عالمی جنگ: غیر منقسم پنجاب سے پہلی عالمی جنگ میں لڑنے والے تین لاکھ 20 ہزار سپاہیوں کا ریکارڈ پہلی مرتبہ آن لائن
- گگن سبروال
- بی بی سی نیوز
پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے والے برٹش انڈین آرمی کے ھندوستانی سپاہی 1916 میں پیرس میں مارچ کرتے ہوئے
پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے غیر منقسم پنجاب کے تین لاکھ 20 ہزار سپاہیوں کا ریکارڈ پہلی مرتبہ عام کیا گیا ہے۔
‘پنجاب رجسٹرز’ نامی یہ ریکارڈز 20 اضلاع کے ہیں اور تقریباً ایک صدی سے پاکستان کے شہر لاہور کے ایک میوزیم میں پڑے تھے۔ پنجاب حکومت نے سنہ 1918 میں پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر ان رجسٹرز کی تدوین کی تھی۔
یہ رجسٹرز پاکستان کیسے پہنچے؟
لاہور میوزیم ریسرچ اینڈ ریفرینس لائبریری کے سربراہ بشیر بھٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ اُنھیں پختہ طور پر یہ معلوم نہیں کہ یہ رجسٹرز لاہور میوزیم میں کیسے پہنچے مگر سنہ 1977 میں پہلی مرتبہ ان کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب کیا گیا، انھیں کیڑے مار ادویات لگائی گئیں اور پھر ڈیجیٹائز کیا گیا۔
اُنھوں نے ان رجسٹرز کو اس لیے ڈیجیٹائز کیا تاکہ کوئی بھی کہیں سے بھی ان تک رسائی حاصل کر سکے اور اس کے علاوہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ نایاب اور اہم دستاویزات ڈیجیٹل صورت میں محفوظ رہ سکیں۔
لاہور میں بی بی سی کی ٹیم سے بات کرتے ہوئے بشیر بھٹی نے بتایا: ‘یہ ریکارڈز نہایت اہم ہیں کیونکہ ہر کوئی پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے اپنے اجداد کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، اور یہ کہ وہ کس یونٹ میں تھے، وہ کہاں لڑے اور آیا وہ شہید ہوئے یا زخمی ہوئے۔ جب وہ آتے ہیں اور یہ تمام معلومات ان ریکارڈ بکس میں دیکھتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں، اس کے علاوہ یہ گراں قدر تاریخی ڈیٹا بھی ہے۔’
لاہور میوزیم میں ایسے 34 رجسٹرز ہیں جن میں (غیر منقسم) پنجاب کے 20 اضلاع سے پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے سپاہیوں کے سروس ریکارڈز موجود ہیں۔ ان میں سے 10 اضلاع اب انڈین پنجاب اور باقی 10 پاکستانی پنجاب میں ہیں۔
ہاتھ سے تحریر کی گئی یہ دستاویزات 26 ہزار صفحات پر مشتمل ہیں اور ان میں ہر دیہہ سے جنگ میں حصہ لینے والے سپاہیوں اور ان کی پینشنز کے بارے میں ڈیٹا موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان دستاویزات میں ہر سپاہی کا نام، رینک، رجمنٹ، سروس نمبر، پتہ اور خاندان کی تفصیلات درج ہیں، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہ وہ جنگ میں زخمی ہوئے یا ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ ان ریکارڈز میں ایک صدی قبل برٹش انڈین آرمی میں بھرتی کا طریقہ کار بھی تفصیل سے موجود ہے۔
لاہور میوزیم سے حاصل کردہ رجسٹر میں جالندھر سے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے والے سپاھیوں کے نام دیکھے جا سکتے ہیں
پہلی عالمی جنگ ایک بین الاقوامی تنازع تھا جو 28 جولائی 1914 کو شروع ہوا۔ اس میں روس، امریکہ، ترکی اور زیادہ تر یورپی ممالک شامل تھے اور یہ مشرقِ وسطیٰ، افریقہ، اور ایشیا کے چند حصوں میں لڑی گئی۔ اس جنگ کا اختتام 11 نومبر 1918 کو ہوا۔
