بالفور اعلامیہ: سادہ کاغذ پر لکھے گئے 67 الفاظ جنھوں نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل ڈالی
،تصویر کا ذریعہBRIDGEMAN VIA GETTY IMAGES
ایک سادہ کاغذ پر لکھے 67 الفاظ نے مشرق وسطی میں ایک ایسے تنازع کا آغاز کیا جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے دوران، جس میں 1400 اسرائیلی اور ساڑے آٹھ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، بالفور اعلامیہ کے 106 سال بیت چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کو جنم دیا اور مشرق وسطی کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
دو نومبر 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریر میں پہلی بار برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فلسطین پر برطانیہ کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔
عرب اس دستاویز کو ’برطانوی دغا‘ سمجھتے ہیں کیوں کہ سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں انھوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کے بعد تقریباً ایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔
اس اعلامیے میں کیا کہا گیا؟
یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بیرن لیونیل والٹر روتھس چائلڈ کو بھجوایا تھا جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنما تھے۔
اس اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا:
’برطانوی حکومت کی جانب سے میں آپ کو صیہونی یہودیوں کی حمایت میں یہ بیان بھجوا رہا ہوں جو کابینہ کے سامنے رکھا گیا اور اس کی منظوری دی گئی۔‘
’برطانوی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کو مثبت نظر سے دیکھتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری کوشش کرے گی۔ تاہم یہ واضح رہے کہ فلسطین کی موجودہ آبادی کے سول اور مذہبی حقوق کیخلاف کوئی اقدام نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی اور ملک میں یہودیوں کے حقوق اور سیاسی سٹیٹس متاثر ہو گا۔‘
’میں آپ کا شکرگزار ہوں گا اگر آپ اس اعلامیے کو صیہونی فیڈریشن کے علم میں لائیں۔‘
آرتھر جیمز بالفور
،تصویر کا ذریعہPHOTO 12/UNIVERSAL IMAGES GROUP VIA GETTY IMAGES
جیمز بالفور کون تھے؟
اس اعلامیے کا نام اس کے مصنف برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور کے نام پر پڑا جو کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کنزرویٹیو پارٹی کے نمائندہ کی حیثیت سے رکن پارلیمان بنے۔ ان کا تعلق برطانیہ کے متمول گھرانے سے تھا۔
سکاٹش خاندان سے تعلق رکھنے والے آرتھر جیمز 1902 سے 1905 تک برطانیہ کے وزیر اعظم بھی رہے اور انھوں نے ملک کی خارجہ پالیسی میں اہم خدمات سرانجام دیں۔
آرتھر جیمز بالفور کا خیال تھا کہ برطانوی حکومت کو ’صیہونی ایجنڈا‘ کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔ یہ ایک سیاسی تحریک تھی جس نے 19ویں صدی کے اختتام پر یورپ میں زور پکڑ لیا تھا اور فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہی تھی۔
،تصویر کا ذریعہUNIVERSAL HISTORY ARCHIVE/GETTY IMAGES
آرتھر جیمز بالفور فلسطین میں یہودی آباد کاروں کے ساتھ
آرتھر جیمز بالفور کو اس بات کا سہرا دیا جاتا ہے کہ انھوں نے ہی برطانوی کابینہ کو اعلامیے کی حمایت پر راضی کیا۔ برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے بااثر رہنما لیونیل والٹر روتھس چائلڈ اور چائم ویزمین نے ان کی بھرپور مدد کی۔
چند لوگوں کا خیال ہے کہ آرتھر جیمز بالفور نے یہودیوں کی حمایت سیاسی فوائد کے لیے کی تھی۔
لیونیل والٹر روتھس چائلڈ کون تھے؟
