- مصنف, سو مچل اور بین ملنے
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 23 منٹ قبل
میں عراق کے ایک شاپنگ مال میں موجود ہوں اور میرے سامنے یورپ میں تارکین وطن کی سمگلنگ کرنے والا سب سے بدنام سمگلر بیٹھا ہے۔اِس کا نام بارزان مجید ہے جو برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک کی پولیس کو مطلوب ہے۔ اُس دن اور اگلے دن بارزان کے دفتر میں ہونے والی بات چیت کے دوران بارزان نے بتایا کہ اس کو معلوم نہیں کہ وہ کتنے تارکین وطن کو انگلش چینل عبور کروا چکا ہے۔ ’شاید ایک ہزار، شاید 10 ہزار، میں نہیں جانتا، میں نے کبھی گنتی نہیں کی۔‘ہماری یہ ملاقات چند ماہ پہلے تک ناممکن نظر آتی تھی۔ تارکین وطن کے ساتھ کام کرنے والے ایک سابق فوجی روب لاری سے مل کر میں نے اُس شخص کی تلاش کا آغاز کیا تھا جسے ’سکارپیئن‘ (یعنی بچھو) کے نام سے جانا جاتا ہے۔کئی سال سے بارزان اور اُن کا گینگ انگلش چینل پر کشتیوں اور بسوں کے ذریعے انسانی سمگلنگ کا بڑا حصہ کنٹرول کرتا رہا ہے۔ سنہ 2018 سے اب تک 70 افراد کشتی کے ذریعے سفر کرتے ہوئے موت کے منھ میں جا چکے ہیں اور گذشتہ سال ہی فرانس کے ساحل پر پانچ افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک سات سالہ بچی بھی شامل تھی۔
یہ ایک خطرناک سفر ہے جو سمگلروں کے لیے مالی طور پر کافی فائدہ مند بھی ہے کیوں کہ وہ کشتی کے سفر کے لیے ایک فرد سے چھ ہزار پاؤنڈ وصول کرتے ہیں۔ سنہ 2023 میں تقریبا 30 ہزار افراد نے اس طریقے سے سفر کرنے کی کوشش کی جس سے منافع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔’بچھو‘ میں ہماری دلچسپی کا آغاز ایک ایسی چھوٹی سی لڑکی سے ملاقات سے ہوا جو ہمیں شمالی فرانس کے ایک تارکین وطن کیمپ میں ملی تھی۔ چھوٹی سی کشتی میں انگلش چینل پار کرنے کی کوشش میں وہ تقریبا ہلاک ہونے والی تھی کیوں کہ جس کشتی پر وہ سوار تھی وہ سستی اور سمندری سفر کے لیے ناقابل استعمال تھی۔ کشتی میں سوار 19 افراد کے پاس لائف جیکٹس تک نہیں تھیں۔سمندر میں اس طرح سے لوگوں کو کون بھجواتا ہے؟،تصویر کا ذریعہEPAبرطانیہ میں جب پولیس غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرتی ہے تو ان کے فون کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ سنہ 2016 سے ایک ہی نمبر پولیس کو بار بار ملا جو اکثر ’بچھو‘ کے نام سے محفوظ ہوتا تھا۔ چند لوگوں نے اس نمبر کو بچھو کی تصویر کے ساتھ محفوظ کیا ہوا تھا۔برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے سینیئر تفتیشی افسر مارٹن کلارک نے ہمیں بتایا کہ افسران کو یہ علم ہوا کہ بچھو دراصل ایک کرد عراقی شہری ہیں جن کا اصل نام بارزان مجید ہے۔سنہ 2006 میں 20 سالہ بارزان مجید ایک ٹرک کے پیچھے چھپ کر برطانیہ میں داخل ہوئے تھے اور کئی سال تک برطانیہ میں مقیم رہے جس کے دوران اسلحہ اور منشیات سے جڑے مقدمات میں انھوں نے قید بھی کاٹی۔سنہ 2015 میں بارزان کو برطانیہ سے عراق ملک بدر کر دیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے کچھ ہی عرصے بعد بارزان کو اپنے بڑے بھائی کا انسانی سمگلنگ کا کاروبار ورثے میں ملا جو خود بیلجیئم کی ایک جیل میں سزا کاٹ رہے تھے۔ یوں بارزان مجید ’بچھو‘ بن گیا۔،تصویر کا ذریعہFACEBOOK
کیا یہ واقعی بارزان مجید تھا؟ یہ بتانا مشکل تھا لیکن جو تفصیلات اس شخص نے فراہم کیں وہ ہماری معلومات سے مطابقت رکھتی تھیں۔ اس نے بتایا کہ وہ سنہ 2015 تک برطانیہ میں ناٹنگھم میں رہائش پذیر تھا جب اسے ملک بدر کیا گیا۔ تاہم اس نے انسانی سمگلنگ کے دھندے میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔’یہ سچ نہیں ہے۔ یہ صرف میڈیا کا کام ہے۔‘فون لائن بار بار کٹ رہی تھی اور ہماری کوشش کے باوجود فون کرنے والے نے اپنے اصل مقام کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ پھر فون کرے گا یا نہیں۔ اس دوران روب کے ایک جاننے والے نے بتایا کہ بچھو اب لوگوں کو ترکی سے یونان اور اٹلی سمگل کر رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.