بحیرہ روم میں 9 برس میں 27 ہزار ہلاکتیں: اُسامہ جن کے جال میں مچھلیوں کے ساتھ تارکین وطن کی لاشیں بھی پھنستی ہیں

ماہی گیر
،تصویر کا کیپشن

تیونس کے ماہی گیر اسامہ جن کے جال میں مچھلیوں کے علاوہ لاشیں بھی پھنس جاتی ہیں

  • مصنف, مائیک تھامپسن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، سفیکس

جیسے جیسے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی تعداد بڑھ رہی ہے اسی طرح بحیرہ روم میں ہونے والی اموات کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ڈوبنے والی وہ کشتی جس پر پاکستانی سوار تھے وہ بھی بحیرہ روم میں ہی غرق ہوئی ہے۔

ایسے میں جہاں یورپی یونین کے عہدیداروں کو اس بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی نقل مکانی پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے وہیں غربت اور ظلم و ستم سے بھاگنے والوں کی حالت زار تیونس کے ساحلوں پر اپنے دردناک نشان چھوڑ رہی ہے۔

جیسے ہی سورج اپنے مشرقی ساحل کے افق پر ابھرتا ہے تو اسامہ دابیبی نامی ماہی گیر اپنا جال پانی میں پھینک دیتے ہیں۔ اُن کی نظریں جال میں پھنسنے والی چیزوں کا بے چینی سے جائزہ لینے لگتی ہیں کیونکہ بعض اوقات اس میں صرف مچھلیاں ہی نہیں ہوتیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مچھلیوں کے بجائے مجھے کبھی کبھی لاشیں بھی مل جاتی ہیں۔ پہلے پہل ڈر لگا تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ عادت پڑ گئی۔ کچھ دنوں بعد جال سے لاش نکالنا میرے لیے مچھلی کے ملنے کے مترادف ہو گیا۔‘

گہرے رنگ کے شرٹ اور شارٹس میں ملبوس 30 سالہ اسامہ کا کہنا ہے کہ حال ہی میں 72 گھنٹوں (تین دن) کے دوران ان کے جال میں 15 تارکین وطن کی لاشیں پھنسیں ہیں۔

’ایک بار مجھے ایک بچے کی لاش ملی۔ کوئی بچہ کسی بھی چیز کے لیے کس طرح ذمہ دار ہو سکتا ہے؟ میں رو پڑا۔ بالغوں یا بڑے عمر کے افراد کی بات مختلف ہے کیونکہ وہ کچھ جی چکے تھے لیکن بچے انھوں نے تو کچھ نہیں دیکھا۔‘

اسامہ 10 سال کی عمر سے تیونس کے دوسرے بڑے شہر سفیکس کے قریب ان پانیوں میں مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پہلے وہ جال ڈالنے والے بہت سے لوگوں میں سے ایک تھے لیکن اب زیادہ تر ماہی گیروں نے اپنی کشتیاں بڑی رقوم کے عوض سمگلروں کو بیچ دی ہیں جنھیں وہ انسانوں کی سمگلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

’کئی بار سمگلروں نے مجھے اپنی کشتی کے لیے ناقابل یقین حد تک بڑی رقم کی پیشکش کی لیکن میں نے ہمیشہ انکار کیا کیونکہ اگر انھوں نے میری کشتی استعمال کی اور کوئی ڈوب گیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گا۔‘

افریقی پناہ گزین

،تصویر کا کیپشن

افریقی ممالک کے تارکین وطن کسی بھی حال میں یورپ پہنچنا چاہتے ہیں

تھوڑی ہی دوری پر جنوبی سوڈان سے آنے والے تارکین وطن کا ایک گروپ بندرگاہ سے دور آہستہ آہستہ چلا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ سوڈان سنہ 2011 میں آزادی کے بعد سے تنازعات، موسمیاتی سختیوں اور خوراک کی قلت کا شکار ہے۔

یہ تمام افراد برطانیہ پہنچنے کے لیے پُرامید ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ انھوں نے بہت پس و پیش کے ساتھ اٹلی عبور کرنے کی دوسری کوشش ترک کر دی ہے، اس کی وجہ انھوں نے بہت زیادہ لوگوں سے بھری کشتی اور بگڑتے ہوا موسم بتایا۔

’وہاں بہت سارے لوگ تھے اور کشتی بہت چھوٹی تھی۔ اس کے باوجود ہم عازم سفر تھے۔ ابھی ہم ساحل سے نکلے ہی تھے کہ دیکھا تیز ہوا تھی۔ ہوا بہت زیادہ تیز تھی۔‘