‘مجھے اس پر یقین نہیں آ رہا تھا’
گذشتہ سال برطانیہ میں کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کے دنوں میں برمنگھم سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ جیسمین اتھوال ’یو کے پنجاب ہیریٹیج ایسوسی ایشن‘ کے ساتھ کام کر رہی تھیں جب اُنھیں حادثاتی طور پر ایسی دستاویزات ملیں جن کے مطابق (انڈین) پنجاب میں جالندھر کے گاؤں منگووال سے تعلق رکھنے والے اُن کے پڑدادا کے والد کرپا سنگھ اور اُن کے بھائی گردیال سنگھ پہلی عالمی جنگ میں لڑے تھے۔
ان ریکارڈز سے جیسمین اور اُن کے خاندان کو معلوم ہوا کہ کرپا سنگھ آرٹلری دستے کا حصہ تھے۔ اُن کی تعیناتی میسوپوٹیمیا کے ایک پہاڑ پر تھی۔ دستاویزات کے مطابق پہلی عالمی جنگ میں اُن کا کردار یہ تھا کہ وہ توپیں سنبھالیں اور چلائیں۔
برٹش انڈین آرمی کے ھندوستانی فوجیوں کی 1918 میں مصر میں ایک تصویر
اُنھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ گردیال سنگھ 36 سکھ رجمنٹ کا حصہ تھے اور اُن کی رجمنٹ وہ واحد انڈین رجمنٹ تھی جو پہلی عالمی جنگ کے دوران چین میں جرمن بحریہ کے خلاف برسرِ پیکار تھی۔ نہ ہی جیسمین اور نہ اُن کے خاندان کو معلوم تھا کہ کرپا سنگھ اور گردیال سنگھ نے پہلی عالمی جنگ میں لڑائی لڑی تھی۔
جیسمین اتھوال نے بی بی سی کو بتایا: ‘پہلے میری آنکھیں کچھ بھیگ گئیں۔ میں نے کہا یہ اتنا اچھا ہے کہ اس پر یقین کرنا مشکل ہے، اور مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں ان ریکارڈز تک پہنچی ہوں۔ اور پھر مجھے فخر ہوا کہ یہ میرا پہلی عالمی جنگ سے براہِ راست تعلق تھا، جس کے بارے میں میں پرائمری سکول سے ہی پڑھ رہی تھی، سو یہ بہت جذباتی (لمحہ) تھا۔’
جیسمین اتھوال کے مطابق ان ریکارڈز تک رسائی ان کے لیے ایک جذباتی لمحہ تھا
برمنگھم میں مقیم ایک ہیریٹیج کنسلٹنٹ راج پال بھی ان دستاویزات کی مدد سے یہ تصدیق کر پائے ہیں کہ پاکستان کے ضلع گجرات میں رہنے والے اُن کے دادا اور اُن کے بھائی پہلی عالمی جنگ میں حصہ لے چکے ہیں۔
اس کے علاوہ لیورپول میں مقیم کاروباری شخصیت رِک سندھو نے بھی جانا کہ جالندھر سے تعلق رکھنے والے اُن کے پڑدادا اور ان کے بھائی بھی جنگ میں شامل تھے اور یہ کہ اُن کے دادا کے بھائی (عراق کے شہر) بصرہ میں ایک معرکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اسی طرح برطانوی رکنِ پارلیمان تنمنجیت سنگھ نے پایا ہے کہ اُن کے گاؤں کے چار افراد نے پہلی عالمی جنگ میں لڑائی لڑی تھی اور یہ کہ شمال مشرقی پنجاب کے ضلعے ہوشیار پور (موجودہ انڈیا میں) سے تعلق رکھنے والے اُن کے پڑدادا مِہان سنگھ میسوپوٹیمیا میں سپاہی تھے۔
لاہور میوزیم سے حاصل کردہ رجسٹر میں گرداس پور سے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے والے سپاھیوں کے نام دیکھے جا سکتے ہیں
ان رجسٹرز سے اُن کی اس خاندانی داستان کی تصدیق ہوئی کہ مِہان سنگھ دورانِ جنگ زخمی ہوئے تھے۔
پنجابی بالی وڈ اداکار اور گلوکار دلجیت دوسانجھ نے بھی ان آن لائن ریکارڈز کا استعمال کرتے ہوئے جانا کہ جالندھر میں اُن کے گاؤں سے 51 سپاہی اس جنگ میں شامل ہوئے تھے اور ان میں سے ایک سپاہی مغربی محاذ پر ہلاک ہوا۔
برطانوی فلاحی تنظیم ان ریکارڈز تک کیسے پہنچی؟
