بدنام مذہبی رہنما مریضوں کو شفایاب کرنے کے جعلی معجزے کیسے دکھاتا تھا؟ ’کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ سب ایک تماشا تھا‘
- مصنف, چارلی نارتھکاٹ اور ہیلن سپونر
- عہدہ, بی بی سی نیوز، افریقہ آئی
- 33 منٹ قبل
بی بی سی نے پہلی بار اس راز کا پردہ فاش کیا ہے کہ کس طرح نائجیریا سے تعلق رکھنے والے مسیحی مبلغ ٹی بی جوشوا جعلی معجزات دکھا کر لاکھوں لوگوں کو اپنے گرجا گھر کی طرف راغب کرتے تھے۔ ٹی بی جوشوا پر تقریباً 20 سال تک بڑے پیمانے پر بدسلوکی، خواتین کے جنسی استحصال اور تشدد کا الزام ہے۔ انھوں نے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے قبل لاگوس میں اپنا چرچ ’دی سائناگاگ چرچ آف آل نیشنز‘ قائم کیا تھا۔ان کی شہرت میں زبردست اضافہ اُن کی خود ساختہ اور نام نہاد ’خدائی طاقتوں‘ اور بیماروں کو شفا دینے کی جادوئی صلاحیت سے جڑا ہوا تھا۔ڈرامائی علاج کے دوران انھیں جسمانی طور پر معذور افراد کو وہیل چیئر سے اٹھا کر چلاتے ہوئے اور ایک موقع پر تو ایک مردہ شخص کو زندہ کر کے دکھاتے ہوئے فلمایا گیا تھا۔
ان لوگوں کی گواہیوں کے ساتھ جن کے بارے میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بیماریوں سے شفایاب ہو گئے ہیں انھوں نے اپنی ویڈیوز کو دنیا بھر کے گرجا گھروں میں بھیجا۔سنہ 2004 میں نائجیریا کی حکومت نے پادریوں کے مبینہ معجزات کو براہ راست ٹی وی پر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی، جس کے بعد جوشوا نے اپنے چینل ’ایمانوئل ٹی وی‘ کو سیٹلائٹ اور پھر آن لائن لانچ کر دیا تاکہ لوگ ان کے معجزات دیکھتے رہیں اور ان کی جانب راغب ہوتے رہیں۔ان کا عالمی ٹیلی ویژن چینل اور سوشل میڈیا کا بڑا نیٹ ورک دنیا کے سب سے کامیاب مسیحی نیٹ ورکس میں سے ایک بن گیا۔ ان کے مبینہ معجزات یورپ، امریکہ، جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ میں لاکھوں لوگوں کے لیے نشر کیے گئے۔ یوٹیوب پر موجود ان کی اس نوعیت کی ویڈیوز کو لاکھوں بار دیکھا جا چکا ہے۔سنہ 2021 میں 57 سال کی عمر میں فوت ہونے والے پادری ٹی بی جوشوا درحقیقت ایک دھوکے باز تھے۔ برطانیہ، نائجیریا، گھانا، امریکہ، جنوبی افریقہ اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے 25 سے زائد افراد کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات پر مشتمل بی بی سی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انھوں نے عبادت گزاروں اور اپنے پیروکاروں کو دھوکہ دیا تھا۔مگر وہ یہ سب کیسے کر رہے تھے؟
ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ
اُن کے چرچ کا ایک خصوصی حصہ، جسے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کا نام دیا گیا تھا، نام نہاد معجزات کو حقیقی دکھانے کا ذمہ دار تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایسے بیمار افراد کی جانچ پڑتال کی جاتی جو اپنی بیماریوں سے شفا حاصل کرنے کے لیے یہاں کا رُخ کرتے۔ یہاں مریضوں کی سکریننگ کے بعد جوشوا کی ٹیم یہ فیصلہ کرتی تھی کہ کس کی ویڈیو بنائی جائے۔10 سال تک اس شعبے کی نگرانی کرنے والے اگوموہ پال نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ٹیم کے ممبروں کو ’طبی ڈاکٹروں نے باقاعدہ تربیت دی تھی۔‘اگوموہ ٹی بی جوشوا کے ایک سابق پیرو کار ہیں اور وہ اس گروپ سے تعلق رکھتے تھے جو پادری کے بہت قریب تھا اور اسی چرچ کے ایک کمپاؤنڈ کے اندر جوشوا کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔وہ کہتے ہیں ’کینسر کی کسی بھی حالت میں مریضوں کو وہ واپس بھیج دیتے۔ پھر جن لوگوں کے عام کھلے زخم تھے جو ٹھیک ہو سکتے ہیں، وہ انھیں عوام کے سامنے کینسر کے مریض کے طور پر پیش کرنے کے لیے لاتے۔‘صرف قابل اعتماد پیروکاروں کے ایک منتخب گروپ کو ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ تک رسائی اور وہاں کام کرنے کی اجازت تھی۔ وہ ہر پیروکار کے ہاتھ میں پلے کارڈ ز لکھتے تھے، جن پر ان کی جانب سے بنائی ہوئی یا مبالغہ آمیز بیماریوں کی تفصیل ہوتی تھی۔جب جوشوا سے ملنے کا وقت آتا، تو وہ کیمروں کے سامنے قطار میں کھڑے ہو جاتے، جوشوا اپنے ہاتھ ہلاتے، دعا کرتے اور مریض ’صحت یاب‘ ہوتے جاتے۔پال کہتے ہیں کہ ’یہ ایک پیچیدہ نظام تھا۔ تمام پیرو کاروں کو معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ ایک راز تھا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
ادویات کا استعمال
گرجا گھر میں شفا یابی کے لیے آنے والے تمام غیر ملکی زائرین کو ایک میڈیکل رپورٹ بھرنی پڑتی تھی، جس میں ان کی بیماری اور ڈاکٹروں کی جانب سے انھیں تجویز کی جانے والی ادویات کی تفصیل ہوتی تھی۔ ان سے کہا جاتا تھا کہ وہ اُن ادویات کو لینا بند کر دیں، لیکن جوشوا اپنے فارماسسٹوں کو وہی دوا خریدنے کا حکم دیتے تھے۔ پال بتاتے ہیں کہ مریضوں کے علم میں لائے بغیر وہ ’ان دواؤں کو پھلوں کے مشروبات میں ڈال دیتے‘ اور پھر مریضوں کو یہ کاک ٹیل پینے کی ترغیب دی جائے گی جس میں ’یسوع کی برکت‘ شامل تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جب زائرین چرچ سے موجود رہائشی کمپاؤنڈ میں رہ رہے ہوتے تو وہ بیمار نہ پڑتے (دواؤں کی باقاعدگی کے استعمال کے باعث) اور اپنے پادری کی شفا یابی کی طاقتوں پر یقین کرنے لگتے۔ سنہ 1990 کی دہائی میں جب ایچ آئی وی/ ایڈز سب صحارا افریقہ کے کچھ حصوں میں وبائی سطح تک پہنچ گیا تھا تو جوشوا نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ جب وہ گھر واپس آئیں تو اپنی اینٹی ریٹرو وائرل ادویات لینا بند کر دیں۔ ایک سابق پیروکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اعتراف کیا کہ ’میں جانتا ہوں کہ لوگ مر گئے کیونکہ انھوں نے اپنی دوا نہیں لی تھی، اور اس کے ساتھ جینا مشکل تھا۔‘جنوبی افریقہ کی 49 سالہ تاش فورڈ 2001 میں اس امید میں لاگوس گئی تھیں کہ ان کے گردے ٹھیک ہو جائیں گے، اُن سے کہا گیا تھا کہ وہ ادویات کا استعمال بند کر دیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ آپ کو معجزاتی طور پر ایک نیا گردہ مل سکتا ہے۔‘اس وقت تک ان کے گردے کی دو پیوند کاریاں ہو چکی تھیں۔ فورڈ کہتی ہیں کہ جوشوا کے چیلوں نے کہا ’اپنی دوا لینا بند کرو اور صرف (جوشوا پر) ایمان لاؤ۔‘ادویات چھوڑنے کے باوجود انھیں یقین ہو گیا کہ وہ ٹھیک ہو گئی ہیں لیکن جب وہ گھر پہنچیں، تو اپنی دوا نہ لینے کے باعث چار ہفتوں کے بعد ان کے گردے فیل ہو گئے اور انھیں اسپتال میں داخل کروایا گیا۔ ابتدائی طور پر ڈاکٹروں نے ان کے گردے کو بچانے میں کامیابی حاصل کی لیکن آخر کار انھوں نے کام کرنا بند کر دیا اور 2011 میں تیسری پیوند کاری کرنے سے پہلے انھیں چھ سال سے زیادہ عرصے تک گردے کا ڈائیلاسز کروانا پڑا۔
برین واشنگ
رشوت
