ایورسٹ سر کرنے والی پہلی خاتون جنکو تابئی کا پہاڑوں سے معاشقہ کبھی ختم نہیں ہوا
- منزہ انوار
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ شمالی جاپان کے چھوٹے سے گاؤں میں ایک پرنٹر کے گھر پیدا ہونے والی محض چار فٹ چھ انچ کی وہ ’کمزور سی لڑکی‘ جاپان میں عورتوں کے لیے رائج ثقافتی روایات کے برخلاف جا کر ایک دن دنیا کے سب سے بلند پہاڑ کو سر کرنے والی پہلی عورت بن جائِے گی۔
16 مئی سنہ 1975 میں جنکو تابئی ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچنے والی دنیا کی پہلی خاتون تھیں۔ اس وقت ان کی عمر 35 برس تھی۔
جس وقت جنکو نے ایورسٹ کو سر کیا اس وقت یمیکو ہیراکی کی عمر 18 برس تھی لیکن انھیں آج بھی اس وقت جاپان میں منایا جانے والا جشن اور وہاں کے لوگوں کی خوشی اچھی طرح یاد ہے۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے یمیکو کا کہنا تھا ’وہ ایک بہت بڑا جشن تھا۔ میں نے جنکو کی کامیابی کی خوشی میں جاری ہونے والا ایک بہت مہنگا فوٹو میگزین خریدا تھا۔
’میں ان سے بہت متاثر تھی اور بہت خوش بھی۔۔۔ خاص کر جب مجھے پتا چلا کہ وہ دنیا کی سب سے اونچی چوٹی سر کرنے کے لیے عورتوں پر مبنی ٹیم لے کر گئی تھیں۔۔۔ یہ میری سوچ سے بھی بہت آگے کی بات تھی کیونکہ اس وقت جاپان میں عورتوں کا کام گھروں میں رہ کر بچے پالنے تک محدود تھا۔۔۔ ہر عورت کی طرح جنکو کو بھی اسی قسم کے چیلینجز درپیش تھے۔‘
یہ بھی پڑھیے
جنکو اور یمیکو کی ملاقات سنہ 1975 میں ان کے سمٹ کرنے کے کئی سال بعد ہوئی۔ یمیکو ہیراکی نے جنکو تابئی کی ان کی زندگی پر مبنی کتاب (آنرنگ ہائی پلیسز: دا ماؤنٹین لائف آف جنکو تابئی Honouring High Places: The Mountain Life of Junko Tabei) لکھنے میں مدد کی۔
انھیں یاد کرتے ہوئے یمیکو بتاتی ہیں ’اگر آپ جنکو سے ملے ہوتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ وہ دکھنے میں ایک بہت عام سی، حاضر دماغ، حسِ مزاح رکھنے والی ملنسار خاتون تھیں لیکن ان کے اندر کچھ ایسا تھا جو انھیں دوسروں سے بہت ممتاز اور غیر معمولی بناتا تھا۔‘
یمیکو، جنکو کی کامیابی سے اتنی متاثر تھیں کہ انھوں نے وہ میگزین کئی برسوں تک اپنے ساتھ رکھا۔
’میں نے وہ میگزین دہائیوں تک اپنے ساتھ رکھا اور جب میں جنکو سے ملی، تو میں نے انھیں کہا کہ اس پر اپنا آٹوگراف دے دیں۔‘
جنکو تابئی سنہ 1939 میں شمالی جاپان کے میہارو علاقے میں پیدا ہوئیں۔ اس گاؤں میں زیادہ تر کاشتکار رہائش پذیر تھے۔ وہ اپنے سات بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھیں اور بچپن سے ہی ایک ’کمزور سی بچی‘ سمجھی جاتی تھیں مگر نو سال کی عمر میں کچھ ایسا ہوا جس نے جنکو کی زندگی بدل دی۔
ان کی ایک استانی پوری جماعت کو قریبی پہاڑوں کی سیر کروانے لے گئیں اور یہیں سے جنکو کا پہاڑوں کے ساتھ وہ ’عشق‘ شروع ہوا جس کا اختتام ان کی زندگی کے ساتھ ہی ہوا۔
بعد میں جنکو نے اس لمحے کو اپنی کتاب میں کچھ یوں بیان کیا: ’اُن پہاڑوں نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا۔۔۔ میرے جسم اور میری جلد پر ہونے والے اثرات میں کبھی بھلا نہیں پائی۔۔۔ ان لمحات میں مجھ پر ادراک ہوا کہ اس دنیا میں ابھی بہت کچھ ہے جسے مجھے دریافت کرنا ہے۔ اس دن پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر مجھے جو خوشی ملی، میں نے اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔‘
لیکن جنکو کے مہم جو بننے کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب انھوں نے ٹوکیو کی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔
گاؤں سے آنے والی وہ لڑکی ٹوکیو جیسے شہر میں رہتے ہوئے تناؤ کا شکار رہنے لگی، لہذا جنکو کے دوست انھیں ’ہائیکنگ‘ (مہم جوئی) پر لے گئے اور پہاڑوں نے ایک بار پھر سے نو برس کی عمر میں چوٹی پر پہنچ کر ملنے والی خوشی کو دوبارہ سے جنکو کے دل میں زندہ کر دیا۔
جنکو نے اپنی کتاب میں لکھا: ’اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی پہاڑ چڑھنے کی رفتار کتنی سست ہے۔ آپ ایک ایک قدم اٹھا کر بلاخر چوٹی تک پہنچ جاتے ہیں۔‘
’کوہ پیمائی سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ چاہے جیسی بھی مشکلات آ جائیں، وہاں کوئی متبادل موجود نہیں ہوتا۔۔۔ آپ کی جگہ آ کر کوئی دوسرا کھلاڑی نہیں کھیلے گا۔۔ آپ کو خود ہی اوپر تک چڑھ کر جانا ہو گا۔‘
جنکو لکھتی ہیں کہ میں نے نو سال کی عمر میں یہ سبق سیکھے اور پھر پوری زندگی ان پر عمل کیا۔
یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد جنکو تابئی سردیوں میں کوہ پیمائی سیکھنے گئیں۔ سنہ 1965 میں جب وہ ٹوکیو کے قریب تانیگاوا ڈیک سر کرنے گئیں، تو وہاں ان کی ملاقات مسانوبو تابئی سے ہوئی جو جاپان کے کوہ پیماؤں میں ایک معروف نام تھا۔ اپنی والدہ کے اعتراض (مسانوبو کالج سے تعلیم یافتہ نہیں تھے) کے باوجود جنکو تابئی نے 27 برس کی عمر میں مسانوبو سے شادی کر لی۔
اس وقت جاپان میں کوہ پیمائی کے کلبوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی عائد تھی لہذا سنہ 1967 میں جنکو نے خواتین کا کلائمبنگ کلب (جوشی توہان کلب) قائم کیا۔
اس سے اگلے برس وہ نیپال میں 7555 میٹر بلند انناپورنا تھری کی چوٹی تک پہنچنے والی پہلی خاتون بن گئیں اور سنہ 1971 میں انھوں نے تمام خواتین کی ٹیم کے ساتھ مل کر دنیا کے سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے کے لیے ’پرمٹ‘ (اجازت نامہ) کی درخواست دے دی۔
اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ایورسٹ مہم میں جنکو کی ساتھی سیٹسوکو کیٹامورا نے بی بی سی کو بتایا ’ہم خوش قسمت تھے۔۔۔ لوگ تو ہمیں کہتے تھے کہ یہ ناممکن ہے اور عورتوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ تم عورتوں کو گھر بیٹھنا چاہیے۔‘
سیٹسوکو کیٹامورا کو بھی کوہ پیمائی کا بہت شوق تھا۔ وہ صرف 24 سال کی تھیں جب انھوں نے جنکو سے پوچھا کہ کیا وہ بھی اس مہم میں شامل ہو سکتی ہیں؟ اور جنکو کا جواب تھا ’کیوں نہیں۔‘
جاپان میں عورتوں کے لیے کوہ پیمائی کے خواب دیکھنا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا، لہذا جنکو کی ہاں کے باوجود سیٹسوکو نے کافی عرصے تک یہ راز دل میں دبائے رکھا۔
سیٹسوکو بتاتی ہیں ’جاپانی معاشرہ بہت قدامت پسند تھا اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے والدین کی اطاعت کرنا پڑتی تھی۔ لہذا ایک لمبے عرصے تک میں نے اسے راز ہی رکھا اور کسی کو نہیں بتایا کہ میں ایورسٹ سر کرنے والی مہم میں شامل ہوں۔’
پرمٹ کے لیے درخواست دینے کے چار سال بعد 1975 کے موسمِ بہار میں آخر کار عورتوں کی اس ٹیم کو ایورسٹ سر کرنے کی اجازت مل گئی۔