یہ ریکارڈز پوشیدہ اور تحقیق کے منتظر ہی رہتے اگر ’یو کے پنجاب ہیریٹیج ایسوسی ایشن‘ (یو کے پی ایچ اے) برسوں تک ان ریکارڈز تک رسائی کے لیے انتھک کام نہ کرتی۔
تنظیم کے شریک بانی اور سربراہ امندیپ سنگھ مدرا کو لاہور میوزیم سے سات سال خط و کتابت کر کے تعلقات قائم کرنے پڑے جس کے بعد ہی اُنھیں ان ریکارڈز تک رسائی حاصل ہوئی۔
امندیپ سنگھ نے سب سے پہلے سنہ 2014 میں لاہور میوزیم سے ان فائلز کے متعلق رابطہ قائم کیا تھا۔ اُنھیں ان دستاویزات کے وجود کے بارے میں انڈین فوجی مؤرخین نے بتایا تھا مگر اُنھیں کبھی ان تک رسائی حاصل نہیں ہوئی تھی۔
امندیپ سنگھ مدرا
چنانچہ یہ امندیپ سنگھ اور اُن کی ٹیم کی کاوشوں اور محنت کی وجہ سے ممکن ہوا کہ لاتعداد خاندان اب اپنی خاندانی تاریخ کو مرتب کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور پہلی عالمی جنگ میں اپنے بڑوں کے کردار کے بارے میں مزید جان سکتے ہیں۔
اس پراجیکٹ کی فنڈنگ کرنے والی یونیورسٹی آف گرینِچ نے ان ریکارڈز کو ٹائپ کر کے ڈیجیٹائز کرنے اور یو کے پی ایچ اے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے میں مدد دی۔ اس ویب سائٹ کا نام پنجاب اینڈ ورلڈ وار ون (www.punjabww1.com) ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امندیپ سنگھ مدرا نے کہا: ‘پنجاب پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانوی انڈین آرمی کے لیے بھرتی کا مرکزی خطہ تھا۔ ہندو، مسلم اور سکھ غرض ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے پنجابی انڈین آرمی کا ایک تہائی اور سلطنتِ برطانیہ کی کُل غیر ملکی افواج کا چھٹا حصہ تھے۔ مگر اس کے باوجود ان لوگوں کے کردار کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ ہمیں ان کے نام تک معلوم نہیں تھے۔ ان ریکارڈز کو ڈیجیٹائز کر کے ہم دنیا بھر میں مقیم پنجابیوں، محققین اور اداروں کو بہت بڑے ڈیٹا تک رسائی فراہم کر رہے ہیں جس سے ہر پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کی کہانیاں سامنے آتی ہیں جو مغربی محاذ کی خندقوں، گیلی پولی اور مشرقِ وسطیٰ و افریقہ کے صحراؤں اور گرمی میں ایک دوسرے اور برطانوی اور اتحادی سپاہیوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑے۔’
مدرا نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2014 میں اُن کے والد نے اُنھیں بتایا تھا کہ اُن کے چچا پہلی عالمی جنگ میں لڑ چکے تھے۔ یہ کہانی امندیپ سنگھ نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی چنانچہ اُنھیں یہ سن کر حیرت ہوئی۔
امندیپ نے بتایا: ‘میرے والد کو دھندلا سا یاد تھا کہ وہ اپنے چچا کو اُن کے علاقے روپڑ (موجودہ نام روپ نگر) میں پینشن وصول کرنے کے لیے لے کر جایا کرتے تھے۔ میرے والد کو یاد تھا کہ اُن کے چچا کی نظر بصرہ میں دورانِ جنگ ریت کے بگولوں کا سامنا کرنے کے باعث کمزور ہو گئی تھی۔ مگر اس سب سے بڑھ کر ہم جانتے تھے کہ اُن کا نام بِشن سنگھ تھا اور اُن کا تعلق ضلع روپڑ کے دیہہ مدپور سے تھا۔ چنانچہ جب میں نے ان رجسٹرز کے بارے میں سنا تو فوراً مجھے ان کی اہمیت کا اندازہ ہوا کیونکہ ان سے میرے جیسے لوگ اس فوجی تاریخ کے بارے میں جان سکتے تھے۔’
