یورپی دارالحکومت برسلز میں دو روزہ یورپی سمٹ اختتام پذیر ہوگئی۔ اس سمٹ میں یورپی یونین کے تمام 27 ممبر ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت نے شرکت کی۔
اس سمٹ میں تمام ممبر ممالک نے یورپی کمیشن کی جانب سے یورپی یونین میں شمولیت کیلئے یوکرین، مالدووا اور جارجیا کی شمولیت کو قبول کر لیا۔
اس کے علاوہ روس کی جانب سے یوکرین پر مسلط کردہ جنگ کی مذمت کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ یوکرین کی مسلسل حمایت جاری رکھی جائے گی اور اس سال یوکرین کو 9 ارب یورو کی امداد بھی دی جائے گی۔
اس کے ساتھ ہی فیصلہ کیا گیا کہ یورپی ممالک میں سیاسی ہم آہنگی کیلئے ایک نیا سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے۔ تاکہ باہمی سیاسی مکالمے اور تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔
سمٹ کے آخر میں یورپی کونسل کے صدر چارلس مشل، یورپین کمیشن کی صدر ارسلا واندرلین نے یورپ کے 6 ماہ کیلئے صدر ملک فرانس کے صدر امانویل میکرون کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
پریس کانفرنس میں ان رہنماؤں نے بتایا کہ سمٹ میں دیگر مسائل کے علاوہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ایک اہم مسئلہ تھا۔ روس کی جارحیت نے خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مہنگائی کے مسئلے سے ملکر نمٹا جائے۔
کمیشن کی صدر نے اعلان کیا کہ اس مہنگائی میں اضافے اور مسائل کی وجہ روسی توانائی کے وسائل پر انحصار بھی ہے۔ اس لیے اس سے باہر نکلنا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ یورپی یونین اس انحصار کو مرحلہ وار ختم کرنے کیلئے ری جن پاور منصوبے کے تحت 300 ارب یورو خرچ کرے گا۔
اس منصوبے میں روس کی بجائے توانائی کے دیگر ذرائع سے حصول، توانائی کے استعمال کے طریقوں میں بہتری اور قدرتی طور پر موجود متبادل توانائی کے اپنے ذرائع پیدا کیے جائیں گے۔
اس حوالے سے انہوں نے آگاہ کیا کہ اس سال امریکا اور آذربائیجان سے ایل این جی سپلائی میں گذشتہ سال کے مقابلے میں بالترتیب 75 اور 90 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ اسرائیل اور مصر کے ساتھ ایک ایم او یو بھی سائن کیا گیا ہے۔ جس کے تحت اسرائیلی گیس، مصر کے ذریعے یورپ تک آئے گی۔ اس کے علاوہ نارویجین پائپ لائن کے ذریعے بھی 15 فیصد اضافہ ہوگا۔
ارسلا واندرلین نے فرنچ صدر میکرون کا اس بات پر خصوصی شکریہ ادا کیا کہ ان کے دور صدارت میں یورپ نے روس پر نہ صرف پابندیوں کے 6 مختلف پیکیج لگائے بلکہ ویمن آن بورڈ پراجیکٹ کے تحت خواتین ڈائریکٹرز کی تقرری کی فائل بھی آگے بڑھی۔
فرانسیسی صدر نے اس موقع پر یورپی یونین کے تمام ممبر ممالک اور اداروں کا شکریہ ادا کیا جن کی وجہ سے یہ سب کچھ ممکن ہوا۔
Comments are closed.