’باربی ڈول‘ اے آر 15 رائفل امریکہ کی ’قومی بندوق‘ کیسے بنی؟
- مصنف, چیلسی بیلی اور برنڈ ڈبسمین جونیئر
- عہدہ, بی بی سی
اے آر 15 نامی رائفل کو امریکہ کی ’قومی بندوق‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اندازوں کے مطابق ہر بیس میں سے ایک امریکی کے پاس یہ رائفل ہے مگر اسے تاریخ کی سب سے متنازع بندوقوں میں سے ایک بھی سمجھا جاتا ہے۔
آتشیں اسلحے کے خلاف احتجاجی مظاہرے اسے آئے روز پُرتشدد واقعات کی وجہ سمجھتے ہیں اور اس کی خرید و فروخت کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ کی رائفل ایسوسی ایشن (این آر آئی) کے سالانہ اجلاس سے قبل فائرنگ کے دو بڑے واقعات ہوئے ہیں۔
دو ہفتوں کے دوران نیشول اور کینٹکی کے دونوں واقعات میں 11 افراد مارے گئے جس کے بعد ملک گیر مظاہرے ہوئے جن میں فوجی طرز کی رائفلز پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا مگر این آر آئی کے چودہ ایکڑ وسیع نمائشی ہال میں کاروبار زور و شور سے جاری تھا۔
بہت سے لوگ اپنی پسندیدہ بندوق کو دیکھنے آئے تھے یا اپنی اسی بندوق کو نئی شکل دے رہے تھے جو فائرنگ کے کئی واقعات میں قدر مشترک ہے: رائفل اے آر 15۔
’اے آر 15 سٹائل رائفل‘ کی شہرت کی وجہ اس کے سستے دام، رد و بدل کی گنجائش، کم وزن اور اس کا خطرناک ہونا ہے۔ امریکہ میں گن کلچر کے خلاف جنگ میں اسے بڑی ڈھال تصور کیا جاتا ہے۔
ایک طرف عدالتوں میں آئین کی دوسری ترمیم کے دلائل دیے جاتے ہیں جس میں اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ دوسری طرف ہتھیار رکھنے کے حقوق کو محدود یا وسیع کرنے پر بحث ہوتی ہے۔ فریقین اے آر 15 کی مثال دیتے ہیں۔
ماہرین اور اسلحے کی صنعت کے معاملات سے باخبر افراد کہتے ہیں کہ ملک اچانک اس موڑ پر نہیں آ پہنچا۔ ہم نے اس تحریر میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اے آر 15 امریکی کی ’قومی بندوق‘ کیسے بنی۔
اے آر 15 کی تاریخ
سنہ 1950 کی دہائی کے دوران امریکی کمپنی آرم لائٹ، جسے بعد میں اے آر کا نام ملا، نے یہ سیمی آٹومیٹک رائفل بنائی۔ پھر کولٹ نامی ایک دوسری کمپنی کو اس کا ڈیزائن بیچا گیا جس نے ایم 16 کے نام سے اس کی فُلی آٹو میٹک قسم بنائی۔ اسے ابتدائی طور پر امریکی فوج نے 1960 کی دہائی کے دوران ویتنام جنگ میں استعمال کیا۔
آغاز میں یہ بندوق امریکی فوجیوں کو پسند نہ آئی اور اس کے جام ہونے کی شکایت کی گئی۔ پھر 1969 میں اس کی تصحیح کر کے ایم 16 اے 1 رائفل بنائی گئی جو امریکی فوج کا سٹینڈرڈ ہتھیار بن گیا۔
ویتنام جنگ ختم ہونے پر اسلحے کی کمپنی کولٹ نے اس رائفل کی سیمی آٹو میٹک قسم کی تشہیر شروع کر دی۔ اس کا ہدف ملک میں بندوقوں کے شوقین اور پولیس فورس تھی۔
1977 کے بعد دیگر اسلحے کی کمپنیوں نے اسے اپنے طور پر بنانا شروع کردیا۔ آج بھی اس کی مختلف قسموں کو اے آر 15 کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔
سنہ 1994 سے 2004 کے بیچ امریکہ نے سیمی آٹو میٹنگ بندوق بنانے، رکھنے یا بیچنے پر پابندی لگا رکھی تھی مگر اس کا اطلاق 1994 سے قبل بنائی گئی بندوقوں پر نہیں ہو رہا تھا۔
بعض اندازوں کے مطابق یہ رائفل ملک میں کروڑوں لوگوں کے پاس ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر کے مطابق ہر بیس میں سے ایک امریکی شہری کے پاس یہ رائفل ہے تاہم ان رائفلز کی کل تعداد چار کروڑ چالیس لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
یہ رائفل اتنی مشہور کیوں؟
اس کا وزن قریب تین کلو ہے جس کی بدولت اسے استعمال کرنا آسان ہے جبکہ اس میں اضافی سامان لگا کر رد و بدل بھی مشکل نہیں۔