یہ 15 خواتین کا گروپ تھا۔ اگرچہ انھیں کچھ سپانسرز ملے لیکن اکثر اوقات انھیں سننے کو ملتا ’اس سب کے بجائے تمھیں گھر بیٹھ کر بچوں کی پرورش کرنی چاہیے۔‘
لیکن جنکو نے ہمت نہیں ہاری، حتیٰ کہ مہم جوئی کا کچھ سامان جنکو تابئی کو خود اپنے ہاتھوں سے بنانا پڑا جن میں گاڑی کے غلاف سے واٹر پروف داستانے اور گھر کے پردوں سے ٹرائروز بنانا تک شامل تھا۔
ان کی دوست سیٹسوکو کہتی ہیں ’اس کا بچہ بہت چھوٹا تھا لیکن جنکو اسے سنبھالنے کے ساتھ ساتھ پیانو کی کلاس لیا کرتی تھیں۔ ان کے شوہر جو خود ایک بہترین کوہ پیما تھے، انھوں نے جنکو کی کافی مدد کی اور دونوں نے مل کر محنت سے ان کی ایورسٹ مہم کے لیے پیسے جمع کیے۔‘
اور آخرکار مئی 1975 میں ان 15 عورتوں نے چھ شرپاؤں کی مدد سے تاریخ رقم کرنے کے سفر کا آغاز کیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
عورتوں کی اس ٹیم نے اسی راستے کا انتخاب کیا جس سے مئی 1953 میں نیوزی لینڈ کے کوہ پیما ایڈمنڈ ہلیری اور ان کے نیپالی گائیڈ اور کوہ پیما تینزنگ نورگے نے پہلی بار دنیا کی بلندی ترین چوٹی ایورسٹ کو سر کیا تھا۔
لیکن چار مئی کو اس ٹیم کے ساتھ وہی حادثہ پیش آیا جو ایورسٹ چڑھنے والوں کا سب سے ڈراؤنا خواب ہے۔۔۔ برفانی تودے۔
یہ ٹیم جس وقت 6300 میٹر (20700 فٹ) کی بلندی پر تھی، تو برفانی تودے ان کے کیمپ پر آ گرے۔
اس لمحے سے متعلق جنکو نے اپنی کتاب میں لکھا: ’میں سانس نہیں لے پا رہی تھی، ایسے لگا کوئی بہت بھاری چیز مجھ پر آ گری ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔ میں کبھی سر کے بل تو کبھی منھ کے رخ ٹکرا رہی تھی۔۔ ٹینٹ کے ٹکڑے چیتھروں کی صورت ہوا میں اڑ رہے تھے۔۔۔ ایک لمحے کے لیے لگا جیسے میں مر چکی ہوں۔‘
جنکو اور چار دوسری کوہ پیما خواتین کو برف کھود کر نیچے سے بمشکل نکالا گیا۔ انھیں اتنی چوٹیں آئیں تھیں کہ وہ چل بھی نہیں پا رہی تھیں۔ جنکو کو ٹھیک ہونے میں دو دن لگے۔
ان کی ٹیم کے کچھ اراکین بیس کیمپ واپس لوٹنا چاہتی تھیں لیکن جنکو نے انکار کر دیا۔
اس خوفناک حادثے کے بعد کا وقت یاد کرتے ہوئے سیٹسوکو بتاتی ہیں ’جنکو نے زور دیا کہ ہم بیس کیمپ نہ لوٹیں اور چوٹی سر کرنے کا عمل جاری رکھیں کیونکہ وقت بہت کم تھا (کلائمنگ ونڈو۔۔۔ کسی بھی چوٹی کو سر کرنے کے لیے مناسب وقت)۔
جنکو کا کہنا تھا کہ اگر ہم نیچے گئے تو ایورسٹ سر کرنے کا موقع کھو دیں گے۔
سیٹسو کو بتاتی ہیں کہ عموماً نیپالی شرپا تودوں سے بہت ڈرتے ہیں لیکن چونکہ جنکو کا عزم اتنا پختہ تھا، شرپاؤں نے ہمارا ساتھ نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تاہم انھیں اپنا پلان تبدیل کرنا پڑا۔
اب ایورسٹ سر کرنے والی دو عورتوں کے بجائے انھوں نے صرف ایک ٹیم اوپر بھیجنے کا فیصلہ کیا اور وہ ٹیم جنکو تابئی اور ان کے ساتھ گائیڈ اور شرپا انگ سرنگ پر مشتمل تھی۔
سیٹسوکو کے مطابق اس وقت تمام خواتین نے ان کا ساتھ دیا۔ جس دن جنکو نے فائنل پش رفت یا چوٹی سر کرنے کے لیے اوپر چڑھنا شروع کیا، موسم بہت صاف تھا لیکن جس وقت وہ اور ان کے ساتھی شرپا سمٹ کے قریب پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ وہاں ایک ایسی برف کی باریک، انتہائی خطرناک ڈھلوان موجود ہے جس کا پچھلی مہمات کے دوران کسی نے کبھی ذکر نہیں کیا۔ جنکو اور انگ سرنگ نے رینگتے ہوئے اسے عبور کیا۔