اب تک 20 اضلاع میں سے تین اضلاع یعنی انڈیا سے جالندھر اور لدھیانہ جبکہ پاکستان سے سیالکوٹ کے کُل 45 ہزار سروس ریکارڈز اپ لوڈ کیے جا چکے ہیں۔ امندیپ سنگھ کو اُمید ہے کہ اس پراجیکٹ کے ذریعے عالمی جنگ میں شرکت کرنے والوں کی موجودہ نسلیں کچھ خالی جگہیں پُر کر سکیں گی، جس سے اُن کی ٹیم کو جنگ میں پنجاب کی خدمات کی ایک بہتر تصویر تیار کرنے کا موقع ملے گا۔ ان افراد کی یادیں اور خاندانی دستاویزات اس جنگ کی اور اس میں شامل افراد کی مکمل کہانی بیان کرنے کے لیے نہایت اہم ہوں گی۔
اس کے علاوہ اُنھیں اُمید ہے کہ اس پراجیکٹ کے ذریعے پنجاب سے جنگ میں شریک ہونے والے افراد کی اجتماعی خدمات کے ساتھ انصاف ہو سکے گا جبکہ پنجاب اور پہلی عالمی جنگ کی ایک باقاعدہ دستاویز تیار ہو سکے گی۔
‘پہلی عالمی جنگ میں پنجاب کی خدمات کا منفرد ریکارڈ’
اب سے پہلے تک پہلی عالمی جنگ میں لڑنے والے ہندوستانی سپاہیوں کے خاندانوں کے لیے ایسا کوئی ڈیٹا موجود نہیں تھا جبکہ برطانوی اور آئرش سپاہیوں کی نئی نسلیں عام کر دیے گئے سروس ریکارڈز میں اپنے رشتے داروں کے نام تلاش کر کے اُن کے بارے میں مزید جان سکتی تھیں۔
لہٰذا اس پراجیکٹ کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور کئی لوگوں نے اسے جنگِ عظیم میں نوآبادیاتی سپاہیوں کی خدمات کے بارے میں جاننے کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
یونیورسٹی آف گرینِچ میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر گیوِن رینڈ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ ریکارڈز ہمیں راج کی فوجی بھرتیوں کے مرکزی علاقے کے طور پر پنجاب کے کردار کا ایک منفرد اور تفصیلی ریکارڈ فراہم کرتے ہیں، جس سے ہمیں پہلی عالمی جنگ میں سلطنتِ برطانیہ کی ایما پر لڑنے والے نوآبادیاتی سپاہیوں کے بارے میں بے مثال معلومات حاصل ہوتی ہیں۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘برطانیہ میں تقریباً 10 لاکھ کے قریب سکھ، مسلمان اور ہندو پنجابی برطانوی رہتے ہیں اور دنیا بھر میں ان کی تعداد 10 کروڑ 20 لاکھ کے قریب ہے، ان میں سے کئی کا تعلق اُن علاقوں سے ہے جہاں سے پہلی عالمی جنگ کے دوران بے تحاشہ بھرتیاں کی گئی تھیں۔’
برٹش انڈین آرمی کے ہندوستانی فوجی 1919 میں لندن میں پہلی جنگ عظیم کی فتح کی پریڈ میں شرکت کرتے ہوئے
‘رجسٹرز میں موجود منفرد ڈیٹا میں سے کچھ کو پہلی مرتبہ عوامی سطح پر جاری کرنے سے یہ پراجیکٹ برطانیہ اور اس سے باہر موجود پنجابی برادری سے وسیع تر روابط کی بنیاد فراہم کرے گا کیونکہ لوگ اپنے اجداد کی جنگی خدمات کے بارے میں جان سکیں گے، ساتھ ہی ساتھ ہمیں غیر منقسم پنجاب کے دیہات کے بارے میں نت نئی معلومات حاصل ہوں گی۔’
برطانیہ کی ناٹنگھم یونیورسٹی میں برطانیہ کی سامراجی، نوآبادیاتی اور مابعد از نوآبادیاتی تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ارون کمار نے بھی اس پراجیکٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ‘یہ نہایت حیران کُن مواد ہے۔ سینکڑوں خاندان پہلی عالمی جنگ میں خدمات انجام دینے اور گمنامی میں مر جانے والے اپنے رشتے داروں کے بارے میں تفصیلات کے متلاشی ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ تعین کرنا مشکل تھا کہ اُن کے بیٹے، شوہر، والد یا پیارے مغربی محاذ، مشرقِ وسطیٰ یا افریقہ میں کس جگہ خدمات انجام دے رہے تھے، بالخصوص اس لیے کیونکہ سامراجی جنگ میں شامل ہونے والے لوگ غریب تھے اور اپنے رشتے داروں کا کھوج لگانے کے وسائل نہیں رکھتے تھے۔ یورپ بھر میں جگہ جگہ پہلی عالمی جنگ کے بے نام قبرستان موجود ہیں اور ان میں سے کئی قبرستانوں میں کئی بے نام انڈین اور پاکستانی دفن ہیں۔’
