- مصنف, زاریا گورویٹ
- عہدہ, بی بی سی فیوچر
- 2 گھنٹے قبل
انیسوی صدی کے وسط تک دوستوں، رشتہ داروں، ساتھ کام کرنے والوں حتٰی کہ اجنبیووں کے ساتھ ایک ہی بستر میں سونا ایک عام سی بات تھی۔ تو ایسے میں لوگ سوتے کیسے تھے اور ہم نے یہ کرنا کیوں بند کر دیا؟یہ سنہ 1187 کی بات ہے جب ایک وجیہ شخصیت کا مالک شہزادہ، اپنے عظیم الشان بستر میں ایک نئے دوست کے ساتھ سونے کے لیے لیٹتا ہے۔ یہ شہزادہ اور کوئی نہیں بلکہ رچرڈ ’دی لائن ہارٹڈ‘ ہیں جو میدانِ جنگ میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور بہادری کے لیے مشہور تھے۔ اب انھوں نے اپنے ایک سابقہ دشمن، فلپ دوئم کے ساتھ دوستی قائم کر لی تھی اور دونوں ایک ہی بستر میں سو رہے تھے۔ فلپ دوئم نے فرانس پر1180 سے 1223 تک حکومت کی۔ابتدائی طور پر دونوں نے خالصتاً ایک عملی اتحاد بنایا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ، ایک ہی دسترخوان حتٰی کہ اکثر ایک ہی پلیٹ میں کھاتے ہوئے دونوں گہرے دوست بن گئے۔
اپنی دوستی اور دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی خاطر، انھوں نے نہ صرف ایک امن معاہدے پر دستخط کیے بلکہ ایک ساتھ ایک بستر میں سوئے۔دو مردوں کے بستر بانٹنے کے جدید مفہوم کے برعکس، اس زمانے میں یہ بالکل عام سی بات تھی۔ رات کے اوقات میں رازداری یا مردانگی کے جو تصورات آج ہیں، اس کے بر حلاف، بہت سے مورخین دونوں شاہی خاندانوں کی جانب سے رات کی شراکت داری کو اعتماد اور بھائی چارے کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔یہ لوگوں کی ایک ساتھ سونے کی صدیوں پرانی روایت ہے۔ہزاروں سالوں تک، دوستوں، ساتھیوں، رشتہ داروں حتٰی کہ مسافروں کے ساتھ ایک ہی بستر پر سونا ایک معمول کی بات تھی۔سفر کے دوران، یہ بالکل عام بات تھی کہ لوگ اکثر خود کو اجنبیوں کے پاس سویا پاتے۔ اگر کسی کی قسمت خراب ہوتی تو اس کے پاس لیٹا شخص شدید ناگوار بو یا زوردار خڑاٹے لینے والا ہوتا۔ یا اگر کسی کے ستارے زیادہ ہی گردش میں ہوں تو ساتھ سونے والا برہنہ بھی ہو سکتا تھا۔بعض اوقات، لوگوں کا ساتھ سونا، بستروں کی کمی سے نمٹنے کا ایک عملی حل تھا۔بات صرف بستروں کی کمی کی نہ تھا کیونکہ اکثراشرافیہ بھی رات کو ہونے والی گپ شپ، قربت اور تحفظ کے احساس کے لیےساتھی کی تلاش میں رہتے۔ لیکن لوگ اجتماعی طور پر سونے سے پیدا ہونے والے مسائل سے کیسے نمٹتے اور یہ روایت کیونکر ختم ہوئی؟،تصویر کا ذریعہ British Library
ہزاروں سال پرانی روایت