بعد میں انھوں نے اسے اپنی زندگی کے سب سے پریشان کن تجربے کے طور پر بیان کیا۔
’بادل میرے نیچے سے گزر رہے تھے۔ بالکل ایسے جیسے میں جہاز میں سے انھیں دیکھ رہی ہوں۔ یہ احساس بہت خوشگوار تھا کہ میں ایک ایسی جگہ پر ہوں جہاں سے زیادہ اونچی جگہ دنیا میں موجود نہیں لیکن یہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہاں سے گر کر آپ سیدھا موت کی کھائی میں پہنچتے ہیں۔ ذہنی تناؤ سے شاید میں پاگل ہونے والی تھی لیکن اس سب کے باوجود ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔‘
اور بلاخر 16 مئی 1975 کو جنکو تابئی وہ پہلی عورت بن گئیں جنھوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ کو سر کر لیا۔
اس لمحے کو جنکو نے کچھ یوں بیان کیا: ’جب میں نے دونوں ممالک (جاپان اور نیپال) کے جھنڈے اٹھائے انگ سرنگ کی تصویر لینے کی کوشش کی تو اس لمحے پہلی مرتبہ مجھے اپنے کارنامے کا احساس ہوا کہ میں ایسی جگہ کھڑی ہوں جہاں سے زیادہ اونچا کوئی مقام اس پوری دنیا میں موجود نہیں اور یہ احساس انتہائی خوشگوار تھا۔‘
سیٹسوکو اس وقت بیس کیمپ میں تھیں جب انھوں نے واکی ٹاکی پر یہ خبر سنی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اس لمحے کو کبھی بھلا نہیں سکتی۔ انھوں نے جنکو کو ایورسٹ سر کر کے نیچے آتے بھی دیکھا۔
سیٹسوکو بتاتی ہیں کہ اس سے قبل انھوں نے جنکو کو اتنا تھکا ہوا کبھی نہیں دیکھا تھا۔
’جنکو نے بہت آہستہ رفتار سے گلیشئیر پار کیا اور وہ اتنا تھکی ہوئی تھیں کہ بیس کیمپ کے قریب پہنچ کر وہیں رک کر بیٹھ گئیں۔ دوسری جانب ہم سب بہت پُرجوش تھے لیکن جنکو کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘
جب اس ٹیم نے کھٹمنڈو کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا تو سیٹسوکو کے مطابق آس پاس کے گاؤں سے لوگ ہاتھوں میں پھل اور پھول اٹھائے اس عورت کو دیکھنے اُمڈ آئے جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایورسٹ کو سر کر لیا تھا۔ جاپان پہنچ کر ان کا بہت شاندار استقبال ہوا۔
جنکو کی کتاب کا ترجمعہ کرنے والی یمیکو ہیراکی کہتی ہیں کہ جنکو اتنی منکسرالمزاج خاتون تھیں کہ کئی سال بعد جا کر ان پر یہ حقیقیت کھلی کہ انھوں نے کتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے اور جاپانی معاشرے اور جاپان کی نوجوان خواتین کو کیسے متاثر کیا ہے۔
سیٹسوکو بتاتی ہیں کہ ’مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جنو کے ایورسٹ سر کرنے کے بعد کسی میں ہمت نہیں تھی کہ ہمیں چپ رہنے کا کہتا۔ ہم عورتوں کا جو دل چاہتا ہم وہ کر سکتی تھیں اور کوئی ہمیں روک نہیں سکتا تھا۔‘
جنکو تابئی صرف ایورسٹ سر کرنے والی پہلی خاتون ہی نہیں تھیں بلکہ انھوں نے ریکارڈ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور سنہ 1992 میں جنکو، سیون سمٹ (دنیا کے سات براعظم کی بلند ترین چوٹیاں جن کی تعداد نو ہے) سر کرنے والی بھی دنیا کی پہلی خاتون بن گئیں۔
ان کو صرف پہاڑ سر کرنے کا ہی شوق نہیں تھا بلکہ وہ ان پہاڑوں کی صفائی کے لیے چلائی جانے والی مہمات کا بھی حصہ تھیں۔
جنکو کا پہاڑوں سے معاشقہ ان کی موت سے چند ماہ پہلے تک جاری رہا اور سنہ 2016 میں کینسر سے لڑتے ہوئے وہ وفات پا گئیں۔
Comments are closed.