تیونس کے نیشنل گارڈز کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں 13,000 کے قریب تارکین وطن اکثر بھری ہوئی کشتیوں کی وجہ سے سفیکس کے قریب کشتیاں چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور ساحل پر واپس آ گئے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے مطابق رواں سال جنوری اور اپریل کے درمیان تقریباً 24,000 افراد نے عارضی کشتیوں میں تیونس سے اٹلی تک کا سفر کیا ہے۔

یہ ملک اب یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے روانگی کا سب سے بڑا اڈہ بن گیا ہے۔ اس سے قبل یہ ’اعزاز‘ لیبیا کو حاصل تھا لیکن تارکین وطن کے خلاف تشدد اور جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے اغوا کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اب لیبیا کے بجائے تیونس کا رُخ کرنا شروع کر دیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے یونان کے ساحل پر ہونے والی تباہی میں ملوث کشتی لیبیا سے روانہ ہوئی تھی جس میں کم از کم 78 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 500 افراد لاپتہ ہیں۔

ٹوٹے ہوئے جہاز

ان کے بہت سے زنگ آلود اور بوسیدہ جہاز یا تو آدھے پانیوں میں ڈوبے پڑے ہیں یا سفیکس کی بندرگاہ کے پاس ان کے بڑے بڑے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ یہ ترک شدہ باقیات دنیا کے سب سے مہلک ہجرت کے راستے کے خطرات کی یاد دہانی ہیں۔

شہر کے مضافات میں واقع قبرستان بھی اس کی ایک اور واضح یاد دہانی ہیں۔

قبرستان کے ایک وسیع حصے میں تازہ کھودی گئی قبروں کی قطاریں سمندر میں ہونے والے اگلے جانی نقصانات کے لیے خالی پڑی ہیں لیکن وہ کافی نہیں کیونکہ تارکین وطن کے لیے مکمل طور پر وقف ایک نیا قبرستان بنانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

رواں سال کے شروع میں صرف ایک دو ہفتے کے عرصے میں یہاں سمندر سے 200 سے زیادہ تارکین وطن کی لاشیں نکالی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سنہ 2014 سے اب تک بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش میں 27,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس طرح سے تیزی سے ہونے والے سانحے شہر کے لیے بڑی مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔

مقامی محکمہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حاتم شریف کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اتنی زیادہ اموات سے نمٹنے کے لیے سہولیات نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہسپتال کے مردہ خانے کی گنجائش زیادہ سے زیادہ 35 سے 40 میتوں کی ہے لیکن لاشوں کی اس تعداد میں آمد، جو بدتر ہوتی جا رہی ہے، یہ اس تعداد سے کہیں زیادہ ہے جو ہم مردہ خانے میں لے سکتے ہیں۔‘

تارکین وطن

،تصویر کا کیپشن

افریقی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ نسل پرستانہ حملوں کا شکار ہیں

حال ہی میں 250 لاشیں مردہ خانے لائی گئیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو اس سے ملحقہ ایک ٹھنڈے کمرے، جس کا نام ‘تباہی کا چیمبر‘ ہے میں اوپر تلے رکھنا پڑا تاہم ڈاکٹر شریف یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ سبھی کو الگ الگ نمبر والی قبروں میں دفن کیا جائے گا۔

مرنے والوں میں سے بہت سے لوگ نامعلوم ہیں، اس لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں اور نتائج کو احتیاط سے محفوظ کیا جا رہا ہے۔

یہ اس خیال سے کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی اپنے پیاروں کی تلاش میں آئے تو وہ اپنے ڈی این اے سے وہاں موجود ڈی این کا مقابلہ کر کے یہ جاننے کے قابل ہو کہ ان کا رشتہ دار یہاں دفن ہے یا نہیں۔

وہاں سے وسطیٰ تیونس میں شمال مغرب کی جانب تین گھنٹے کی مسافت پر تیونس کی سیاہ فام اقلیت کے کئی سو ارکان تارکین وطن کی بین الاقوامی تنظیموں کے دفاتر کے باہر عارضی خیموں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر خواتین اور بچے ہیں۔

فروری میں ملک کے صدر قیس سعید کی طرف سے ایک اشتعال انگیز نسل پرستانہ تقریر کے بعد سب کو ان کی ملازمتوں اور گھروں سے نکال دیا گیا تھا۔