ان کے کچھ پیروکاروں کا الزام ہے کہ انھیں ایسے لوگوں کو تلاش کرنے کا کام دیا گیا جو پیسوں کے عوض بیمار ہونے کا دکھاوا کرتے۔جب وہ نائجیریا سے باہر کے ممالک میں شفا یابی کرتے تو وہ غربت میں رہنے والے لوگوں کی تلاش میں شہر کے غریب علاقوں میں جاتے تھے۔ایک اور سابق چیلے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم ان سے کہتے کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ صرف اس خاص منظر پر عمل کریں اور ہم آپ کو اس کی قیمت ادا کریں گے۔‘وہ کہتی ہیں ’ہم انھیں ہوٹلوں میں لے جاتے ہیں، ہم انھیں صاف ستھرا کرواتے ۔ وہ آتے، وہی کرتے ہیں جو ان سے کہا جاتا۔ ہم انھیں اس کے عوض پیسے دیتے۔‘ٹیم کے یہ ممبر جوشوا کو بتاتے تھے کہ انھوں نے ان جعلی بیمار افراد کو مجمے کے کون سی قطار میں کس نمبر پر کھڑا کر رکھا ہے اور انھوں نے کون سے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، تاکہ وہ جان سکیں کہ انھیں کس پر اپنے معجزے کی کرامت دکھانی ہے۔وہ کہتی ہیں ’لوگوں کو صرف یہ دکھانے کے لیے لایا جاتا تھا کہ وہ ٹھیک ہو گئے ہیں۔‘ ،تصویر کا ذریعہGetty Images
جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ
لاکھوں افراد کو باقاعدگی سے نشر کیے جانے والے ’شفا یابی کے معجزات‘ میں طبی رپورٹس شامل کی جاتی تھیں جن میں بتایا گیا تھا کہ لوگ ایچ آئی وی/ ایڈز اور کینسر جیسی بیماریوں سے شفایاب ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کیمرے پر انٹرویو کیا گیا جس میں علاج اور شفایابی کی تصدیق کی گئی۔سنہ 2000 میں نائجیریا کے صحافی ایڈیجون سوئینکا نے رپورٹ کیا کہ یہ میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی تھے، مگر ان کی یہ بات جھوٹ سمجھی گئی۔آج تک کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ شفایاب ہو گئے تھے، لیکن اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب جوشوا کی اداکاری تھی۔ انھوں نے کہا، ’پوری چیز سٹیج مینیجڈ اور جعلی تھی۔‘پال کہتے ہیں کہ ’یہ جعلی تھا‘ اور وہ جوشوا کو ایک ’شیطانی ذہن‘ قرار دیتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ کمپاؤنڈ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا جس کے بارے میں جوشوا کو معلوم نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ٹی بی جوشوا وہ شخص تھا جو اس ساری ہیرا پھیری کا ماسٹر مائنڈ تھا۔‘
ویڈیو میں دھوکہ دہی
ان مبینہ ’معجزات‘ کو فلمانے کے بعد انھیں ایڈٹ کیا جاتا تاکہ یہ ظاہر ہو سکے کہ مبینہ شفا یابی فوری طور پر ہوئی تھی۔ اس سے پہلے اور بعد کی فوٹیج کو ان کی مبینہ معجزاتی طاقتوں کو ظاہر کرنے کے لیے ایک ساتھ جوڑ دیا گیا تھا، لیکن حقیقت میں فلموں کی شوٹنگ مہینوں، یا یہاں تک کہ ایک سال کے وقفے سے کی گئی تھی۔پانچ سال تک چرچ کے چیف ویڈیو ایڈیٹر رہنے اور ایمانوئل ٹی وی پر کام کرنے والی بسولا کا کہنا ہے کہ ’آپ ٹی وی پر صرف پہلے اور بعد کے مناظر دیکھتے ہیں، آپ کو ان کے اوقات کے فرق کا اندازہ نہیں۔‘بی بی سی کو انٹرویو دینے والے دیگر افراد کی طرح انھوں نے بھی اپنی حفاظت کے پیش نظر صرف اپنا پہلا نام استعمال کرنے کا انتخاب کیا۔ وہ کہتی ہیں ’جو کچھ لوگ دیکھتے ہیں۔۔۔ حقیقی نہیں ہے۔ یہ دھوکہ ہے۔‘وہ ان کلپس اور نشریات کے بارے میں بات کر رہی تھیں، جن کی انھوں نے نگرانی کی تھی۔وہ کہتی ہیں ’میں اب ایک ایسے فرد کے طور پر بات کر رہی ہوں جو ایک اندر کا آدمی تھا۔‘’جو کچھ بھی وہ ناظرین کو نہیں دیکھنا چاہتے تھے وہ ’کاٹ دیا جاتا‘ تھا۔ یہ سب ’منظم‘ انداز میں ہو رہا تھا۔‘ بی بی سی نے اس تحقیقات میں لگائے گئے الزامات کے حوالے سے چرچ سے رابطہ کیا۔ اس نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا، لیکن جوشوا کے خلاف پچھلے دعوؤں کی تردید کی۔انھوں نے کہا کہ ’ٹی بی جوشوا کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانا کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی الزام کبھی ثابت نہیں ہوا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.