ماہرینِ آثارِقدیمہ نے سنہ 2011 میں جنوبی افریقہ کے سيبودو غار میں غیر معمولی طور پر محفوظ شدہ پرانے دور کی ایک تہہ دریافت کی۔ یہ کرپٹوکاریا نامی درخت کے پتوں سے بنی تھی جو 77000 ہزار سال پہلے پتھروں کے زمانے میں بنائے گئے بستر کی اوپری تہہ ہوا کرتی تھی۔ اس پروجیکٹ کی سربراہ لن وڈلی کا خیال ہے کہ یہ بستر اتنا بڑا تھا کہ اس پر پورا خاندان ایک ساتھ سو سکتا تھا۔اس بات کے واضح ثبوت تو ملنا مشکل ہیں مگر قیاس یہ ہے کہ یہ روایت کافی قدیم ہے۔ تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جدید زمانے میں اکیلے سونے کی ترجیح کافی عجیب معلوم ہوتی ہے۔ قدیم زمانے میں ایک مختصر عرصے کے علاوہ جس دوران اعلٰی طبقے کے شادی شدہ افراد میں اکیلے سونے کا رجحان پایا جاتا تھا، قرونِ وسطٰی کے زمانے میں بھی یہ روایت قائم رہی۔تاہم، اس سرگرمی کے واضح شواہد ابتدائی جدید دور یعنی کہ سنہ 1500 سے سنہ 1800 تک ملتے ہیں۔ اس دور میں، بستر شیئر کرنا ایک معمول کی بات تھی۔ راجرایکرچ ورجینیا ٹیک یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور ’ایٹ ڈیز کلوز: اے ہسٹری آف نائٹ ٹائم‘ کے مصنف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اشرافیہ، مالدار تاجروں اور بڑے زمینداروں کو چھوڑ کر باقی افراد کے لیے بستر کا ساتھی نہ ہونا ایک غیر معمولی بات ہوتی تھی۔ساشا ہینڈلی مانچسٹر یونیورسٹی میں جدید تاریخ کی پروفیسر اور ’سلیپ ان ماڈرن انگلینڈ‘ کی مصنفہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر گھروں میں الگ الگ سونے کے لیے بستر دستیاب ہی نہ تھے۔ ہینڈلی کے مطابق، دورانِ سفر متوسط اور اعلٰی طبقے کے افراد جب سرائے اور ہوٹلوں میں قیام کرتے تھے تو وہاں ان کو بھی مجبوراً بستر بانٹنا پرتا تھا۔ یہ 1590 کے آس پاس کی بات ہے جب ہرٹ فورڈ شائر کا ایک چھوٹا سا قصبہ وائٹ ہارٹ ایک بہت بڑے بستر عظیم ’بیڈ آف ویئر‘ کے لیے مشہور ہوا۔ بلوط کی لکڑی کا بنا یہ فرنیچر 9 فٹ اونچا، 11 فٹ چوڑا اور تقریبا 11 فٹ ہی لمبا تھا جس پر شیروں اور ساحروں کی نقش و نگاری کی گئی تھی۔ یہ مسافروں کے استعمال کے لیے دستیاب ہوتا تھا۔ایک روایت کے مطابق،1689 میں 26 قصابوں اور ان کی بیویاں یعنی کل 52 لوگ ایک شرط جیتنے کے لیے وہاں ایک ساتھ سوئے تھے۔آج کے خیالات کے برعکس، بستر بانٹنے کا وہ جنسی مفہوم نہیں لیا جاتا تھا جو آج لیا جاتا ہے۔قرون وسطیٰ کے دور میں، بائبل کے تین عقلمندوں (Three Wise Men) کو اکثر ایک ساتھ سوتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ بعض اوقات عریاں حالت میں بھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ تینوں جنسی عمل میں ملوث ہیں۔ایک ساتھ سونے کی خواہش اتنی شدید ہوتی تھی کہ اکثر یہ سماجی طبقوں کی رکاوٹیں کو بھی عبور کر جاتیں۔