انھوں نے اپنی تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ غیر قانونی تارکین وطن کی ’بھیڑ‘ ملک کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے ’مجرمانہ‘ منصوبے کے تحت ان کے ملک میں داخل ہو رہی ہے۔

ان تبصروں کو بڑے پیمانے پر ملک کے شدید معاشی بحران کے درمیان قربانی کے بکرے کی تلاش کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان بیانات کی وجہ سے تیونس کے بہت سے لوگ خود مہاجر بن گئے ہیں۔

سیرا لیون سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے اپنے بازو پر حالیہ چاقو کے وار کے زخم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کی تقریر کے بعد سے چاقو بردار مقامی نوجوانوں نے یہاں بہت سے لوگوں پر حملہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ سیرالیون سنہ 2002 میں ختم ہونے والی وحشیانہ خانہ جنگی سے نکلنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔

افریقی پناہ گزین

،تصویر کا ذریعہAFP

اس نوجوان نے کہا کہ ’کچھ عرب لڑکے یہاں ہم پر حملہ کرنے آئے تھے۔ پولیس نے کہا کہ اگر ہم یہاں رہیں گے تو وہ ہمیں محفوظ رکھیں گے لیکن اگر ہم اس علاقے سے باہر جائیں تو ہم محفوظ نہیں۔‘

یہ تشویشناک صورتحال اور مخالفین کو مسلسل جیلوں میں ڈالنا اور ملکی صدر کی طرف سے شہری حقوق کی پامالی وغیرہ یورپی یونین کے حکام کی ترجیحات میں شامل نہیں بلکہ ان کے لیے تارکین وطن کے بہاؤ کو روکنا ہی ترجیح دکھائی دیتی ہے۔

رواں سال اب تک 47,000 سے زائد تارکین وطن اٹلی پہنچے ہیں، جو کہ گذشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے اور اسی وجہ سے اس کے متعلق کچھ کرنے کے مطالبات بڑھ گئے ہیں۔

رواں ماہ کے شروع میں یہاں ایک مختصر دورے کے دوران یورپی کمیشن کی سربراہ ارسولا وان ڈر لیین کی قیادت میں آنے والے وفد نے تقریباً ایک ارب یورو کی ممکنہ مالی امدادی کے پیکج کا وعدہ کیا۔

اگر یہ منظور ہو جاتا ہے تو اس رقم کا تقریباً دس فیصد انسانی اسمگلنگ کے خلاف اقدامات پر خرچ کیا جائے گا۔

گذشتہ ہفتے یونانی ساحل پر پیش آنے والے سانحے نے کچھ کرنے کے مطالبات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

اس کے باوجود بہت سے تارکین وطن کی بیتابی اور لوگوں کی سمگلنگ کرنے کے انتہائی منافع بخش کام کی وجہ سے چھوٹی کشتیوں کے بڑھتے ہوئے بہاؤ کو روکنا بہت مشکل ہوگا۔

پورے افریقہ اور مشرق وسطی کے کچھ حصوں سے تارکین وطن کا ہجوم سفیکس کی گلیوں کے سایہ دار مقامات پر گروپوں میں جمع ہوتا ہے۔

کچھ کے پاس سمگلروں کی کشتی میں جگہ پانے کے لیے پیسے ہوتے ہیں جبکہ باقی معلق رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے کھانے پینے اور رہائش کی بھی ادائیگی کرنے سے قاصر ہیں۔

بہت سے لوگوں کے پاسپورٹ یا تو گم ہو گئے ہیں یا چوری ہو گئے ہیں جبکہ کچھ نے اس سے قبل کبھی بھی اپنے ملک کو غیر قانونی طور پر نہیں چھوڑا۔

سبھی نے یورپ پہنچنے کے سفر کے دوران بہت سے لوگوں کی موت کے بارے میں سن رکھا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی بیتابی خطرے پر حاوی ہے اور گنی کے ایک نوجوان نے اس کا اظہار بھی کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم اپنے ملک واپس نہیں جا سکتے کیونکہ ہمارے پاس پیسے یا پاسپورٹ نہیں۔ میں خوفزدہ نہیں ہوں۔ میں بھوکا مر رہا ہوں، (گھر میں) بہت زیادہ غربت ہے اور میرے والدین کے پاس کچھ نہی۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے اس طرح زندگی بسر کریں۔ مجھے جانا ہی ہوگا۔‘

المیہ یہ ہے کہ بہتر زندگی کی یہ بنیادی انسانی خواہش کی کبھی کبھی اتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