’اے آر 15 کے مالک‘ نامی تنظیم کے صدر کرس والٹز کہتے ہیں کہ ’ان کی لاکھوں اقسام، پرزے اور رنگ ہیں۔ لوگ اسے آدمیوں کی ’باربی ڈول‘ کہتے ہیں۔ جیسے آپ باربی کو مختلف کپڑے پہنا سکتے ہیں اسی طرح اس رائفل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔‘
’اسے فائر کرنا بے حد آسان ہے۔ یہ کم وزنی ہے اور اس کا نشانہ بہت اچھا ہے۔ اگر کھیلوں کی بات کی جائے تو اسے خواتین اور بچے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔۔۔ یہ امریکہ میں کھیلوں کا جدید رائفل ہے۔ ہم اسے یہی کہتے ہیں۔‘
دیگر شوقین افراد کی طرح والٹز نے 80 کی دہائی میں فوج میں اس کی قسم ایم 16 کو پہلی بار استعمال کیا۔ وہ اسے نقصان پہنچانے والے رائفل کی بجائے کھیلوں کا رائفل کہتے ہیں۔ بندوق رکھنے کے حق کی حمایت کرنے والے اکثر یہی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
محققین کے مطابق جب بندوقیں رکھنے پر پابندی تھی، اس وقت اس کی مانگ بڑھی اور گذشتہ بیس برس کے دوران اس کی کافی تشہیر کی گئی۔
پروفیسر جوناتھن میٹزل کہتے ہیں کہ بندوق بیچنے والوں کے لیے یہ منافع بخش چیز بن گئی تھی۔ ’یہ ایک طرح کی شناخت بن گئی۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ جن سیاستدانوں اور صحافیوں نے گن کلچر میں رہتے ہوئے اس کی مخالفت کی انھیں ان کی تنظیموں سے نکال دیا گیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے امریکیوں میں بندوقیں رکھنے کے رجحان میں تبدیلی آئی۔ ’پہلے لوگ جرائم پیشہ افراد سے تحفظ کے لیے آتشیں اسلحہ خریدتے تھے۔ پھر اچانک ایسا وقت آیا جب انھوں نے سب سے خطرناک اور نقصان دہ بندوق میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کر دی۔‘
فائرنگ کے واقعات میں اے آر 15 کا استعمال
اس رائفل کے مخالفین کہتے ہیں کہ اسے امریکہ بھر میں فائرنگ اور پُرتشدد واقعات میں استعمال کیا گیا۔
امریکی ذرائع ابلاغ اور تحقیقات میں ظاہر ہوا کہ سنہ 2012 سے اب تک 17 میں سے 10 انتہائی خوفناک واقعات میں اے آر 15 استعمال کی گئی۔
لاس ویگس میں 2017 کے واقعے میں 60 افراد ہلاک ہوئے جبکہ ہینڈی ہوک واقعے میں اس نے 20 بچوں سمیت 26 افراد کی جان لی۔
امریکی میڈیا نے اس رائفل کی مقبولیت میں اضافے کے بعد اسے ’ماس شوٹر کا پسندیدہ ہتھیار‘ قرار دیا۔
مجموعی طور پر اے آر 15 کو کم از کم ایسے 100 فائرنگ کے واقعات میں استعمال کیا جا چکا ہے جن میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران چار یا اس سے زیادہ افراد مارے گئے۔
بندوق رکھنے کے حمایتی کالن نوئر کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ اے آر سے 15 متعلق منفی جذبات رکھتے ہیں اور میں یہ سمجھ سکتا ہوں لیکن ہمارے قائدین نے رائفل کا حق دیا تاکہ ہم ملک کا دفاع کر سکیں۔ اے آر 15 کا ’امریکی رائفل‘ بننا ناگزیر تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے
سابق کینیڈین فوجی اور صحافی اے جے سومرسیٹ کہتے ہیں کہ گن کلچر کے رجحان میں بڑا واقعہ نائن الیون تھا۔
’جب 2003 میں امریکی فوجی بغداد میں ایم 16 رائفل لے کر گھومتے تھے تو اس وقت یہ مناظر ملک میں عام شہری بھی دیکھ رہے ہوتے تھے۔ یہ رائفل جنگ پر مبنی کئی فلموں، ٹی وی شوز اور ویڈیو گیمز میں نظر آیا۔
وطن واپسی پر فوجیوں نے اے آر 15 کو رائفل خریدا اور ان کے ساتھ کئی شہریوں نے بھی اسے پسند کیا۔‘
رائن بوس آتشیں اسلحے کی ایک کمپنی کے سابق ایگزیکٹیو رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ کے شہریوں کے سامنے ایسی کسی چیز کی مخالفت کرنا مشکل ہوتا ہے جو امریکی پرچم میں لپٹی ہو۔‘
سومر سیٹ کے مطابق یہ وہ عجیب الخلقت مخلوق ہے جو امریکی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ جنگل میں گھوم رہی ہے۔
Comments are closed.