وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیرِ قومی سلامتی معید یوسف کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے فون نہ کرنے کی شکایت نہیں کی، کال کرنا کوئی ایشو ہے ہی نہیں، وہ جب کرنا چاہیں کریں۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں یومِ استحصالِ مقبوضہ کشمیر کے موقع پر مشیرِ قومی سلامتی معید یوسف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا چین تعلقات میں بہتری کے لیے کردار ادا کرنے پر تیار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا نے مل کر کام نہ کیا تو القاعدہ پھر سر اٹھا سکتی ہے، مل کر کام کے سوا آپشن نہیں، 90 کی تاریخ نہ دہرائی جائے۔
معید یوسف نے کہا کہ پاکستانی تارکینِ وطن نے کشمیر میں بھارتی مظالم کے لیے بھرپور آواز اٹھائی، 2 برس پہلے بھارت نے جو قدم اٹھایا اس کے بعد وہ مشکل صورتِ حال میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے ہر ایک کشمیری مسلم کھو دیا ہے اور اب کشمیر میں پھنس گیا ہے، بھارت کو معلوم ہے کہ اس نے غلطی کی ہے جس سے پیچھے ہٹنا ہو گا۔
مشیرِ قومی سلامتی نے کہا کہ کچھ لوگوں کی انا اور غیر معقولیت شاید انہیں پیچھے نہیں ہٹنے دیتی، بھارت کو کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، عالمی برادری نے کشمیریوں کے لیے وہ نہیں کیا جو کرنا چاہیئے تھا۔
معید یوسف نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے آواز اٹھائی جاتی رہے گی، آواز اٹھانے کا طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے، جس کے لیے سخت محنت درکار ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ راستہ مشکل ضرور ہے لیکن منزل واضح ہے کہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت ملے، کشمیریوں کے لیے پاکستان نے تمام کوششیں کیں اور کرتا رہے گا۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیرِ قومی سلامتی نے مزید کہا کہ خود بھارتی عوام اور بین الاقوامی اداروں نے مودی کو ہٹلر قرار دیا، بھارت کا یہ فیصلہ منطقی، مدلل یا ہوش مندانہ نہیں تھا۔
معید یوسف کا یہ بھی کہنا ہے کہ میری پہلی ترجیح ہے کہ کشمیریوں کی زندگی کسی طرح آسان ہو سکے، یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ کشمیر یا کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت پر سمجھوتہ ہو گا۔
اس سے پہلے امریکی جریدے نے دعویٰ کیا تھا کہ مشیرِ قومی سلامتی معید یوسف نے امریکی حکام سے وزیرِ اعظم عمران خان کو امریکی صدر جو بائیڈن کے فون نہ کرنے کا معاملہ اٹھایا ہےاور کہا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان جیسے اہم ملک کے وزیرِ اعظم کو امریکی صدر کا فون نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
امریکی اخبار کے مطابق معید یوسف نے کہا کہ ہر بار کہاجاتا ہے کہ فون کیا جائے گا، کوئی تیکنیکی وجہ ہو یا کوئی اور بات، سچ یہ ہے اب ان کا اعتبار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر فون کال یا سیکیورٹی تعلقات کوئی رعایت ہیں تو پاکستان کے پاس بھی آپشنز موجود ہیں۔
امریکی رسالے نے لکھا کہ معید یوسف نے یہ واضح نہیں کیا کہ پاکستان کے پاس دوسرے آپشنز کیا ہیں؟
اس حوالے سے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کشیدگی کا تاثر دیا جا رہا ہے، ٹیلی فون کال نہ آنے پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے، امریکا افغانستان میں استحکام چاہتا ہے، پاکستان کی بھی یہی خواہش ہے۔
Comments are closed.