جو بائیڈن اور ولادیمیر پوتن کے درمیان فون کال: ’امریکہ سائبر حملوں کے خلاف ہر ضروری اقدام اٹھائے گا‘
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن سے کہا ہے کہ امریکہ روس سے کیے جانے والے سائبر حملے روکنے کے لیے ‘ہر ضروری اقدام’ اٹھائے گا۔
امریکی اور روسی صدور کے درمیان ایک گھنٹہ طویل فون کال کے بعد ایک رپورٹر نے جب بائیڈن سے پوچھا کہ کیا روس کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا تو ان کا جواب ‘ہاں’ تھا۔
تاہم ماسکو نے امریکہ کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ اس نے گذشتہ ماہ روس سے بارہا سائبر حملوں پر رابطے کیے۔
جنیوا میں ملاقات کے ایک ماہ بعد جمعے کو بائیڈن اور پوتن کے درمیان فون کال پر بات ہوئی ہے۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ امریکہ میں سائبر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں ایک ایسا حملہ شامل ہے جس میں رواں ماہ 1500 کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
فون کال کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بائیڈن کا کہنا تھا کہ ‘میں نے انھیں واضح طور پر بتایا کہ امریکہ کو معلوم ہوتا ہے جب رینسمویئر (تاوان وصول کرنے کے لیے ہیکنگ) کا آپریشن ان کی سرزمین سے ہوتا ہے۔
’ریاست اس کی پشت پاہی نہیں کرتی مگر ہم ان سے اقدامات کی توقع کرتے ہیں کہ جب ہم انھیں اس سے متعلق معلومات فراہم کریں۔’
جب ایک صحافی نے پوچھا کہ آیا امریکہ ہیکرز کے زیر استعمال سرور پر حملہ کرے گا تو ان کا جواب ‘ہاں’ میں تھا۔
مگر جمعے کی فون کال کے بعد کریملن کا کہنا تھا کہ امریکہ نے سائبر حملوں پر ماسکو سے رابطہ نہیں کیا تھا۔
‘معلومات کے دائرے میں روس جرائم کی سرگرمیوں کے خلاف مشترکہ قدامات کے لیے تیار ہے مگر گذشتہ مہینے متعلقہ امریکی محکموں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔’
نام ظاہر کیے بغیر ایک امریکی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے روسی دعوے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے روس سے ‘متعدد بار اقدامات کرنے کے لیے مخصوص مطالبے کیے تھے۔’
وائٹ ہاؤس کے مطابق جنیوا میں ملاقات کے ایک ماہ بعد بائیڈن اور پوتن کے درمیان فون کال میں سائبر حملوں کے علاوہ شام میں انسانی امداد پر بات ہوئی
کریملن کے بیان میں کہا گیا کہ دونوں فریقین سائبر سکیورٹی پر مزید تعاون کی حمایت کرتے ہیں۔ روس کا کہنا ہے کہ سائبر سکیورٹی کا مستقل ’پیشہ ورانہ اور غیر سیاسی ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے ذرائع ابلاغ کے خاص طریقے استعمال ہونے چاہیے۔۔۔ بین الاقوامی قانون کے اعتبار سے۔’
وائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا کہ دونوں فریقین شام میں مزید انسانی امداد پر اتفاق رکھتے ہیں۔ اس کے مطابق دونوں رہنما سائبر دنیا میں تناؤ کے باوجود تعاون کے مواقع دیکھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
رینسمویئر حملوں میں جرائم پیشہ افراد تاوان کی غرض سے کمپنیوں کا ڈیٹا چراتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ کے مطابق کئی بدترین حملہ آوروں کا تعلق روس سے ہے جہاں اکثر یہ روسی سکیورٹی سروسز کے ’علم اور منظوری کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘
بائیڈن نے جمعے کو کہا کہ ہیکرز کا نام ‘براہ راست ذرائع ابلاغ کے ذریعے’ سامنے آیا۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اس نئے رابطے سے دونوں فریقین ‘ایک دوسرے سے بات کر سکیں گے اگر دوسرے ملک میں کچھ ہو رہا ہے۔’
‘اس سے آبائی ملک متاثر ہوتا ہے۔ یہ (بات چیت) اچھی رہی۔ میں پُرامید ہوں۔’
بائیڈن کا کہنا تھا کہ جو پیغام انھوں نے جمعے کو دیا وہ انھوں نے گذشتہ ماہ سوئٹزر لینڈ میں یکطرقہ ملاقات میں بھی دیا تھا۔
اس کے بعد روس یا مشرقی یورپ میں قائم آر ایول نامی ہیکرز کے گروہ نے دنیا بھر میں نئے سائبر حملے کیے تھے۔ اس ہیکنگ کے بعد بائیڈن پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ان سائبر حملوں کو روکنے کے لیے کچھ کریں۔
گذشتہ ماہ بائیڈن اور پوتن کی ملاقات میں انھوں نے روس کو 16 شعبوں کی ایک فہرست دی تھی جن پر کسی صورت حملہ نہیں ہونا چاہیے۔
Comments are closed.