بے دردی سے ہم سے چھین لیا گیا حالانکہ ان خبروں پر کارروائی کرنا انتہائی مشکل تھا تاہم ریٹا کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کو دنیا کے سامنے لانے پر ہم بے انتہا مشکور ہیں۔‘
یہ ساری باتیں انٹرپول کی جانب سے شیئر کیے گئے ریٹا رابرٹس کے خاندان کے افراد کے بیان میں کہی گئی تھیں۔ ریٹا رابرٹس قتل ہونے والی ان 22 خواتین میں سے ایک ہیں جن کی شناخت کے لیے یورپ کی پولیس نے اس سال کے آغاز میں باقاعدہ ایک مہم شروع کی تھی۔ شناخت کی اس مہم کو’آپریشن آئیڈینٹیفائی می‘ کا نام دیا گیا۔
تفتیش کے دوران ان نا قابل شناخت لاشوں کی عمر 15 سے 30 سال کے درمیان پائی گئی۔
برطانوی خاتون ریٹا رابرٹس نے 1992 میں کارڈف میں واقع اپنے گھر سے بیلجیئم کے شہر اینٹورپ تک کا سفر کیا تھا۔ جس کے چار ماہ بعد ان کی نا قابل شناخت تشدد ذدہ لاش ملی تھی۔
انٹرپول کے بلیک نوٹسز
یہ مہم پہلی بار اس وقت سامنے آئی جب انٹرپول کی بلیک نوٹسز (سنگین جرائم کے لیے درکار معلومات) کی فہرست سامنے آئی ۔ ان نوٹسز میں نا قابل شناخت لاشوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں تھیں۔
واضح رہے کہ اس طرح کے نوٹسز عام طور پر پوری دنیا میں انٹرپول کے پولیس فورسز کے نیٹ ورک میں گردش کرتے ہیں۔
انٹرپول کی ویب سائٹ پر دستیاب اس بلیک نوٹسز کی فہرست میں ان خواتین کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں جن میں لاشوں کی ممکنہ شناخت کرنے والی اشیا کی تصاویر سے لے کر بعض کیسز کی تفصیلات بھی ہیں جن میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ان لاشوں کے چہرے کو قابل شناخت بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔
انٹر پول کی ویب سائٹ پرکیسز کے بارے میں مکمل معلومات بھی شامل کی گئیں۔
محفل میں جان ڈال دینے کی صلاحیت سے مالا مال خوبصورت ریٹا
ریٹا رابرٹس نے فروری 1992 میں کارڈف میں واقع اپنے گھر سے بیلجیئم کے شہر اینٹورپ تک کا سفر کیا تھا۔ ان کی لاش چار ماہ بعد دریا کے پانی کی رکاوٹ کے لیے لگائے گئے جنگلے کے پاس پڑی ہوئی ملی۔
پولیس کے مطابق ریٹا کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ریٹا کے خاندان کے مطابق ’وہ ایک خوبصورت انسان تھیں جنھیں سفر کرنا بے انتہا پسند تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خاندان سے بے انتہا پیار کرتی تھیں۔‘
’ریٹا کسی بھی محفل میں جان ڈالنے کی صلاحیت سے مالا مال تھیں۔ وہ جہاں بھی جاتیں لوگ ان کے گرویدہ ہو جاتے۔ ہمیں امید ہے کہ اب وہ جہاں کہیں بھی ہیں، ہمیشہ سکون میں رہیں گی۔‘
سبز پتوں اور سیاہ پھول والے ٹیٹو سے لاش کی شناخت
انٹرپول پولیس سروسز کے سربراہ سٹیفن کاوناگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ خاندان کے ایک فرد نے ان کے ٹیٹو سے ان کی شناخت کی جو سبز پتوں کے ساتھ ایک سیاہ پھول اور اس کے نیچے ان کے نام کا مخفف ’R’Nick‘ پر مشتمل تھا۔
انھوں نے کہا، ’ریٹا کے خاندان کے ایک رکن نے بی بی سی کے ذریعے آئیڈینٹی فائی می کی اپیل دیکھی اورانھیں یک دم احساس ہوا کہ ان کے خاندان کے ایک لا پتہ ہو جانے والے فرد کو درحقیقت نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔‘
ٹیٹو کو پہچاننے کے بعد خاندان نے بیلجیم میں موجود تفتیش کاروں سے ملاقات کی اور باقاعدہ طور پر ان کی شناخت کی۔انٹرپول پولیس سروسز کے سربراہ سٹیفن کاوناگھ نے اس سارے قصے کو خوفناک تضاد کا مجموعہ قرار دیا۔
’ایک جانب ہمیں فخر ہے کہ ہم رکن ممالک کے ساتھ کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں، ہمیں فخر ہے کہ ہم اس غریب خاتون ریٹا کی شناخت کرنے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ہم اس خاندان کے لیے اس تباہ کن خبر کا وسیلہ بنے جس میں ان کے پیارے کو بے رحمانہ انداز میں قتل کر کے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا گیا۔‘
بیلجیئم کے حکام اب عوام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ریٹا رابرٹس یا ان کی موت کے آس پاس کے حالات کے بارے میں کسی بھی معلومات کے ساتھ آگے آئیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں مئی میں آپریشن آئیڈینٹیفائی می شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً 1,250 ایسے پیغامات موصول ہوئے جن میں نیدرلینڈ، بیلجیم اور جرمنی میں ملنے والی ان 22 خواتین کی لاشوں سے متعلق کچھ نہ کچھ معلومات شیئر کی گئی تھیں۔
ان معلومات میں متاثرین کے ممکنہ نام اور خواتین کے لباس اور زیورات کے بارے میں کچھ نشانیاں بھی شامل ہیں۔
انٹرپول حکام کے مطابق پولیس اب بھی دیگر 21 دیگر لاشوں کی شناخت پر کام کر رہی ہے اور انھیں امید ہے کہ ریٹا رابرٹس کی شناخت صرف شروعات ہے۔
یہ مہم ڈچ پولیس کی طرف سے شروع کی گئی تھی جو ایک ایسی خاتون کی شناخت کے لیے کوشاں تھے جس کی لاش 1999 میں ایمسٹرڈیم کے مضافات میں ایک دریا میں تیرتی ملی تھی۔
اسی طرح کے دیگر کیسز میں 2002 میں جرمنی کے ایک سیلنگ کلب میں ایک خاتون کی لاش ملی جسے قالین میں لپیٹ کر تاروں سے بندھا گیا تھا۔
’ان تمام خواتین کی انفرادی طور پر ایک پہچان تھی، ہر خاتون کا ایک خاندان تھا، دوست احباب تھے۔ ان کے زندگی کے لیے اپنے ارادے اور عزائم تھے اور وہ سب وحشیانہ طور پر مار دی گئیں۔‘
’ہمیں قانون نافذ کرنے والے عالمی اداروں کے طور پر اب ایک موقع ملا ہے کہ ہم ان کی شناخت کرنے کی کوشش کریں اور اسے انجام پر پہنچائیں۔‘
Comments are closed.