- مصنف, ڈینیئل تھامس
- عہدہ, بزنس رپورٹر
- 2 گھنٹے قبل
’سال بھر میں جتنی مرضی فلائٹس پر سفر کریں لیکن آپ کو پیسے صرف ایک بار ہی ادا کرنے ہوں گے۔۔۔‘ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ ہنگری کی ایک ایئرلائن ’وز ایئر‘ نے ایک ایسی سکیم معتارف کرائی ہے جس کے بارے میں ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔اس سکیم کے مطابق مسافروں کو سالانہ 499 یورو (426 پاؤنڈ) ادا کرنے ہوں گے اور وہ سال بھر جتنی فلائٹس پر سفر کرنا چاہیں، کر سکیں گے۔ بہت سے لوگوں نے اس سکیم کو ’انتہائی اچھا‘ قرار دیا لیکن دوسری ہی جانب بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے ایئر لائن کی سروس اور فلائٹ کے شیڈول میں تاخیر پر تنقید کرتے ہوئے اس سکیم پر سوال اٹھائے ہیں۔
’وز ایئر‘ کا کہنا ہے کہ اس کی نئی ممبر شب، جس کا اطلاق ستمبر سے ہو گا، ایسے لوگوں کے ’پیسے بچانے‘ میں مددگار ثابت ہو گی جو بہت زیادہ سفر کرتے ہیں۔’وز ایئر‘ کا کہنا ہے کہ اس اعلان کے بعد بہت سے لوگوں نے اس کو سراہا اور 24 گھنٹے کے اندر زیادہ تر مارکیٹوں سے اس کی تمام ممبر شپ فروخت ہو گئیں۔لیکن بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ یہ آفر اتنی بھی پرکشش نہیں۔یہ ممبر شپ لینے والے افراد اپنی روانگی سے صرف تین دن قبل ہی فلائٹ بک کر سکتے ہیں اور انھیں فی پرواز تقریباً 10 یورو فیس بھی ادا کرنی ہو گی۔اس کے ساتھ ساتھ مسافروں کو جہاز کے اندر موجود کمپارٹمنٹ میں اپنے ’ٹرالی بیگ‘ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہو گی اور سب سے اہم بات یہ سکیم صرف 10 ہزار صارفین تک محدود ہے۔ اس کے علاوہ سکیم کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ آیا کوئی سیٹس باقی ہیں یا نہیں۔ 53 ممالک میں پرواز کرنے والی ’وز ائیر‘ پر رواں برس مارچ تک چھ کروڑ 20 لاکھ مسافروں سے سفر کیا۔ ’وز ائیر‘ کی یہ سکیم امریکہ میں ’فرنٹیئر ایئر لائنز‘ اور ملائیشیا میں ’ایئر ایشیا‘ کی آفرز سے مماثلت رکھتی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ آفر کتنی اچھی ہے؟
’وچ ٹریول‘ (Which? Travel) کے ایڈیٹر روری بولینڈ مسافروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس قیمت کے بارے میں سوچیں کہ کیا یہ واقعی ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بکنگ فیس کی ادائیگی، سیٹ کے انتخاب اور سامان کے اخراجات کو جمع کرنے کے بعد مسافروں کو لاگت میں اضافہ نظر آئے گا۔‘وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’ستم ظریفی یہ ہے کہ یورپ میں سب سے زیادہ ’ماحول دوست‘ ہونے کی دعویدار ایئر لائن صارفین کو لامحدود فلائٹس لینے کی ترغیب دے رہی ہے۔‘گذشتہ برس ’وز ائیر‘ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور شاید اس سکیم کے ذریعے ان پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔جون میں پی اے نیوز ایجنسی کی جانب سے سرکاری اعداد و شمار کے تجزیے کی بنیاد پر اس ایئر لائن کو مسلسل تیسرے سال برطانیہ کی پروازوں میں تاخیر کی وجہ سے بدترین قرار دیا گیا۔’وز ائیر‘ کا کہنا ہے کہ وہ بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں، جیسے پچھلے سال اپنے آپریشنز اور کسٹمر سروس کو بہتر بنانے کے لیے نو کروڑ پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کی گئی۔ ایئر لائن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سال کے پہلے چھ ماہ میں اس کی برطانیہ کے لیے صرف 1.8 فیصد پروازیں تین گھنٹے سے زیادہ تاخیر کا شکار ہوئیں، جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 50 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔
34 برس کی ٹیلی ڈیلیمیر اس سکیم کے بارے میں خاصی پرجوش ہیں۔ وہ برطانیہ کے لٹن ایئرپورٹ کے نزدیک رہتی ہیں اور کافی سفر بھی کرتی ہیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں بہت زیادہ سفر کرتی ہوں اور ایک سال کے دوران آٹھ سے بارہ مرتبہ فضائی سفر کرتی ہوں اور میرے پاس زیادہ تر ہاتھ میں اٹھانے والا سامان ہوتا ہے۔‘’وز ائیر کے جہاز ریان ایئر کے مقابلے میں کہیں زیادہ اچھے اور آرام دہ ہیں‘ لیکن بہت سے لوگ ٹیلی کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔36 برس کے جیمز گلینٹن جو ایک برس سے اپنی منسوخ ہونے والی پرواز کے بدلے معاوضے کا انتظار کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ آپ اس سکیم کو سبسکرائب تو کر لیں لیکن شاید آپ کبھی ٹیک آف نہ کر سکیں۔‘جولائی 2023 میں ’وز ایئر‘ نے جیمز کی بریڈ فورڈ سے پولینڈ کے شہر وروسلاو کی فلائٹ کینسل کر دی اور اس سے اگلے روز ان کی فلائٹ کو لندن لٹن ایئر پورٹ سے دوبارہ شیڈول کیا گیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جیمز کی چھٹیوں کے دو دن ضائع ہو گئے، لندن میں انھیں ہوٹل بک کرنا پڑا اور لٹن جانے کے لیے سفر پر بھی ان کے پیسے لگے۔جیمز کے مطابق ویز ایئر نے اس تمام صورتحال کے لیے ایئر ٹریفک کنٹرول کی پابندیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اسی لیے وہ انھیں معاوضے کی رقم ادا نہیں کر رہے لیکن جیمز کا دعویٰ ہے کہ ایئر پورٹ نے اس کی تردید کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ ایئر لائن نے خود پرواز کو منسوخ کیا۔وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے بالکل بھی امید نہیں کہ مجھے میرے پیسے واپس ملیں گے۔ مجھے ان سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ میں بہت غصہ ہوں اور میں دوبارہ کبھی وز ایئر کے ساتھ سفر نہیں کروں گا۔‘ 39 برس کے مارک شیٹلف بھی کہتے ہیں کہ وہ اس سکیم سے متاثر نہیں ہوئے۔گذشتہ برس جولائی میں استنبول سے لندن واپسی پر ان کی فلائٹ چھ گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی اور لینڈنگ کے وقت اتنی دیر ہو چکی تھی کہ انھیں گھر جانے کے لیے ٹیکسی کو اضافی 120 پاؤنڈ ادا کرنے پڑے۔،تصویر کا ذریعہMark Shatliff
ہزاروں مسافروں کے لیے اب بھی ’معقول انتخاب‘
سفری صنعت کے ماہر سائمن کالڈر کا خیال ہے کہ یہ سکیم کچھ مسافروں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن ایسا سب کے لیے نہیں۔ان کا خیال ہے کہ یہ آفر برطانیہ میں مقیم مشرقی یورپی افراد کے لیے ہے، جو اپنے خاندان سے ملنے کے لیے باقاعدگی سے گھر جاتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ وز ایئر پہلے ہی مسافروں کے لیے دیگر رعایتی سکیموں کا اعلان بھی کر چکی ہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگ اپنا حساب کتاب کریں گے اور میں نے بھی اپنا حساب لگایا، یہ میرے لیے مناسب نہیں۔‘کچھ لوگوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ اس سکیم سے ماحول کو نقصان پہنچانے والی پروازوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے لیکن سائمن کالڈر کے خیال میں اس کا اثر انتہائی کم ہو گا۔ سائمن کالڈر کا یہ بھی خیال ہے کہ وز ایئر کی کارکردگی پر ہونے والی تنقید بہت ہی زیادہ ہے۔’میں بہت سی ایئرلائنز پر سفر کرتا ہوں۔ اگر مجھے وقت پر پہنچنا ہے تو میں عام طور پر ریان ایئر کا انتخاب کرتا ہوں۔ مجھے وز ایئر اور ایزی جیٹ کافی حد تک ایک جیسی لگتی ہیں۔‘سائمن کالڈر نے مزید کہا کہ ’چیزیں خراب ہو جانے کے بعد وز ایئر کا بحالی کا عمل تاریخی طور پر بہت اچھا نہیں رہا لیکن وہ اب بھی ایسے ہزاروں مسافروں کے لیے ’معقول انتخاب‘ ہے جو اس کے ’آپ جتنا مرضی سفر کریں‘ کے آپشن کا انتخاب کر سکتے ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.