بادشاہ بابر کی لاڈلی بیٹی گلبدن بیگم جنھوں نے حرمین کے قیام کے دوران سلطنت عثمانیہ کے فرمان کو بھی ٹھکرا دیا،تصویر کا ذریعہJUGGERNAUT BOOKS
،تصویر کا کیپشنگلبدن بیگم بادشاہ بابر کی پسندیدہ بیٹی تھیں

  • مصنف, شرلین مولین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، ممبئی
  • 16 منٹ قبل

یہ سنہ 1576 کی بات ہے جب ہندوستان کی سرزمین پر مغلیہ سلطنت کا پرچم لہرا رہا تھا اور عرب دنیا سمیت دنیا کے بیشتر حصے پر سلطنت عثمانیہ کی حکومت تھی۔اگر ہندوستان میں مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی حکومت تھی تو سلطنت عثمانیہ کا تاج سلطان مراد علی کے سر پر تھا۔اسی سال مغلیہ سلطنت کی ایک اہم شہزادی نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا یادگار سفر کیا۔یہ مغل دور حکومت کے ہندوستان میں پہلا موقع تھا جب کوئی خاتون حج کے لیے روانہ ہو رہی تھیں۔ حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے اور یہ صاحب حیثیت ہر مسلمان پر فرض ہے۔

وہ شہزادی کوئی اور نہیں بلکہ ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین محمد بابر کی بیٹی گلبدن بانو بیگم تھیں جنھوں نے 53 سال کی عمر میں فتح پور سیکری کے آرام و آسائش والی دنیا کو چھوڑ کر ایک ایسے سفر پر جانے کا فیصلہ کیا جو اگلے چھ سال تک جاری رہا۔گلبدن بیگم اس سفر میں اکیلی نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے ساتھ شاہی خواتین کے ایک چھوٹے سے گروپ کی قیادت کر رہی تھیں۔لیکن اس سفر سے متعلق تفصیلات جو کہ اپنے آپ میں نادرالمثال تھیں وہ ریکارڈ میں موجود نہیں۔مؤرخین کا خیال ہے کہ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ دربار کے مرد مورخین نے ’عزو احترام‘ یا حرمت کے نام پر خواتین عازمین حج کے سفر سے متعلق حقائق کو ظاہر نہیں کیا۔،تصویر کا ذریعہRANA SAFVI

،تصویر کا کیپشنفتح پور سیکری کا پنچ محل جہاں مغل شہزادیاں رہتی تھیں

ایک شاندار سفر کی ادھوری کہانی

مؤرخ اور مصنف روبی لال نے اس سفر کا ذکر اپنی کتاب ’ویگابونڈ پرنسز: دی گریٹ ایڈونچرز آف گلبدن‘ میں کیا ہے۔روبی لال لکھتی ہیں کہ گلبدن بیگم کے اس سفر میں ان کی بہادری اور ان کی رحم دلی اور دردمندی کے ساتھ ساتھ بغاوت کی داستان بھی شامل ہیں۔گلبدن بیگم کو مغلیہ سلطنت کی پہلی اور واحد خاتون مورخ سمجھا جاتا ہے۔انھوں نے اپنی کتاب ہمایوں نامہ میں اپنی زندگی کے تجربات کو مرتب کیا ہے۔ لیکن ان کی یہ کتاب بھی ادھوری ہے۔ اس کتاب کے کئی صفحات آج تک غائب ہیں۔اپنی کتاب کے لیے تحقیق کے دوران روبی لال نے بہت سی دیگر دستاویزات کی ورق گردانی کی ہے جن میں سلطنت عثمانیہ کی تاریخ، فارسی کے مخطوطے اور مغل نسخے شامل ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’گلبدن ایک ایسے وقت میں لکھ رہی تھیں جب مورخین کے لیے شاہی شخصیات کے لکھے ہوئے کاموں کی کاپیاں بنانا عام تھا۔ لیکن گلبدن کی کتاب کی ایک بھی مکمل کاپی دستیاب نہیں ہے۔‘’اپنے آپ میں اس انوکھے سفر پر اتنی طاقتور خاتون کی خاموشی بہت کچھ کہہ دیتی ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنظہیرالدین محمد بابر نے 1526 میں پانی پت کی جنگ جیت کر ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنا ڈالی