‘اس کے علاوہ ایک طویل عرصے تک پہلی عالمی جنگ کو یورپی یا مغربی جنگ بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ مغربی میڈیا اور فلموں میں اب بھی جاری یہ منظرکشی اتنی گمراہ کُن اور غیر اخلاقی ہے کہ یہ نوآبادیاتی افریقہ اور انڈیا کے سپاہیوں کی خدمات کو تسلیم کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ پہلی عالمی جنگ بیک وقت عالمی جنگ بھی تھی اور سامراجی جنگ بھی، جو نوآبادیاتی علاقوں اور لوگوں کے نئے سرے سے بٹوارے کے لیے لڑی گئی اور اس ڈیٹابیس سے ان خدمات کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔’
ڈاکٹر ارون کُمار نے بتایا کہ اُنھیں پہلی مرتبہ اس ڈیٹابیس کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ پنجاب برٹش انڈین آرمی کے لیے بھرتی کا مرکزی خطہ تھا اور ’بہترین سپاہی جاٹ برادری کے ہوتے تھے‘۔ مگر اُنھیں جو چیز کافی دلچسپ لگی وہ یہ کہ کئی ہنرمند ذاتوں (مثلاً جولاہوں، سناروں اور بڑھئیوں) اور دلتوں (مثلاً خاکروب برادری، جنھیں پہلے اچھوت کہا اور سمجھا جاتا تھا) نے بھی پہلی عالمی جنگ میں خدمات سرانجام دیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک نئی بات ہے جسے مزید کھنگالنا اور اجاگر کرنا ضروری ہے۔
شرابانی باسو کہتی ہیں کہ پہلی عالمی جنگ میں شامل انڈین سپاہیوں کو برطانوی اور ہندوستانیوں دونوں نے ہی بھلا دیا
لندن میں مقیم انڈین صحافی اور ’وکٹوریہ اینڈ عبدل‘ اور ’سپائے پرنسز‘ سمیت کئی کتابوں کی مصنف شرابانی باسو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ‘یہ ایک حیران کُن ڈیٹابیس ہے اور اس کا آن لائن ہونا اور ہر کسی کی رسائی میں ہونا اپنے اپنے خاندانوں کی تاریخ کی تلاش میں لگے لوگوں کے لیے ایک اہم تحقیقی وسیلہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ سکولوں، یونیورسٹیوں اور ماہرین کے لیے ایک اہم تعلیمی وسیلہ بھی ہے۔ اس سے فوراً اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب سے کس قدر سپاہیوں نے پہلی عالمی جنگ میں لڑنے کے لیے رضاکارانہ خدمات پیش کیں۔’
یہ بھی پڑھیے
پہلی عالمی جنگ میں شریک انڈین سپاہیوں کو کیوں بھلا دیا گیا؟
ڈاکٹر گیوِن رینڈ کہتے ہیں کہ ‘مجھے لگتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں میں ہی لوگ اس حقیقت سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیائی خطہ برطانیہ کی جنگی کوششوں کے لیے کتنا اہم تھا۔ برطانیہ میں ہم نے اس جنگ کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا یا اسے صرف بنیادی طور پر یورپ، فرانس اور بیلجیئم اور خندقوں والی جنگ کے طور پر یاد رکھا۔ ہم نے ایک طویل عرصے تک ناصرف جنوبی ایشیائی بلکہ دولتِ مشترکہ اور ہمارے نوآبادیاتی سپاہیوں کی اس جنگ میں خدمات کو یا بھلائے رکھا یا اس سے صرفِ نظر کیا۔’
جب ہم نے ڈاکٹر ارون کُمار سے پوچھا کہ انڈین سپاہیوں کی خدمات کو کیوں بھلا دیا گیا تو اُنھوں نے کہا: ‘نوآبادیاتی دور کچھ پہلوؤں کو بھلا دینے کا مرحلہ تھا اور یہ اب بھی تعین کرتا ہے کہ ہم کیا یاد رکھتے ہیں اور کیا بھول جاتے ہیں۔ نوآبادیاتی دور کی بنیاد ہی کالونیوں کو جائز، معقول اور حقوق کے حامل علاقے تصور نہ کرنے پر تھی۔ یہ مانا جاتا تھا کہ نوآبادیاتی علاقے صرف استعمال کے لیے ہوتے ہیں، اور نوآبادیاتی ریاست جنگ کے بعد فارغ کر دیے گئے اور دائمی زخموں کے شکار فوجیوں کے لیے برائے نام ہی کام کیا کرتی تھی۔’
