
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ برج خلیفہ واقعی اس صدی کے عجائبات میں سے ایک ہے۔
برج خلیفہ جس کا سابق نام برج دبئی ہے، متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں واقع دنیا کی بلند ترین عمارت ہے جس نے 4 جنوری 2010ء کو تکمیل کے بعد تائیوان کی تائی پے 101 منزلہ عمارت کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
برج خلیفہ انسان کی تعمیر کردہ تاریخ کی بلند ترین عمارت ہے۔ اس عمارت کو افتتاح کے موقع پر متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان کے نام سے موسوم کیا گیا۔
دنیا کی اونچی عمارت برج خلیفہ کی تعمیر کے لیے محض 6 برس کا وقت مختص کیا گیا تھا، جس میں انجینئرز کو اس عمارت کی تعمیر کا کارنامہ سرانجام دینا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اگر اس عمارت کا ڈیزائن تیار کیا جاتا تو صرف ڈیزائن بنانے میں ہی تین برس لگ جاتے اور باقی کے تین برسوں میں عمارت کی تعمیر ایک ناممکن سی بات تھی لہذا انجینئرز نے فیصلہ کیا کہ برج خلیفہ کی تعمیر بغیر ڈیزائن کے ہی شروع کی جائے۔
اس صدی کے عجائبات میں سے ایک برج خلیفہ کی تعمیر کا آغاز 21 ستمبر 2004ء کو برج دبئی کے نام سے ہوا تھا، اس کی تعمیر اور عمارت کا ڈھانچہ تو کھڑا ہوگیا تھا لیکن ونڈو پینل لگانے کے بعد انجینئرز کو ایک بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا تھاجس کے باعث اس کی اچانک سے تعمیر رُوک دی گئی تھی۔
برج خلیفہ پر کُل 24 ہزار گلاس پینل لگنے تھے، بُرج خلیفہ کی تعمیر کے وقت انجینئرز کا خیال تھا کہ اس عمارت میں ونڈو پینل لگانے کسی مسئلے کا باعث نہیں ہوگا لیکن دبئی کی کڑکتی گرمی میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت پر جو ونڈو پینل لگائے جانے تھے انہیں لگانے سے عمارت کے اندر کا درجہ حرارت دن کے وقت 100 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔
اتنے زیادہ درجہ حرارت پر ایک انسان کا اس عمارت میں داخل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ان پینلز کے لگنے کے بعد بلڈنگ کو ٹھنڈا کرنے میں 10 گُنا زیادہ بجلی استعمال ہوتی۔
ونڈو پینل کا مسئلہ برج خلیفہ کی تعمیر کے دوران کھڑا ہونے والا سب سے بڑا مسئلہ تھا یہاں تک کہ اس کی انٹیریئر ڈیزائننگ بھی روک دی گئی تھی۔
18 ماہ تک اسی مسئلے کے حل کی تلاش میں لگے، بالآخر مشہور زمانہ انجینئر جان زرافا نے مسئلے کا ایک مہنگا ترین حل بتایا۔
جان نے ایک خاص قسم کا گلاس بنایا جو سورج کی روشنی سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ ریز کو واپس پیچھے موڑ دیتا (REFLECT کردیتا) تھا، اس ایک گلاس پینل کی قیمت دو ہزار ڈالر تھی، اور عمارت میں لگنے کے لیے 24 ہزار پینلز بننا تھے۔ان پینلز کی کُل رقم تین ارب 60 کروڑ بنتی تھی۔
ان پینلز کو بنانے کے لیے ایک پوری فیکٹری بنائی گئی، جس میں صرف یہی خاص گلاس پینلز بنائے گئے، اور محض چار ماہ کے قلیل عرصے میں ہی یہ ایلمونیم گلاس پینلز تیار ہوگئے۔
Comments are closed.