برطانوی جوڑے کی ایک لاکھ پاؤنڈ کی چوری شدہ کار افریقہ بھیجے جانے والے کنٹینر سے برآمد
- مصنف, گیبی کولینسو
- عہدہ, بی بی سی ایسکس
انتھونی اور ڈینیئل ولسن جب ایسکس میں اپنے گھر پر نیند سے جاگے تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کی ایک لاکھ پاؤنڈ مالیت کی رینج روور غائب ہو گئی ہے۔ بعدازاں یہ گاڑی برطانیہ کی ٹلبری بندرگاہ پر وسطی افریقہ کے ملک کانگو جانے والے ایک کنٹینر پر لدی ہوئی پائی گئی۔
پولیس نے خبردار کیا ہے کہ جیسا ولسنز کی گاڑی کے ساتھ ہوا ہے ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
بشپ سٹورٹ فورڈ کے قریب ایک گاؤں میں چوروں کو ولسنز کے گھر سے اس کی رینج روور سپورٹ گاڑی چوری کرنے میں صرف 63 سیکنڈ لگے تھے۔
گھر کے سی سی ٹی وی کیمرا سے چوری کی واردات کی فوٹیج حاصل کی گئی جس میں یہ دیکھا گیا کہ اس واردات میں دو افراد ملوث تھے۔ ایک شخص ولسنز کی کار چوری کر رہا تھا جبکہ دوسرا اس گاڑی کو چلا کر لے گیا جس میں وہ آئے تھے۔
ولسن کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ’آپ ان میں سے ایک شخص کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ واردات کی رات ان کے والدین بھی جوڑے کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ مسز ولسن کہتی ہیں کہ ’وہ باقاعدہ میری کار پر جھک رہا ہے، کچھ کر رہا ہے، اس نے کار کے اندر کی لائٹ بند کر دی تھی ہے، اور پھر اسے گیراج سے نکال کر لے گیا۔‘”
اس جوڑے، جن کا ایک تین سال کا بچہ بھی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ چوروں نے اس کار کو لے جانے سے پہلے ان کا پیچھا کیا ہو گا۔ اس کار کی مالیت تقریباً 100,000 پاؤنڈ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پولیس کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ میرا پیچھا کیا گیا ہو کیونکہ وہ بنا چابی کے کار میں داخل ہوئے، تو شائد انھیں نے چابی کی نقل تیار کی ہو یا کوئی اور طریقہ استعمال کیا ہو جب میں گھر سے باہر ہوں۔ اور میں ہمیشہ اپنے بچے کے ساتھ ہی باہر جاتی ہوں اور یہ بات مجھے فکر مند کر رہی ہے۔
مجھے اس بات سے بہت خوف آ رہا ہے اور میں جتنا اس بارے میں سوچتی ہوں یہ اور بھی پریشان کن لگتی ہے۔‘
ولسن کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھیں تو یہ بہت حیران کن ہے کہ کوئی آپ کی گاڑی کے پاس آئے اور صرف 63 سکینڈ میں ایک مہنگی کار آپ کے گھر سے چرا کر چلتا بنے جبکہ اس نے کبھی زندگی میں اس کی چابی بھی نہ دیکھی ہو۔‘
کار کے ٹریکنگ سسٹم نے پولیس کو اس وقت الرٹ کیا جب وہ چابی کی رینج سے باہر ہو گئی تھی جو اب بھی ولسن کے پاس ہے۔ پولیس جب ولسن کے گھر پہنچی تو اس وقت تک ولسن کے گھر سے گاڑی چوری ہو چکی تھی۔‘
جولائی میں کار کے چوری ہونے کے تقریباً ایک ماہ بعد، یہ ایسکس کی ٹلبری بندرگاہ پر ایک کنٹینر کے اندر سے چھپائی ہوئی ملی۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ان چوری شدہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں سے ایک ہے جو بین الاقوامی روابط رکھنے والے منظم مجرموں کے ذریعے چوری کی جاتی ہیں۔
ایسکس پولیس کے چوری شدہ گاڑیوں کے انٹیلیجنس یونٹ کے مطابق ایسی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پولیس اہلکار پال گیرش کا کہنا تھا کہ ’اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔‘
سال 2021 میں اس یونٹ نے 480 اسی چوری شدہ گاڑیوں میں برآمد کیا تھا جبکہ سال 2022 میں یہ تعداد 600 گاڑیوں تک پہنچ گئی تھی۔
البتہ پال گیرش اس بات پر مطمئن ہیں کہ انھوں نے زیادہ گاڑیوں کو برآمد کیا ہے البتہ وہ ان بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت منافع بخش کاروبار ہے، کاروں کی چوری یا تو منظم گروہوں کی طرف سے کی جاتی ہے جو کار کے ایک مخصوص میک یا ماڈل کو نشانہ بناتے ہیں یا پھر موقع پرست افراد کی جانب سے کی جاتی ہے۔‘
پولیس فورس ایسے منظم جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’واضح طور پر یہ ایک بزنس ماڈل اپنایا جا رہا ہے اور اس کے لیے یقیناً ایک خاص گاڑی کا ماڈل، میک اور مخصوص رنگ کی گاڑیوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے تاکہ آرڈر پورا کیا جا سکے۔ اور ان گاڑیوں کو ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ان کا کہنا تھا کہ جبکہ چند کو ملک کی مقامی مارکیٹ میں کچھ کم قیمت پر فروخت کر دیا جاتا ہے اور سادہ لوح خریدار اس دھوکے میں اپنی محنت کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ انھوں نے سستا سودا کر لیا ہے۔‘
اور بعد میں انھیں پتا چلتا ہے کہ انھوں نے غلطی سے ایک چوری شدہ کار خرید لی ہے۔ تمام چوری شدہ گاڑی ثابت حالت میں فروخت نہیں کی جاتی۔
’بعض اوقات ہم نے ایسی چوری شدہ گاڑیاں بھی برآمد کی ہے جو اس وقت آدھی کٹی ہوئیں تھیں۔ بعض اوقات چور صرف گاڑی کے اگلے حصے میں دلچسپی رکھتے ہیں جہاں گاڑی کے انجن اور دیگر اہم پرزے ہوتے ہیں۔
پولیس اہلکار پال گریش کا کہنا ہے کہ ’یہ گاڑیوں کا سب سے اہم اور قیمتی حصہ ہوتا ہے۔ باقی گاڑی کو تباہ کر کے پھینک دیا جاتا ہے اور ان میں ایک لاکھ پاؤنڈ والی گاڑیاں بھی ہو سکتی ہیں۔‘
’وہ انھیں بیچ میں سے آدھا کاٹ کر بیچ دیتے ہیں۔‘
پولیس اہلکار پال گریش گاڑی مالکان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی کاروں کے سیکیورٹی سسٹم کے بارے میں مزید جانیں اور اگر ان کی گاڑی کے مینوفیکچرر نے ڈبل لاک ڈیڈ بولٹ سسٹم استعمال کرنے کا کہا ہے تو ہمیشہ اپنی کار کو ڈبل لاک کرنا یاد رکھیں۔
انہوں نے کار مالکان کو دیگر حفاظتی طریقے بھی اختیار کرنے کی سفارش کی، جیسے کہ سٹیئرنگ وہیل لاک وغیرہ۔
ریناٹو شیپانی ایک کریمنل انٹیلی جنس افسر ہیں جو انٹرپول کے ساتھ چوری شدہ گاڑیوں کو برآمد کرنے کا کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ولسنز کی رینج روور ڈی آر کانگو بھیجی جانے کے لیے تیار تھی۔
ریناٹو کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ میں چوری ہونے والی کاریں اکثر کانگو، کینیا، یوگنڈا اور سوڈان یا دائیں ہاتھ ڈرائیونگ والے ممالک میں بھیجی جاتی ہیں۔ ان ممالک کو بھیجی جانے والی کاریں تقریباً ہمیشہ بڑی، لگژری ایس یو وی ہوتی ہیں، جیسے ولسن کی رینج روور۔
جبکہ دوسری طرف مغربی افریقہ، شمالی امریکہ اور مغربی یورپ سے چرائیں گئی بائیں ہاتھ ڈرائیونگ والی گاڑیوں کا مرکز ہے۔ کیونکہ وہاں ان کی مانگ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کووڈ کی وبا کے بعد سے ان گاڑیوں کی چوریوں میں اضافہ ہوا ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث زیادہ سے زیادہ گاڑیاں چوری کر کے افریقہ برآمد کی جا رہی ہیں۔