لیونیل روتھس چائلڈ ایک طاقتور بنکاری خاندان کے سربراہ تھے اور یہودی کمیونٹی کے بااثر رہنما بھی تھے۔ یہ امیر اور طاقتور خاندان فلسطین میں یہودیوں کی ریاست کے قیام کے لیے سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔
اسی خاندان کے ایک اور رکن، ایڈمنڈ روتھس چائلڈ نے فلسطین میں بڑی تعداد میں زمین خریدی اور 19ویں صدی کے اختتام تک یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے میں مدد فراہم کی۔ اس زمانے میں یہ خاندان دنیا کے امیر خاندانوں میں سے ایک شمار ہوتا تھا۔
ایڈمنڈ کی جانب سے یہودیوں کی فلاح کے مقاصد کے لیے امداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کو ’بینیفیکٹر‘ (مددگار) کا لقب دیا گیا۔
بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ اعلامیہ لیونیل روتھس چائلڈ کے نام کیوں لکھا گیا جبکہ اس زمانے میں برطانوی یہودی کمیونٹی کے بورڈ آف ڈپٹیز کے صدر سٹوارٹ سیموئل تھے جو ملک میں سرکاری طور پر یہودی کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم تھی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں میں بھی دھڑے بندی تھی اور ایک گروہ اس ایجنڈے کی مخالفت کر رہا تھا۔
روتھس چائلڈ کے پاس کوئی سرکاری عہدہ تو نہیں تھا لیکن وہ ’صیہونی ایجنڈا‘ کی حمایت کرنے والوں میں سب سے آگے تھے۔ آرتھر جیمز بالفور سے ان کے تعلقات کی وجہ سے یہ خط ان کے نام ہی لکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دستاویز کی تحریر میں بھی روتھس چائلڈ نے حصہ لیا تاہم اس دعوے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
،تصویر کا ذریعہARCHIV HUBBMAN/GETTY IMAGES
لیونیل والٹر روتھس چائلڈ
چند سال بعد، 1925 میں، لیونیل روتھس چائلڈ برطانیہ میں یہودی تنظیم کے بورڈ آف ڈپٹیز کے صدر بھی بن گئے۔
بالفور اعلامیہ کا مقصد کیا تھا؟
برطانوی حکومت کو امید تھی کہ اس اعلامیے کے بعد امریکہ اور باقی دنیا میں بسنے والے یہودی پہلی عالمی جنگ میں مکمل طور پر جرمنی کے خلاف اتحادیوں کا ساتھ دیں گے۔
مؤرخین کا ماننا ہے کہ برطانیہ سمیت یہودی کمیونٹی معاشی اثرورسوخ رکھتی تھی اور خصوصاً عالمی سرمایہ کاری میں بااثر ہونے کی وجہ سے برطانیہ کو ان کی مدد درکار تھی۔ چند ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ برطانیہ نے جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لیے یہ اقدام کیا۔
اس تحریر کا مقصد جو بھی ہو، بالفور اعلامیہ نے 1948 میں اسرائیل کو جنم دیا اور خطے سے لاکھوں فلسطینیوں کو بے دخل کیا۔
فلسطینیوں کے نزدیک اسی اعلامیے سے ان کی مشکلات کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہیں۔ فلسطینیوں کے مطابق اس دستاویز میں ان کا نام تک نہیں لیا گیا اور انھیں فلسطین کی ’غیر یہودی آبادی‘ کے نام سے پکارا گیا۔
پہلی عالمی عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد اتحادیوں نے بالفور اعلامیے کی حمایت کی اور فلسطین باقاعدہ طور پر برطانیہ کے زیر اثر آ گیا۔ اس دوران بڑی تعداد میں یہودی فلسطین میں بسنا شروع ہوئے تو 1930 میں عرب آبادی نے تشویش کا اظہار کیا اور یوں دونوں کے درمیان تنازع کا آغاز ہوا۔
اس تنازع کو کم کرنے کے لیے برطانیہ نے یہودیوں کی آمد پر چند پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا لیکن عالمی جنگ کے بعد یہودی ریاست کے قیام کا دباؤ مذید بڑھا جب ہولوکاسٹ کی بربریت سامنے آئی۔
14 مئی 1948 کو فلسطین سے برطانوی مینڈیٹ کا اختتام ہوا اور برطانیہ نے اس خطے کو خیر آباد کہا تو اسی دن اسرائیل نے آزادی کا اعلان کر دیا۔
Comments are closed.