طاقت کے مرکز سے دوری

گلبدن بابر کی تیسری اہلیہ دلدار بیگم کے بطن سے سنہ 1523 میں کابل میں پیدا ہوئی تھیں۔گلبدن کی پیدائش کے وقت بابر گھر سے دور تھے اور ہندوستان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ جب ان کی مہمات شروع ہوئيں تو بابر کا گھر میں آنا کم ہو گیا۔ گلبدن کو جلد ہی ان کی دوری کی عادت پڑ گئی۔لیکن گھر کے طاقتور ترین فرد سے گاہے بگاہے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ والد بابر کے بعد سوتیلے بھائی ہمایوں اور بھتیجے اکبر سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔لیکن جب شاہی خاندان کے مرد اپنی سلطنتوں کو بڑھانے کے لیے جنگیں لڑ رہے تھے، گلبدن مضبوط عورتوں کے سائے میں پروان چڑھ رہی تھیں۔ یہ مضبوط خواتین بابر کی والدہ، خالہ، بہنیں، بیگم اور ان کی بیٹیاں تھیں۔ان خواتین کا درباری سرگرمیوں میں اہم کردار دیکھا گیا ہے۔ انھوں نے بادشاہوں اور شہزادوں کے ساتھیوں اور مشیروں کا کردار ادا کیا ہے۔گلبدن کے بچپن میں بھی سفر ایک خاص اہمیت تھی۔ چھ سال کی عمر میں وہ پہلی مغل خاتون بنیں جنھوں نے کابل سے آگرے کا سفر کیا۔ بابر نے آگرے کو اپنا پايہ تخت بنایا تھا۔اس کے بعد جب ہمایوں کو افغان بادشاہ شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست ہوئی تو وہ ایک شادی شدہ خاتون کے طور پر کابل واپس پہنچیں۔ اس کے دور دراز کے سفر مہینوں تک جاری رہتے تھے۔ گلبدن بیگم نے شاہی خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ پہاڑی راستوں سے پرخطر سفر کیا۔ان اسفار کے دوران انھیں دشمنوں کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔روبی لال کہتی ہیں: ’مغلیہ خواتین خانہ بدوش طرز زندگی کی عادی تھیں۔ وہ مسلسل نئی جگہوں پر ہجرت کرنے اور اپنے شوہروں کے ساتھ جنگیں لڑنے کے لیے عارضی کیمپوں میں رہنے کی عادی تھیں۔‘روبی لال کہتی ہیں کہ شاید سفر کی اسی عادت کی وجہ سے انھوں نے اپنے بھتیجے اکبر سے حج پر جانے کی اجازت مانگی۔

،تصویر کا ذریعہALEPH

،تصویر کا کیپشنمغل بادشاہ اکبر

جب گلبدن بیگم نے اکبر سے بات کی

اکبر کا سب سے بڑا خواب مغلیہ سلطنت کا پرچم پورے ہندوستان پر لہرانا تھا۔ جیسے جیسے وہ ہندوستان میں اپنی سلطنت کی توسیع کر رہے تھے ویسے ویسے وہ خود کو زیادہ پرہیزگار اور خطا نہ کرنے والے شخص کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔وہ پہلے مغل شہنشاہ بنے جنھوں نے مغل خواتین کو مکمل طور پر الگ تھلگ اور حرم کی دیواروں کے اندر رکھنے کا فیصلہ کیا۔روبی لال اپنی کتاب لکھتی ہیں: ’شہنشاہ کے علاوہ کسی کو شاہی حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس حرم میں خوبصورت اور حرمت والی خواتین رہا کرتی تھیں۔ یہ ایک طرح سے اس بات کا ثبوت تھا کہ مغل بادشاہ کی حیثیت تقریباً مقدس تھی۔‘لیکن زندگی کے اس جمود نے گلبدن کو پریشان کر دیا اور سنہ 1576 میں اکتوبر کے مہینے میں انھوں نے اپنے بھتیجے اور بادشاہ اکبر کو بتایا کہ وہ حج پر جانا چاہتی ہیں کیونکہ انھوں نے منت مانی ہے۔اکبر نے اس سفر کے لیے مغلوں کے دو پرتعیش جہاز سلیمی اور الٰہی کو استعمال کرنے کی اجازت دی۔خواتین کے اس گروپ کے ساتھ سونے اور چاندی سے بھرے بکسے گئے جو صدقہ کے طور پر تقسیم کیے جانے تھے۔ اس کے ساتھ ہزاروں روپے کی نقدی اور بارہ ہزار احرام کے کپڑے بھی لے جائے گئے۔روبی لال نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’جب ان خواتین کا قافلہ سرخ پتھر کے بنے مغلیہ قلعے والے پایہ سلطنت فتح پور سیکری کی گلیوں سے گزر رہا تھا تو انھیں دیکھنے کے لیے سڑکوں پر عام عورتوں اور مردوں کا ہجوم موجود تھا۔‘لیکن اس قافلے کو شروعات سے ہی خطرہ لاحق تھا۔ مکہ کا سمندری راستہ پرتگالیوں کے قبضے میں تھا جو مسلمانوں کے جہازوں کو لوٹنے اور جلانے کے لیے بدنام تھے۔ایران سے گزرنے والا زمینی راستہ اتنا ہی پرخطر تھا کیونکہ اس راستے پر شدت پسند گروہ ہوا کرتے تھے جو مسافروں پر حملے کرتے تھے۔اس وجہ سے گلبدن اور اس کے ساتھ آنے والی خواتین تقریباً ایک سال تک سورت میں پھنسی رہیں تاکہ سفر کے دوران پرتگالیوں سے بچ سکیں۔انھوں نے بحیرہ عرب میں چار ہفتوں تک جاری رہنے والا جہاز سے سفر کیا اور پھر تپتے صحراؤں میں انھوں نے اونٹ پر سفر کیا پھر کہیں جا کر ان کا مکہ مکرمہ میں ورود ہوا۔،تصویر کا ذریعہWIKIMEDIA COMMONS