انھوں نہ کہا کہ افریقی بندرگاہوں پر کارگو کی آمد کی نگرانی برطانیہ جیسے ممالک کے مقابلے میں بہت محدود اور کمزور ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ فی الحال چوری شدہ گاڑیاں برآمد کرنا بہت اسان ہے کیونکہ بیرون ملک جانے والے کنٹینرز کی نگرانی پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور جب وہ اپنی منزل پر پہنچتے ہیں تو وہاں تیاری اور نگرانی محدود ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انٹرپول اس سلسلے میں آگاہی دینے اور بندرگاہ کے عملے کو تربیت دینے کا کام کر رہی ہے۔
ریناٹو کا کہنا ہے کہ جرائم کی دنیا میں گاڑیاں چوری کرنا مشین کے ایک پرزہ کی مانند ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ ان کاروں کو منشیات یا منی لانڈرنگ کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ گاڑیوں کی چوری اب بڑے گروپوں کے لیے ایک بڑے پروگرام کا حصہ ہے جس میں دہشت گرد گروپوں کی مالی معاونت، منشیات کی سمگلنگ اور انسانوں کی سمگلنگ شامل ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کار چوری کسی اور جرم میں گاڑی کے استعمال کے لیے کی جاتی ہے۔‘
سنہ 2022 کے دوران، نیشنل وہیکل کرائم انٹیلی جنس سروس کے افسران نے 155 قیمتی چوری شدہ کاریں ضبط کیں جو بیرون ملک فروخت کی گئی تھیں۔
ایک آپریشن میں ڈی آر کانگو کے لیے تین کنٹینرز میں سے نو گاڑیاں ملیں اور پانچ کنٹینرز کے اندر مزید 16 گاڑیاں افریقہ پہنچنے سے پہلے برطانیہ واپس لائی گئیں۔
ان کنٹینرز میں گھریلو اشیاء پر مشتمل چیزوں کے طور پر درج کیا گیا تھا۔ درحقیقت، تمام چوری شدہ کاروں پر جعلی نمبر پلیٹیں تھیں۔
جہاں تک ولسن کا تعلق ہے، انھیں اپنی کار چوری ہونے کے بعد ایک غیر متوقع شرمندگی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب دو ہفتوں بعد ان کے گھر پر تیز رفتاری کرنے کا چللا موصول ہوا۔
دراصل وہ چوروں نے گاڑی چھیننے کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد ایسکس کے علاقے اونگر میں تیز رفتاری کی تھی ۔
چونکہ ان کی گاڑی خراب ہو گئی ہے، اس لیے انھیں ابھی تک گاڑی دوبارہ ملنا باقی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شائد وہ کبھی یہ گاڑی دوبارہ واپس حاصل نہ کر سکیں لیکن اس کا انحصار انشورنس کمپنی کے فیصلے پر ہے۔
مسز ولسن کا کہنا ہے کہ انھیں تشویش ہے کہ اگر انھیں اسی طرح کی متبادل گاڑی مل گئی تو وہ اس طرح کے واقعے کے دوبارہ ہونے کے خوف میں رہیں گی۔
جوڑے کا کہنا ہے کہ انھوں نے اضافی لاگت کے باوجود اپنے گھر کے حفاظتی اقدامات کو مزید بہتر کرنے اور بڑھانے کا ارادہ کیا ہے۔
مسز ولسن نے کہا کہ ’لیکن اگر آپ کے تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود آپ اپنی گاڑی چلانے کے دس منٹ بعد خود سے پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ کیا آپ واقعی اس میں باہر جانا چاہتے ہیں، یا کیا اپنے پاس گاڑی نہ رکھنا آسان ہے؟‘
تاہم ٹلبری کی بندرگاہ سے اس سلسلے میں جواب کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔
Comments are closed.