ایسے بے شمار تاریخی واقعات بھی ہیں کہ جہاں لوگ ہر رات اپنے سے کمتر یا اعلیٰ افسران کے ساتھ سوتے جیسے گھریلو ملازمین اور ان کے مالک، یا شاہی خاندان کے افراد اور رعایا۔ایک پادری نے 1974 میں اپنی ڈائری میں لکھا کہ ان کے پاس ایک مہمان آیا جس نے خاص طور پر ان کے ملازم کے ساتھ سونے کی درخواست کی۔ سوتے وقت کمبل کے لیے جھگڑا، لوگوں کی جانب سے نکالی جانے والی آوازیں، لوگوں میں ایک طرح کی برابری قائم کر دیتیں جو خوابگاہ سے باہر ممکن نہ تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
رات کی بہتر نیند
اجتماعی طور پر سونے کا سب سے تفصیلی ریکارڈ سیموئیل پیپیس کی ڈائریوں میں ملتا ہے، جو 17ویں صدی کی زندگی کی ایک مکمل تصویر فراہم کرتی ہے۔اس ڈائری کے صفحات جنھیں پیپیس نے آنے والی نسلوں کے لیے ہارڈ بیک والیوم میں محفوظ کیا تھا، آج بھی برطانیہ کے کیمبرج میں واقع ان کی لائبریری کے شیلف پر پائی جاتی ہے۔ انھوں 1660 میں شروع کرنے کے بعد اس ڈائری کو نو سال تک تقریباً روزانہ لکھا۔روزمرہ کی زندگی کے تفصیلی احوال کے علاوہ، پیپیس کی ڈائری میں یہ بھی درج ہے کہ وہ اس دوران کتنی بار ایک ہی بستر پر دوستوں، ساتھیوں حتٰی کہ اجنبیوں کے ساتھ بھی سوئے۔ اور اس میں انھوں نے بستر بانٹنے کے دوران ہونے والی بہت سی باریکیوں کو بھی واضح کیا۔ایک بار پورتس ماؤٹھ میں پیپیس کو ایک ڈاکٹر کے ساتھ سونے کا موقع ملا جو ان کے ساتھ لندن کی رائل سوسائٹی میں کام کر چکے تھے۔ ساتھ میں بڑے آرام اور اچھے سے سونے کے ساتھ پیپیس کی قسمت اس وقت جاگ اٹھی جب مکھیوں کو ڈاکٹر کا خون پسند آگیا اور ایسے پیپیس کو رات بھر پُرسکون نیند مل گئی۔ ایکرچ کہتے ہیں کہ اگر موزوں بیڈ فیلومل جائے تو لوگ اکثر کمبل کی کئی دبیز تہوں کے نیچے، سروں پر نائٹ کیپ رکھے صبح سویرے تک قصے کہانیوں کا تبادلہ کرتے رہتے۔ شاید کبھی کبھی تو اپنی پہلی اور دوسری نیند کے درمیان اپنے خوابوں کا باہمی تجزیہ کرتے۔ رات کی تاریکی میں گپ شپ کرتے گزارے گئے یہ لمحات اکثر سماجی رشتوں کو مضبوط کرنے میں مدد دیتے اور رازوں کے تبادلے کے لیے ایک مثالی جگہ فراہم کرتے۔ہینڈلی اس بارے میں سارہ ہرسٹ کی مثال دیتی ہیں، جو ایک نوجوان عورت اور درزی کی بیٹی تھی۔ ان کے سونے کے کئی پسندیدہ ساتھی تھے جن کے لیے اس کے دل میں شدید جذبات تھے اور جب ان میں سے ایک کی وفات ہوئی تو اس کی یاد میں انھوں نے ایک نظم بھی لکھی۔ملکہ الزبتھ نے اپنی 44 سالہ دورِ حکمرانی میں شاید ہی کوئی رات اکیلے گزاری ہو حالانکہ ان کے پاس سونے کے لیے کئی بستر تھے۔ ہر رات، وہ اپنی کسی بھروسہ مند ساتھی کے ساتھ اپنے خوابگاہ میں جاتیں، جس سے وہ دن بھر پیش آنے والے واقعات کے بارے بات کر کے اپنا دل ہلکا کرتیں۔ اور یہ عورتیں ملکہ کی حفاظت بھی کرتیں۔ مؤرخ اینا وائٹلاک نے اپنی کتاب ’دی کوئینز بیڈ: این انٹیمیٹ ہسٹری آف الزبتھ کورٹ‘ میں کہتی ہیں کہ ان کی خوابگاہ میں مردوں کی مداخلت کوئی انہونی چیز نہ تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب الزبتھ کم عمر تھیں تو ان کی سوتیلی ماں نے جس شخص سے شادی کی تھی، وہ ان کے کمرے میں گھس آتا اور ان کے کولہوں پر تھپڑ مارتا۔ ان واقعات سے ان کو کافی خطرہ لاحق تھا کیونکہ انھیں کنوارے پن کا تحفظ کرنا تھا۔
،تصویر کا ذریعہAlmay
آداب کا لحاظ
ایک ایسے دور میں جب بستر بانٹنا ایک معمول کا عمل تھا اور جو اکثر و بیشتر ناگزیر بھی ہوتا تھا، لوگوں کے لیے آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنا کافی مددگار ثابت ہوتا اور اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملتی کہ ہر ایک کو رات کی آرام دہ نیند میسر ہو اور کوئی لڑائی جھگڑے نہ ہوں۔ ساتھ سونے والوں سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ ضرورت سے زیادہ بات کرنے سے گریز کریں، ایک دوسرے کی حدود کا احترام کریں، اور بستر میں غیر ضروری طور پر ہلنے جلنے سے پرہیز کریں۔لیکن صورتحال ہمیشہ اچھی نہیں رہتی۔ایسی ہی صورتحال 9 ستمبر 1776 کی رات کو ہوئی جب امریکہ کے دو بانی – بینجمن فرینکلن اور جان ایڈمز – کی درمیان شدید بحث چھڑ گئی جب انھیں نیو برنسوک کی سرائے کے ایک کمرہ میں ایک ہی بستر میں سونا پڑا۔ایڈمز کھڑکی بند کر کے سونا چاہتے تھے۔وہ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ فرینکلن کو اس بات کا خدشہ تھا کہ کھڑکی بند کرنے سے کمرے میں گھٹن پیدا ہو جائے گی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک لمبی تمہید باندھی (جو بعد میں صحیح بھی ثابت ہوئی) جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ زکام تازی ٹھندی ہوا سے نہیں بلکہ کمرے میں پھنسی رہ جانے والی باسی ہوا سے ہوتا ہے۔ ایڈمز اس غیر متوقع لیکچر سے ’اتنا محظوظ‘ ہوئے کہ ان کو فوراً نیند آگئی۔ اجتماعی طور پر ایک ہی بستر میں سونے سے اتنے مسائل ہوتے تھے کہ ابتدائی جدید دور کی ایک فرانسیسی کتاب میں انگریز مسافروں کو چند فقرے فراہم کیے گئے تھے جن سے وہ اپنے سوتے ہوئے ساتھی کو اپنی نا پسندیدگی کا احساس دلا سکتے تھے۔جو کتاب ایکرچ کو اپنی کتاب کی تحقیق کے دوران ملی اس میں کچھ اس طرح کے جملوں کے فرانسیسی ترجمے دیے ہوئے تھے: ’آپ لات مارنے کے سوا کچھ نہیں کرتے‘، ’آپ بستر کی چادر پوری اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں‘، اور ’آپ ایک بد تمیز ہم بست رہیں‘۔ہینڈلی کا کہنا ہے کہ ایسے بہت سے دلچسپ قصے ملتے جہاں لوگ اپنے ساتھ سونے والوں کو ان کی اچھی کہانی سنانے یا خراٹے نہ لینے جیسی خوبیوں کی وجہ سے اچھا قرار دیتے۔ وہ ایک سکول ماسٹر کے قصے کا حوالہ دیتی ہیں جس نے اپنے ساتھ سونے والے ایک ریکٹر کا موازنہ سور سے کیا، کیونکہ وہ نشے میں دھت بستر پر آیا اور بہت شور مچایا۔،تصویر کا ذریعہAlamyان دنوں ایسی احتیاطی تدابیر بھی کیے جاتے تھے جن کا مقصد سنگین غلطیوں کو روکنا تھا۔ غیر شادی شدہ مردوں اور عورتوں کا اپنے خاندان سے باہر کسی کے ساتھ بستر بانٹنا معمول کے بر خلاف تھا مگر جب ایسی صورتحال آجاتی تو لوگوں کی کوشش ہوا کرتی کہ خطرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔19ویں صدی کے اوائل میں آئرش گھرانے میں سونے کی جگہوں کے سخت انتظام کے بارے میں ایکرچ نے ایک مبصرین کا بیان دیکھا۔ سب سے بڑی بیٹی دروازے سے سب سے دور دیوار کے پاس سوتی ہے، اس کے بعد اس کی بہنیں اترتی ہوئی عمر میں سوتی ہیں، پھر ماں، باپ اور بیٹے بھی عمر کے لحاظ سے سوتے ہیں۔ آخر میں، اجنبی ’چاہے سفر کرنے والا پیڈلر ہو یا درزی یا بھکاری،‘ آخر میں سوجاتے تھے، جہاں وہ خاندان کی خواتین ممبروں سے سب سے زیادہ دور ہوتے تھے۔ایسے معاملات بھی سامنے آئے جہاں بستروں کی کمی کی وجہ سے مرد اور خواتین گھریلو ملازمین کو ایک ساتھ سونے کی ضرورت تھی۔ ایکرچ کہتے ہیں ’یہ ایک عام خیال اور مزاح کا ذریعہ تھا۔ کم از کم ان لوگوں کے لیے جن کے نوکر اس میں شامل نہیں تھے کہ اس کا نتیجہ کبھی کبھی حاملہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔‘اجنبیوں کے ساتھ اشتراک کرتے وقت، جنسی تشدد یا قتل کا خطرہ ہمیشہ موجود تھا۔ 1851 کے ناول موبی ڈک کے ابتدائی باب میں مرکزی کردار یہ جان کر پریشان ہو جاتا ہے کہ ایک سرائے میں دستیاب واحد بستر کے لیے ایک پراسرار اور ممکنہ طور پر خطرناک وہیل ہارپونر کے ساتھ سونے کی ضرورت ہوگی جو کچھ ’سکڑے ہوئے سر‘ بیچنے کے لیے شہر میں تھا۔اور اجتماعی نیند کے دوسرے، کم پرکشش پہلو بھی تھے۔ اندھیرے میں خفیہ بات چیت کے تمام رومانس کے باوجود، اور جسمانی گرمجوشی بانٹنے کے سالوں کے بعد باہمی محبت کے بیڈ فیلوز پیدا ہوئے۔ بہت سے مشترکہ بستر کیڑوں اور بیماریوں کا گڑھ تھے۔ ایک ہی گدے پر بہت سے لوگوں کے بیٹھنے کی وجہ سے، جن میں سے بہت سے کیڑوں کے لیے چھپنے کی مثالی جگہیں فراہم کرتے تھے۔ وہ اکثر جوؤں یا بیڈ بگز سے متاثر ہو جاتے تھے۔،تصویر کا ذریعہAlamyکبھی کبھار، سونے والوں کو بغیر نہائے بیڈ فیلوز، قدیم بستروں اور استعمال شدہ کمرے کے برتنوں سے آنے والی گھناؤنی، زبردست بو سے دور کر دیا جاتا تھا۔ ایک واقعے میں ایکرچ نے انکشاف کیا کہ دو خواتین نے ایک دوسرے پر بدبو پیدا کرنے کا الزام لگایا، یہاں تک کہ انھیں احساس ہوا کہ ان کے بستروں کے سر پر بیت الخلا ہے۔
