بحرین، قطر، متحدہ امارات سمیت دیگر خلیجی ممالک کے حکمران پاکستان کے نادہندہ کیوں ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ریاض سہیل
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ابوظہبی کے حکمران شیخ خلیفہ بن زید اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد التھانی سمیت 16 کے قریب خلیجی ممالک کے سربراہان اور ان کے خاندان پاکستان کے نادہندہ ہیں اور ان پر23 لاکھ امریکی ڈالرز واجب الادا ہیں۔
بی بی سی اردو کے پاس موجود دستاویز کے مطابق یہ فیس تلور کے شکار کی مد میں اجازت ناموں اور بازوں کی درآمد اور برآمد کی مد میں واجب الاد ہے۔
یہ بقایا جات سال 2021 تک کے ہیں اسی طرح گذشتہ سیزن یعنی 2022 میں بھی یہ ادائگیاں نہیں کی گئیں جبکہ رواں سال یکم نومبر سے شکار کے سیزن کا آغاز ہو رہا ہے۔
بحرین کے شاہی خاندان میں سے بادشاہ شیخ حماد بن عیسیٰ بن سلمان الخلیفہ نے متعلقہ فیس ایک لاکھ 23 ہزار امریکی ڈالرز ادا کی ہے جبکہ ان کے پانچ رشتے داروں اور مشیروں پر نو لاکھ امریکی ڈالرز واجب الادا ہیں۔
بی بی سی کے پاس موجود دستاویز کے مطابق بحرین کے بادشاہ کے انکل شیخ ابراہیم بن حماد بن عبداللہ پر دو لاکھ امریکی ڈالرز، بحرین کے بادشاہ کے کزن اور وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل شیخ راشد بن عبداللہ الخلیفہ پر دو لاکھ امریکی ڈالرز، بحرین کے بادشاہ کے دفاعی امور کے مشیر شیخ عبداللہ بن سلمان الخلیفہ پر ایک لاکھ امریکی ڈالرز، شاہی خاندان کے رکن اور بحرین کے بادشاہ کے کزن شیخ احمد بن علی الخلیفہ پر دو لاکھ ڈالرز، بادشاہ کے ایک اور کزن شیخ خالد بن راشد بن عبداللہ الخلیفہ پر بھی دو لاکھ امریکی ڈالرز واجب الاد ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے صدر اور ابو ظہبی کے حکمران شیخ خلیفہ بن زید النہیان پر دو لاکھ امریکی ڈالرز، ابوظہبی کے ولی عہد اور مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر جنرل شیخ محمد بن زید النہیان پر دو لاکھ امریکی ڈالرز، شاہی خاندان کے رکن شیخ راشد بن خلیفہ المکتوم پر دو لاکھ امریکی ڈالرز، ریاست کے اہم رکن ناصر عبداللہ لوطہ پر ایک لاکھ امریکی ڈالرز، دبئی کے شاہی خاندان کے رکن شیخ احمد بن راشد المکتوم پر بھی دو لاکھ امریکی ڈالرز واجب الاد ہیں۔
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد التھانی پر ایک لاکھ امریکی ڈالرز، قطر کے دیوان کے امیر شیخ خالد شاہین پر ایک لاکھ امریکی ڈالرز واجب الاد ہیں جبکہ شاہی خاندان کے صرف ایک رکن شیخ فہد بن عبدالرحمان بن حماد التھانی نے دو لاکھ امریکی ڈالرز ادا کیے ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ، صوبائی محکمہ جنگلی حیات کو عرب مہمانوں کے لیے باز کی مدد سے شکار کے اجازت ناموں کی فہرست بھیجی جاتی ہے، شکار کا اجازت نامہ حاصل کرنے والا مہمان پر لازم ہے کہ وہ ایک ہزار امریکی ڈالر فیس ادا کرے گا جو ایک علاقے میں دس روز قیام کے لیے ہو گی، مقررہ مدت سے زائد قیام کے صورت میں ایک لاکھ پانچ ہزار امریکی ڈالر اضافی ادا کرنے ہوں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
حکومت کا کیا کہنا ہے؟
سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے پاکستان کی وزارت خارجہ کو متعدد مرتبہ خطوط لکھ کر ان بقایاجات کے بارے میں آگاہ کیا ہے تاہم وزرات خارجہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بی بی سی اردو کی جانب سے بھی دفتر وزارت خارجہ سے تحریری طور پر سوال کیا گیا کہ کیا مجموعی طور پر ان خلیجی ریاستوں کے سربراہان پر کتنی رقم واجب الاد ہے اور کیا ان سے وصولی کی جارہی ہے؟ کیا عدم ادائیگی کی صورت میں ان کے اجازت نامے منسوخ کیے جائیں گے تاہم تین ہفتوں سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان سوالات کے جوابات موصول نہیں ہوئے۔
جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران وزارت خارجہ کی ترجمان نے بی بی سی کے سوال کے جواب میں یہ تو واضح نہیں کیا کہ عرب ریاستوں کے سربراہان اور ان کے خاندانوں پر فیس کی مد میں کل کتنی رقم واجب الاد ہے اور اس کی وصولی کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں تاہم انھوں نے اجازت ناموں کے اجرا کا طریقہ کار بیان کیا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ معزز غیر ملکی شخصیات ایک طریقہ کار کے تحت پاکستان میں باز کے ذریعے شکار کرنے آتے ہیں، انھیں وزرات خارجہ دعوت دیتی ہے جبکہ صوبائی حکومتیں انھیں سکیورٹی فراہم کرتی ہیں اور معاونت کرتی ہے اور مقررہ فیس وصول کرتی ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اس شکار کے سیزن میں آنے والی غیر ملکی شخصیات ان علاقوں میں مقامی سوشل اکنامک منصوبوں میں معاونت فراہم کریں گے اور دو طرفہ ملکی تعلقات میں کردار ادا کریں گے۔
رواں سیزن بھی عدم ادائیگی کے باوجود شکار کھیلنے کی اجازت
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان میں باز کے ذریعے تلور کے شکار کی سیزن کا آغاز یکم نومبر سے ہو گا اور یہ سلسلہ 15 فروری تک جاری رہے گا، وزارت خارجہ نے عدم ادائیگی کے باوجود عرب مہمانوں کو تمام سہولیات اور انتظامات کے ساتھ رواں سال بھی شکار کھیلنے کی اجازت دی ہے۔
وزارت خارجہ کے دستاویزات کے مطابق عرب امارات کے صدر اور ابو ظہبی کے حکمران شیخ محمد بن زید النہیان کو پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے 13 اضلاع میں شکار کی اجازت دی گئی ہے، ان میں رحیم یار خان، راجن پور، سکھر،گھوٹکی، نوابشاہ، خیرپور، ژوب، اوڑ ماڑہ، پسنی، خاران، پنجگور، واشک اور سبی کے علاقے شامل ہیں۔
عرب امارات کے نائب صدر و وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن رشید المکتوم کو مظفر گڑھ، بہاولپور، خضدار، لسبیلہ، نو کنڈی اور حب میں شکار کی اجازت ہو گی۔
دبئی کے ولی عہد شیخ ہمدان بن محمد بن راشد المکتوم کو مظفر گڑھ، بہاولپور، فورٹ عباس میں شکار کی اجازت ہو گی، شاہی خاندان کے رکن شیخ ہمدان بن زید النہیان کو لہڑی، بولان، کچھی، خیرپور ناتھن شاہ، غیبی دیرو، شہدادکوٹ، نارا کینال، جوہی اور فریدآباد دادو میں شکار کھیل سکیں گے۔
عرب امارات کے شاہی خاندان کے رکن اور ملٹری کمانڈر میجر جنرل شیخ احمد بن راشد المکتوم کو عمرکوٹ، مٹھی اور ننگرپارکر میں شکار کی اجازت ہو گی، صدر کے مشیر اور شاہی خاندان کی رکن ڈاکٹر شیخ سلطان بن خلیفہ بن زید النہیان کو ڈیرہ مراد جمالی میں شکار کی اجازت ہو گی۔
شاہی خاندان کے رکن شیخ راشد بن خلیفہ المکتوم کو بدین، جنگشاہی، دہابیجی، چھتو چنڈ اور ملیر میں، شاہی خاندان کے رکن شیخ المربین بن مکتوم کو سمگلی اور تحصیل پنج پائی ، شیخ سیف بن محمد بن باٹی الحمید کو دکی، شیخ سلطان بن تھانو النہیان راشد بن خلیفہ الملکتوم کو میرپور خاص جبکہ ناصر لوطہ ٹھٹہ میں شکار کھیلیں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسی بن سلمان الخلیفہ کو تھانہ بولا خان، کوٹڑی مانجھند اور سیہون، بادشاہ کے کزن اور شاہی خاندان کے رکن شیخ ابراہیم بن حماد بن عبداللہ الخلیفہ شاہ بندر، بحرین کے ڈیفنس فورس کے کمانڈر ان چیف فیلڈ مارشل شیخ خلیفہ بن احمد الخلیفہ توسر ماشکیل، بحرین کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل شیخ راشد بن عبداللہ جعفر آباد اور نوشہروفیروز، بادشاہ کے دفاعی امور کے مشیر شیخ عبداللہ بن سلمان الخلیفہ جاتی اور سجاول، بادشاہ کے کزن شیخ احمد بن علی الخلیفہ حیدرآباد و ملیر، بادشاہ کے دوسرے کزن شیخ خالد بن راشد بن عبداللہ کو ٹنڈو محمد خان میں شکار کی اجازت ہو گی۔
