سابق پیشہ ور مکے باز ہاکامادا پر سنہ 1966 میں شیزواوکا میں سویا بین پروسیسنگ فیکٹری میں اپنے باس اور اس کے اہل خانہ کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس کے کنبے کے افراد آتشزدگی کے بعد چاقو کے زخم سے ہلاک پائے گئے تھے۔ہاکامادا نے اس وقت 20 دنوں کی تفتیش کے بعد اقبال جرم کر لیا تھا جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کے دوران ان کو مارا پیٹا گیا تھا۔ بعد میں وہ عدالت میں اپنے بیان سے منحرف ہو گئے تھے۔جاپان کی پولیس روایتی طور پر اقبال جرم پر مقدمہ چلاتی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اکثر و بیشتر یہ بیان زبردستی لیے جاتے ہیں۔اس فیصلے سے جاپان کا سب سے طویل اور مشہور مقدمہ اپنے انجام کو پہنچا ہے۔
2014 میں ہاکامادا کو ان کے خلاف مقدمے کے ’ری ٹرائل‘ کا حکم آنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ اپنی بگڑی ہوئی ذہنی حالت کی وجہ سے اپنی بہن کے پاس رہ رہے ہیں۔اس وقت عدالت نے ان پر دوبارہ مقدمہ چلانے کی اجازت ان شکوک کی بنیاد پر دی تھی کہ مقدمے کے تفتیش کاروں نے جعلی ثبوت پیش کیے جو چار افراد کے قتل کی سزا کی وجہ بنے۔ ہاکامادا کے وکلا نے یہ ثابت کیا تھا قاتل کے لباس پر خون کے دھبوں سے ملنے والا ڈی این اے ان کے موکل کا نہیں تھا۔،تصویر کا ذریعہAFP
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.