بتدریج زوال
انیسویں صدی کے وسط تک بیڈ شیئرنگ فیشن سے باہر ہونے لگی، یہاں تک کہ شادی شدہ جوڑوں کے لیے بھی۔یہ سب ایک بااثر امریکی طبیب سے شروع ہوا۔ ولیم وائٹی ہال، جو بہت سے موضوعات پر مضبوط رائے رکھتے تھے، اس خیال کے پرجوش حامی بن گئے کہ اجتماعی نیند نہ صرف غیر دانشمندانہ ہے بلکہ ’غیر فطری اور زوال پذیر‘ ہے۔1861 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’سلیپ‘ میں ہال نے بنجامن فرینکلن کی طرح ہی ایک دلیل پیش کی ہے جس میں انھوں نے کھڑکیوں کے بارے میں اپنی کشمکش کا حوالہ دیا تھا: ایک سے زیادہ ہم بستروں کے زیر قبضہ کمرے کی ہوا تیزی سے آلودہ ہوسکتی ہے۔ مزید برآں، انھوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’یہ کم ہو رہا ہے، کیونکہ یہ اس باہمی غور و فکر اور احترام کو کم کرتا ہے جو معاشرتی زندگی میں غالب ہونا چاہیے۔‘ لہٰذا ایک ساتھی کے طور پر ایک ہی بستر پر سونا نہ صرف مضر صحت اور غیر صحت مند تھا بلکہ غیر اخلاقی بھی تھا۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ یہ لوگوں کو جانوروں کی بادشاہی میں ’بدترین‘ جانوروں کے قریب لاتا ہے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ عمر رسیدہ جوڑے جو شادی شدہ زندگی میں دہائیوں تک بیڈ شیئرنگ کے بڑے خطرات سے بچ گئے تھے وہ خوش قسمت تھے۔جیسا کہ مورخ ہلیری ہندس نے اپنی کتاب ’اے کلچرل ہسٹری آف ٹوئن بیڈز‘ میں وضاحت کی ہے۔ اس سے انفرادی نیند کے عروج کا آغاز ہوا۔ خاندانوں نے اجتماعی نیند کے قدیم رواج کو ترک کرنا شروع کر دیا، اور تقریبا ایک صدی تک، بہت سے شادی شدہ جوڑے جڑواں بستروں پر الگ الگ سوتے رہے۔ یہ صرف 1950 کی دہائی میں الٹ گیا، جب لوگوں نے الگ الگ بستروں کو ناکام شادی کی علامت کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ لیکن اجتماعی نیند دوسرے سیاق و سباق میں اپنی سابقہ مقبولیت کے ساتھ کبھی واپس نہیں آئی۔تو کیا ہمارا اس سے کوئی نقصان ہوا؟ کیا جدید سیاست دانوں کو رچرڈ دی لائین ہارٹ اور فلپ دوم کی طرح رات کی علامتی نیند کے لیے ہاتھ ملانے کا موقع تبدیل کرنا چاہیے؟ یا کیا سیاحوں کو مکمل اجنبیوں کے ساتھ بستر بانٹنے سے فائدہ ہوگا، جیسا کہ تاریخی مسافروں نے کیا تھا؟’میرے خیال میں لوگ ہر طرح کی وجوہات کی بنا پر اکیلے سوتے وقت زیادہ بہتر نیند لیتے ہیں۔۔۔‘ ہینڈلی کا کہنا ہے کہ ’ایک بار جب آپ اس طرح کے نفسیاتی سکون کو عبور کر لیتے ہیں جو بستر بانٹنے سے آپ کو مل سکتا ہے تو، زیادہ تر لوگ سونے کے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہیں جسے وہ اپنی ضروریات کے لیے اپنا کرسکتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.