اپوزیشن قائدین نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے لیے 172 سے زائد ارکان لانے کا دعویٰ کردیا۔
اسلام آباد میں مسلم لیگ(ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) اور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مشترکہ نیوز کانفرنس کی۔
میڈیا سے ابتدائی گفتگو میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کی بات راز میں رکھی گئی، جس کی پاسداری سب نے کی۔
انہوں نے کہا کہ قرضے لے کر ہماری نسلوں کو بھی گروی رکھ دیا گیا ہے، جو تختیاں لگائی گئیں انہیں اکھاڑ کر یہ دوبارہ لگاتے ہیں۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ ہمارے اچھے برے وقت میں ساتھ دینے والوں کو ناراض کردیا گیا، چین جیسے دوست کو ناراض کرنا کہاں کی خارجہ پالیسی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کے سی پیک منصوبے پر اپنے اپوزیشن دور میں تنقید کی، جو زبان استعمال کی گئی اس کا ایک لفظ بھی یہاں کہنا زیب نہیں دیتا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر نے یہ بھی کہا کہ میلسی میں تقریر کرکے خواہ مخواہ یورپی یونین کو ناراض کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو ہٹانے کا فیصلہ ہم سب نے اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کےلیے کیا ہے۔
اس موقع پر پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے ہم سب کی ترجمانی کی ہے، ہم اپنے مؤقف کے حوالے سے قوم کے سامنے شرمندہ نہیں۔
فضل الرحمان نے کہا کہ انہوں نے این جی اوز کے ذریعےمغربی تہذیب کو فروغ دینےکی کوشش کی، ہم نے تب ہی کہہ دیا تھا کہ یہ بیرونی ایجنڈے پر ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ سال 2018 کے انتخابات کے بعد ایک ہفتے میں متفقہ مؤقف بنالیا تھا، عام انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا، مارچ اس جدوجہد کا تسلسل ہے جس نے قوم میں شعور بیدار کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے تمہاری اس وقت کی گفتگو کو بھی نمائش سمجھا تھا، دھوکا دھوکا ہی ہوتا ہے، ہم جانتے ہیں، ہم تمہاری اصلیت کو جانتے ہیں، تمہارے ذہن کی خباثتوں اور غلاظتوں کو جانتے ہیں۔
پی ڈی ایم سربراہ نے یہ بھی کہا کہ امریکا کی مخالفت میں بات ہو رہی ہے، یورپ سے متعلق باتیں ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملکی مفاد پر اپوزیشن متحد ہے، عمران خان مقبول نعروں کا سہارا مت لو ،آپ جلسے میں ہمیں گالیاں دے رہے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی گفتگو میں کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اپوزیشن نے سوچا اب نہیں تو کبھی نہیں۔
صحافی نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو ووٹوں کی تعداد حوالے سے ہوئیں ناکامیوں کا تذکرہ کیا اور اپنے پورے ارکان ایوان لانے سے متعلق استفسار کیا۔
اس کا جواب دیتے ہوئے سابق صدر نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ میں 172 سے زائد ارکان لائیں گے، پی ٹی آئی کے اپنے لوگ ان سے نالا ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحافی چاہ رہے ہیں کہ میں انہیں ارکان کی تعداد بتادوں، پوچھتا ہوں کہیں توآپ کو سب کے نام ہی نہ بتادوں؟ اس پر پورا ہال قہقہے سے گونج اٹھا۔
آصف علی زرداری نے مزید کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کیا، جسے پہلے بغیر مدد کے ایسا کیا ایسا ہی اب بھی کریں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ میں نے صدر مملکت کے پاس وہ اختیار ہی نہیں چھوڑا کہ وہ اسمبلی تحلیل کردیں۔
پریس کانفرنس کے آغاز میں آصف علی زرداری نے پریس کانفرنس میں تاخیر سے پہنچنے پر صحافیوں سے معذرت کی۔
Comments are closed.