سابق کپتان شاہد آفریدی کا کہنا ہے کہ بابر اعظم میں لیڈر والی کوالٹی نہیں ہے، جب ٹیم ورلڈ کپ کے لیے جا رہی تھی اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ٹیم اس طرح ہارے گی۔
کراچی کے مقامی ہوٹل میں2009ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے اعزاز میں ہونے والی تقریب ’جیت کا سفر‘ کی لانچنگ کے موقع پر صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا کہ میں بھی بابر اعظم کا فین ہوں وہ ساڑھے تین چار سال سے کپتانی کر رہے .d- لیکن وہ اس دوران کپتان کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوا نہیں سکے۔
تقریب میں میزبان ایپکس کے سربراہ رافع علی، سابق کپتان یونس خان، مصباح الحق، راشد لطیف، شعیب محمد اور سعید اجمل بھی موجود تھے۔
میزبان رافع علی نے تقریب امریکی شہروں میں کرانے کا اعلان کیا ہے۔
شاہد آفریدی نے کہا کہ لیڈر کو تگڑا ہونا ہوتا ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، جب میں نے بابر کی کپتانی پر بات کی تو لوگوں نے تنقید کی کہ آپ بابر اعظم کی کپتانی کے پیچھے پڑے ہیں، مجھے بولرز اور بیٹرز کی رینکنگ دیکھ کر اندازہ تھا کہ یہ ٹیم اچھا کھیل کر آئے گی لیکن بیٹنگ اور بولنگ میں بہت غلطیاں ہوئیں۔
سابق کپتان کا کہنا ہے کہ بابر جتنا بڑا کھلاڑی ہے میری خواہش تھی کہ وہ صف اول کا کپتان بھی بنے لیکن ایسا نہ ہو سکا، ڈومیسٹک سیزن کے دوران کھلاڑیوں کو غیر ملکی لیگز کھیلنے کی اجازت نہ دی جائے، ڈومیسٹک کرکٹ کو اہمیت دی جائے اور پچز مختلف بنائی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ کرکٹ میں کپتان کا کردار اہم ہوتا ہے اگر آج ہم 2009ء کے ورلڈ کپ کی جیت کا جشن منا رہے ہیں تو اس ورلڈ کپ میں یونس خان نے اہم کردار ادا کیا تھا، کپتان لیڈر اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ اس کے ذہن میں مختلف پلاننگز اور آئیڈیاز ہوتے ہیں، یونس خان نے مجھے اوپر کھلانے کا فیصلہ کیا اور فواد عالم سے اوور کرایا، عبدالرزاق کو پاکستان سے بلایا گیا، کپتان ہار سے نہیں ڈرتا۔
شاہد آفریدی نے کہا کہ مینجمنٹ کا کپتان کے ساتھ رول اہم ہوتا ہے، ہر ٹیم ہارتی ہے لیکن پاکستان ٹیم میں فائٹ اور جارحانہ پن دکھائی نہیں دیا، انڈر 16 سے انڈر 19 لیول وہ لیول ہے جس میں آپ بچوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط بناتے ہیں، ان چیزوں کو ڈومیسٹک میں اپلائی کریں، ہمارے بچوں میں ٹیلنٹ بہت ہے لیکن سسٹم نہیں ہے، ایسا مضبوط سسٹم ہو کہ کسی کے جانے سے سسٹم تبدیل نہ ہو۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سابق کپتان شعیب ملک نے کہا کہ اگر تین چار سال سے بابر اعظم کی کپتان کی حیثیت سے کارکردگی کا گراف اوپر آیا ہے یا نہیں، اگر اس نے کپتان کی حیثیت سے بہترین ٹیموں کے خلاف کارکردگی دکھائی ہے تو اسے ضرور کپتانی ملنی چاہیے لیکن اگر گراف اوپر نہیں ہے تو اسے کپتان نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میرا نقطہ نظر ہے کہ وہ کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلے گا تو زیادہ کامیاب رہے گا، بھارت میں کنڈیشن دیکھ کر وہ ویسی کارکردگی نہیں دکھا سکا جیسی اس کو دکھانی چاہیے تھی۔
شعیب ملک نے کہا کہ وہ کپتانی کی وجہ سے پریشر میں نظر آیا، اس نے جو رنز کیے اس میں ٹیم جیت نہ سکی، اس لیے اس کے رنز ٹیم کے کام نہیں آئے، میں یا کوئی اور کھلاڑی اس کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بات جڑی ہوئی ہے کہ وہ میچ کم جتواتا ہے، اس میں اعداد و شمار گواہی دیتے ہیں اگر وہ کپتانی والا پوائنٹ اس کے کیر یئر سے مائنس ہو گا تو بابر ایک مختلف کھلاڑی ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ کپتان اسے بنایا جائے جو 2027ء کے ورلڈ کپ تک کپتانی کرے، کپتانی کے لیے لیڈرشپ اسکلز مختلف ہوتی ہیں، ٹیم لڑانے والے کو کپتان بنایا جائے، کپتان چھ ماہ والے کو نہیں چار سال والے کو بنایا جائے۔
کامران اکمل نے کہا کہ آپ کو میری اور بابر اعظم کی رشتے داری کو علم ہے، بابر اور اس ٹیم کو جتنی سپورٹ ملی اتنی سپورٹ شاہد بھائی، مصباح بھائی اور شعیب ملک کو ملتی تو ہم ایک اور ورلڈ کپ جیت جاتے۔
انہوں نے کہا کہ بابر اعظم کو کپتانی کے 4 سال ملے ہیں وہ کچھ نہ کر سکا اگر وہ کپتانی چھوڑ کر کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلے گا تو اس سے پاکستان کو فائدہ ملے گا۔
عبدالرزاق نے کہا کہ کپتان میں فیصلہ لینے کی ہمت ہونی چاہیے، میرا ورلڈ کپ کے 30 کھلاڑیوں میں نام نہیں تھا، نہ 16 میں تھا، مجھے جاتے ہی یونس بھائی نے بولنگ دے دی، مجھے پتہ تھا کہ میرے کپتان یونس خان کی نیت اچھی ہے، ہماری آج نیت ہی اچھی نہیں ہے، سسٹم ایسا بنا دیا جائے کہ کسی کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑے۔
Comments are closed.