’بااثر مردوں کے لیے مخصوص‘ 150 سال پرانا خفیہ کلب جہاں امریکی ایٹم بم کی بنیاد رکھی گئی
- مصنف, مائیک وینڈلنگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
ایک ایسا کلب، جس کا رکن بننے کے لیے صرف امیر اور طاقت ور ہونا کافی نہیں بلکہ مرد ہونا بھی ضروری ہے، کیوں کہ اس میں خواتین کو شمولیت کی اجازت نہیں دی جاتی، ایک بار پھر سے خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔
بوہیمیئن گروو نامی کلب کا نام اس وقت خبروں کی زینت بنا جب امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس کلیرنس تھامس سے متعلق یہ خبریں سامنے آئیں کہ انھوں نے ایک ارب پتی دوست کے ساتھ اس کلب کا دورہ کیا۔
امریکی خبر رساں ادارے پرو پبلیکا کی تفتیشی رپورٹ میں دعوی کیا گیا تھا کہ جسٹس تھامس کو ارب پتی شخصیت ہارلن کرو نے دنیا بھر میں پرتعیش دورے کروائے۔ ان دوروں میں بوہیمیئن گروو کا دورہ بھی شامل تھا۔
یاد رہے کہ ہارلن کرو امریکہ کی ریپبلکن جماعت کو خطیر عطیات دیتے ہیں۔
یہ کلب امریکہ کی ریاست سان فرانسسکو کے شامل میں ایک دور دراز مقام سونوما کاوئنٹی میں ہے۔ تاہم یہ اتنا خفیہ اور مخصوص کلب ہے کہ اس کے خلاف متعدد مظاہرے ہو چکے ہیں اور اس کے بارے میں طرح طرح کے سازشی نظریات جنم لے چکے ہیں۔
امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس کلیرنس تھامس
کلب کی انتظامیہ کا دعوی ہے کہ یہاں کسی قسم کی کاروباری گفتگو کرنا منع ہے۔ تاہم ایسی خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ امریکہ کے سب سے طاقت ور افراد یہاں ملاقاتیں اور کاروباری معاہدے کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ کلب ڈیڑھ سو سال پرانا ہے۔
اس کلب کا آغاز کیسے ہوا؟
بوہیمیئن کلب کو شروع کرنے والے صحافی، آرٹسٹ اور موسیقار تھے جنھوں نے سین فرانسسکو میں 1872 میں اس کلب کی بنیاد رکھی۔
اس کے ابتدائی اراکین میں مشہور امریکی مصنف مارک ٹوین بھی شامل تھے۔
سان فرانسسکو کے دور دراز مقام پر اس کلب میں سالانہ دو ہفتے کے لیے اراکین جمع ہوتے ہیں۔ یہ روایت 1878 میں اس وقت شروع کی گئی تھی جب ایک اداکار نیو یارک شہر روانہ ہونے والا تھا اور اسے الوادع کہا جانا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ فنکاروں کے لیے بنایا جانے والا کلب پھیلتا گیا جس میں کاروباری شخصیات اور سیاست دان رکن بن گئے۔ اس کلب کے رکن سالانہ اجتماع میں اپنے ساتھ مہمان لا سکتے ہیں لیکن میڈیا اور باہر کی دنیا کے لیے یہاں آنا منع ہے۔
کلب کے اراکین کون ہیں؟
خیال کیا جاتا ہے کہ اس کلب کے ڈھائی ہزار رکن ہیں تاہم یہ فہرست خفیہ ہے۔ اب تک بہت کم ہی معلومات سامنے آ ئی ہیں کیوں کہ کلب کی ویب سائٹ پر بھی زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
ماضی کے مشہور اراکین میں امریکی صدر ہربرٹ ہوور، رونلڈ ریگن اور رچرڈ نکسن شامل ہیں۔ چند مشہور مصنفین، اداکار اور کاروباری شخصیات بھی اس کلب کے رکن رہے ہیں۔
رچرڈ نکسن
یہ بھی پڑھیے
اس کلب کا موٹو شیکسپیئر کے ڈرامے مڈ سمر نائٹس ڈریم سے مستعار لیا جانے والا جملہ ہے کہ ’ویونگ سپائڈرز کم ناٹ ہیئر‘ جو کاروباری بات چیت سے ممانعت کی تاکید ہے۔ تاہم اس موٹو کو اب نظڑ انداز کیا جاتا ہے۔
یہ بات مشہور ہے کہ امریکہ کے خفیہ ’مین ہیٹن پراجیکٹ‘ کی منصوبہ بندی کے لیے ابتدائی طور پر 1942 میں اسی کلب میں ملاقاتیں ہوئیں جن کے نتیجے میں دنیا کا پہلا ایٹم بم تیار کیا گیا۔
اس کلب میں ہوتا کیا ہے؟
خبروں کے مطابق اس کلب کے سالانہ اجتماع کے دوران، جو دو ہفتے تک جاری رہتا ہے، سٹیج پرفارمنس کے علاوہ بہت زیادہ شراب نوشی ہوتی ہے اور ارکان کھلے عام پیشاب کرتے ہیں۔
گذشتہ برسوں میں سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرنے والے گروہ، ماحولیاتی تحفظ اور جوہری ہتھیاروں کی مخالفت کرنے والے سماجی کارکن اس اجتماع کے خلاف مظاہرے کر چکے ہیں۔
تاہم گذشتہ سال ایک مقامی خبر رساں ادارے نے خبر دی تھی کہ اب ان مظاہروں کا حجم کم ہوتا جا رہا ہے۔
صحافیوں نے کئی بار اس اجتماع میں چھپ کر داخل ہونے کی کوشش کی ہے۔ 1989 میں سپائی میگزین میں چھپنے والے ایک مضمون میں اس اجتماع کو دنیا کی سب سے مخصوص پارٹی قرار دیا تھا۔ اس مضمون میں سابق امریکی صدر ریگن کی ایک تقریر کی تفصیلات بھی دی گئی تھیں جو اس وقت تک عہدہ چھوڑ چکے تھے۔
سنہ 2000 میں ایلکس جونز نامی شخص، جو سازشی نظریات کا پرچار کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں، اس اجتماع میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انھوں نے کلب کی ایک رسم کی ادائیگی ریکارڈ کر لی تھی جس کے دوران ایک پتلے کو جلایا جا رہا تھا۔
انھوں نے بعد میں ایک دستاویزی فلم جاری کی جس میں الزامات عائد کیے گئے کہ اس اجتماع کے دوران انسانی قربانی دی جاتی ہے۔
تاہم ان کے ہمراہ صحافی جون رونسن بھی موجود تھے جن کا موقف مختلف تھا۔ جون نے اس اجتماع کے بارے میں لکھا تھا کہ ’میں نے سوچا کہ کیا یہ لوگ خود کو صرف اس لیے خفیہ رکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ کوئی اچھوتی بات ہے۔‘
حال ہی میں کلب نے بارٹنڈرز، سیکیورٹی افسران اور دیگر اسامیوں کے لیے اشتہارات دیے ہیں جن کی رواں سال کے اجتماع کے دوران ضرورت ہو گی۔ تاہم اس اجتماع میں کون سے اہم لوگ شریک ہوں گے، یہ اب تک ایک راز ہے۔
Comments are closed.