سعودی عرب کے صوبے تبوک کے گورنر شہزادہ فہد بن سلطان بن عبدالعزیز آواران، نوشکی، چاغی میں اور ہفت الباطن کے گورنر شہزادہ بن محمد بن سعد بن عبدالرحمان ڈیرہ غازی خان میں شکار کھلیں گے۔
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد التھانی پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے تین اضلاع میں شکار کریں گے جن میں جھنگ، قلات، ڈیپلو اور اسلام کوٹ تھر شامل ہیں۔
قطر کے امیر کے والد شیخ حماد بن خلیفہ التھانی خوشاب، لیہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں اور قطر کے امیر کے بھائی شیخ جاسم بن حماد التھانی ماشکیل، قطر کے ڈپٹی وزیر اعظم شیخ محمد بن خلیفہ التھانی لورالائی، شاہی خاندان کے رکن شیخ محمد بن فیصل حماد کاکڑ خراساں اور قمر الدین کاریز میں شکار کھلیں گے۔
شاہی خاندان کے رکن شیخ علی بن جاسم بن جابر التھانی اور شیخ فہد بن فلاح بن جاسم جھل مگسی، وزیر دفاع شیخ حماد علی ال عطیہ خالق آباد، شاہی خاندان کے رکن شیخ فیصل بن خلیفہ بن خالد بہاول ننگر، ڈیرہ بگٹی ، شیخ ڈاکٹر فہد بن عبداللہ رحمان خالق آباد، نصیر آباد میں شکار کریں گے۔
شکار کی فیس اور مقامی ترقی
،تصویر کا ذریعہGetty Images
خلیجی ممالک کے سربراہان سے وصول کی جانے والی فیس سے مقامی علاقوں کی ترقی اور حفاظتی امور پر خرچ کی جاتی ہے۔
محکمہ جنگی حیات کے مطابق اس رقم کا 50 فیصد مقامی ترقی کے لیے مختص ہو گا، 35 فیصد تلور کے آماجگاہ کی بہتری اور 15 فیصد سکیورٹی کی مد میں خرچ ہو گا۔
محکمہ جنگلی حیات کے مطابق اس سے قبل اس فیس کے استعمال کا طریقہ کار واضح نہیں تھا اور حال ہی میں سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کے سنہ 2022 کے قانون میں فیلکنری فیس یعنی باز کے شکار کی فیس کے استعمال کے بارے میں شق شامل کی گئی ہے جس کے مطابق یہ رقم ایڈوائزری کونسل کی منظوری سے وزارات خارجہ کی رہنمائی میں استعمال کی جائے گی۔
مقامی لوگوں کے روزگار کے بارے میں محکمہ جنگلی حیات کے قانون کے مطابق شکار کے سیزن میں اکتوبر سے لے کر فروری تک پانچ ماہ کے لیے دس نگہبان اگر مہمان کو ضرورت ہے تو فراہم کیے جائیں گے جنھیں سرکار کی طرف سے تنخواہ ادا نہیں کی جائے گی۔
شکار کے اجازت نامے کے مطابق فی مہمان کو صرف ایک سو پرندوں کے شکار کی اجازت ہو گی مقررہ حد سے زائد شکار پر فی پرندہ ایک ہزار امریکی ڈالر جرمانہ وصول کیا جائے گا۔
محکمہ جنگلی حیات کے مطابق کوئی بھی شخص باز کی خرید و فروخت نہیں کرے گا، خلاف ورزی پر پچاس لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا اور باز کو بھی قبضے میں لے لیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس سیزن میں ساحلی اور میدانی علاقوں میں باز کا شکار بھی کیا جاتا ہے یہ باز سائبیرین پرندوں کے تعاقب میں ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں جن کو مقامی شکاری جال سے پھنساتے ہیں۔
فیلکنری کی شرائط کے مطابق سرکاری ملکیت والے صحرا، میدانی، پہاڑی اور ساحلی علاقوں میں شکار کی اجازت ہو گی اس میں نجی زمین اور املاک شامل نہیں ہوں گی۔ کس علاقے میں تنازع کی صورت میں ڈپٹی کمشنر حدود کا تعین کرے گا۔
Comments are closed.