،تصویر کا کیپشنعثمانی بادشاہ سلطان مراد سوم

سلطان مراد کے حکم کی خلاف ورزی

ان کے سفر کا سب سے دلچسپ پہلو مکہ پہنچنے کے بعد سامنے آیا کیونکہ ان کے ساتھ آنے والی خواتین نے اگلے چار سال تک خطۂ عرب میں رہنے کا فیصلہ کیا۔روبی لال لکھتی ہیں: ’جس طرح وہ حرم چھوڑنے میں متفق تھیں اسی طرح صحرائی دنیا میں خانہ بدوش زندگی گزارنے اور روحانیت کی تلاش میں بھی وہ متفق تھیں۔‘گلبدن اور اس کی ساتھی خواتین نے جب صدقہ خیرات دینا شروع کیا تو ہر طرف ان کے چرچے ہونے لگے۔سلطنت مغلیہ کی شہزادی گلبدن بیگم کی طرف سے کیے جانے والے اس انعام و اکرام اور داد و دہشت نے عثمانی سلطان مراد کو ناراض کر دیا۔ کیونکہ انھوں نے اسے دنیا میں مغل بادشاہ اکبر کی بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت کے طور پر دیکھا۔ایسے میں سلطان نے اپنے لوگوں کو یکے بعد دیگرے چار شاہی فرمان کے ساتھ بھیجا جس میں گلبدن بیگم اور ان کے ساتھ آنے والی مغل خواتین کو خطۂ عرب سے نکل جانے کا حکم تھا۔لیکن گلبدن نے ہر بار سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا بادشاہ مراد کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔روبی لال لکھتی ہیں: ’ایک مغل خاتون کی جانب سے یہ بغاوت کا ایک بے مثال واقعہ تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کو کتنا عزیز رکھتی تھیں۔‘اس کے بعد سلطان نے ان کی ضد سے تنگ آکر ان خواتین کے خلاف ترکی زبان کے ایک ایسے لفظ کا استعمال کیا کہ جس نے اکبر کو ناراض کر دیا۔بہر حال پانچویں فرمان کے بعد سنہ 1580 میں گلبدن بیگم اور ان کی ساتھی حجاج خواتین نے عرب سے رخت سفر باندھا اور دو سال کے طویل سفر کے بعد سنہ 1582 میں ان کا قافلہ فتح پور سیکری سے 60 کلومیٹر دور کھانوا پہنچا۔واپسی کے بعد ان کا نواب کے طور پر خیر مقدم کیا گیا۔ یہی نہیں اکبر نے ان سے مغل تاریخ اکبرنامہ میں حصہ ڈالنے کو بھی کہا اور اس طرح وہ واحد خاتون رہیں جنھوں نے مغل سلطان کی اس تاریخ میں تعاون کیا۔اگرچہ گلبدن بیگم کے اس سفر کا ذکر اکبرنامہ میں تفصیل سے ملتا ہے لیکن ان کے عرب دنیا میں گزارے گئے وقت اور سلطان مراد کی طرف سے ان کی بے دخلی کے متعلق واقعات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہی نہیں یہ ذکر کہیں اور بھی نہیں ملتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}