وہ کہتے ہیں ‘درحقیقت سنہ 1919 میں برطانیہ نے بدنامِ زمانہ رولیٹ ایکٹ منظور کیا جس کے ذریعے پولیس کو عدالتی نظرِثانی یا ٹرائل کے بغیر ہندوستانیوں کو گرفتار کرنے اور زیرِ حراست رکھنے کا اختیار دے دیا گیا۔ اور جب ہندوستانیوں نے بھرتیوں کے مرکزی خطے پنجاب میں ان گرفتاریوں کے خلاف پُرامن مظارے کیے تو برطانوی بریگیڈیئر جنرل ڈائر نے مظاہرین کو (احاطے میں) بند کر کے مجمعے پر گولیاں چلوا دیں۔ بعد میں 1920 کی دہائی میں ایک جنگی یادگار (دلی میں مشہور انڈیا گیٹ) تعمیر کی جاتی ہے جس پر پہلی عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والے سپاہیوں اور افسران کے نام کندہ کیے گئے۔ یہ دلی کو نیا نوآبادیاتی دارالحکومت بنانے کے مرحلے کا حصہ تھا۔ انڈیا گیٹ نوتعمیر شدہ وائسرائے ہاؤس کے عین سامنے سامراجی وفاداری کی علامت کے طور پر ایستادہ نظر آتا۔’
انڈیا کے ضلع ہوشیارپور میں پنجور گاوں سے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے والوں کی یادگار
شرابانی باسو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘جہاں پہلی عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یادگاریں برطانیہ کے ہر گاؤں میں موجود ہیں، وہیں انڈیا کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ اور برطانیہ نے انڈین دیہات میں یادگاریں تعمیر تو کی تھیں مگر ہلاک شدگان کو کبھی اُن کے ناموں سے یاد نہیں کیا گیا۔ اُنھیں صرف ایک عدد کے طور پر ریکارڈ کیا گیا۔ انڈین دیہات میں عام طور پر (یادگاروں پر) صرف اس گاؤں سے جنگ میں جانے والوں کی تعداد اور واپس نہ لوٹنے والوں کی تعداد لکھی ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈین سپاہیوں کو اتنا اہم نہیں سمجھا گیا کہ اُنھیں اُن کے نام سے یاد رکھا جائے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ برطانیہ میں ہر گاؤں نے مقامی طور پر اکٹھی کی گئی رقم سے یادگاریں خود تعمیر کیں۔ انڈیا میں دیہاتیوں کے پاس اپنے ہلاک شدگان کی یادگاریں بنانے کے لیے وسائل نہیں تھے چنانچہ یہ کام برطانویوں پر چھوڑ دیا گیا، انڈیا میں یادگاروں پر تمام تفصیلات موجود نہیں ہوتی تھیں، اور آہستہ آہستہ انڈین سپاہیوں کو برطانویوں اور ہندوستانیوں دونوں نے ہی بھلا دیا۔’
اُنھوں نے مزید بتایا کہ انڈیا کی آزادی کے بعد انڈیا کے نئے ہیرو وہ تھے جو آزادی کے لیے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے جبکہ حاکم کے لیے لڑ مرنے والے فوجی اب اہم نہیں رہے تھے، اور برطانیہ کے نزدیک یہ اب انڈیا کی تاریخ کا حصہ تھے نہ کہ برطانیہ کی ذمہ داری۔ نتیجتاً یہ سپاہی اور ان کی خدمات دونوں ہی ممالک کی تاریخ کے صفحات سے افسوسناک طور پر مٹ گئیں۔
پراجیکٹ کا اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟
اس پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد کچھ مزید اضلاع کے سروس ریکارڈز اپ لوڈ کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تاکہ مزید خاندان اپنی خاندانی تاریخ اور پہلی عالمی جنگ میں اپنے بڑوں کے کردار کے بارے میں جان سکیں۔
Comments are closed.