اینگلو انڈین نوجوان اپنے یورپی اجداد کا کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں
- مصنف, چیریلین مولان
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ممبئی
روشیل بیری اپنے خاندان کے ماضی کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کر رہی ہیں
روشیل بیری سکول میں خود کو بیگانہ محسوس کرتی تھیں۔
اکثر ان کے نام کی املا اور تلفظ غلط طور پر کیا جاتا تھا، اور روانی کے ساتھ انگریزی بولنے کی وجہ سے وہ ممبئی کے اس سکول میں اپنے ان ہم جماعتوں سے الگ تھلگ نظر آتی تھیں جو ہندی یا مراٹھی زیادہ آسانی سے بولتے تھے۔
یہ ہی سبب تھا کہ انھیں مختلف طرح کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جیسا کہ: آپ کہاں سے ہیں؟ کیا آپ کے خاندان کا تعلق انڈیا سے ہے؟ اینگلو انڈین کون ہوتا ہے؟
آخری سوال کا جواب دینا سب سے مشکل تھا، اس لیے وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتیں اور یوں انھیں خود کو عوامی سطح پر اپنی شناخت کے اس ’بنیادی پہلو‘ سے خود کو دور رکھنا پڑا۔
اینگلو انڈین کی اصطلاح سے عام طور پر برطانوی اور ہندوستانی والدین کے افراد مراد لیے جاتے ہیں۔ لیکن قانونی طور پر اس کا مطلب وہ انڈین شہری ہیں جو والد کی طرف سے یورپی نژاد ہوں۔ جس کا مطلب ہے کہ ان کے آباؤ اجداد برطانوی، فرانسیسی یا پرتگالی ہوسکتے ہیں، جو انڈین نوآبادی کی طویل تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔
30 سالہ بیری اپنے والد کی طرف سے فرانسیسی نسل سے تعلق رکھتی ہیں اور والدہ کی طرف سے برطانوی ہیں ۔ مگر اپنی شناخت سے متعلق اب بھی ان کے ذہن میں کئی سوال ہیں اور یہ کہ وہ صحیح معنوں میں کون ہیں۔
ان کا کہنا ہے: ’لیکن اب میں زیادہ مطمئن ہوں اور اپنے نسب کے بارے میں مزید جاننا چاہتی ہوں۔‘ اس لیے وہ اینگلو انڈین کے ایک فیس بک گروپ میں شامل ہو گئی ہیں، جہاں وہ کمیونٹی اور اس کی ثقافت کے بارے میں سوال پوچھتی ہیں۔
بیری ان کئی نوجوان اینگلو انڈین میں شامل ہیں جو اپنی جڑوں کے بارے میں مزید جاننے اور اپنی کمیونٹی کی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ انھیں بھلا دیا جائے گا۔
کچھ لوگ اپنے خاندان کی تاریخ پر تحقیق کر رہے ہیں اور اسے دستاویزی شکل دے رہے ہیں، اور طویل عرصے سے کھوئے ہوئے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات بحال کر رہے ہیں۔ کئی دوسرے مشترکہ یادوں اور کھانے پکانے کی پرانی ترکیبوں کو محفوظ کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ اس عمل میں وہ منتشر، گھٹتی ہوئی کمیونٹی کے اندر اپنائیت کے احساس کو فروغ دینے کے نئے طریقے بھی تلاش کر رہے ہیں۔
مونا بِیٹی اور ان کے شوہر مائیکل اپنے شجرۂ نسب کا پتا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ 1947 میں انگریزوں کے انڈیا چھوڑنے کے بعد سے اینگلو انڈینز کی تعداد میں بتدریج کمی آئی ہے، لیکن کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں جو اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ انڈیا میں 2011 میں ہونے والی آخری مردم شماری میں صرف 296 اینگلو انڈین شہریوں کا ذکر ہے۔ اس تعداد کو کمیونٹی کے کئی ارکان ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہیں۔
آل انڈیا اینگلو انڈین ایسوسی ایشن کی گورننگ باڈی کے رکن کلائیو وان بیورلے کا کہنا ہے کہ ان کے اراکین کی تعداد سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں تقریباً ساڑھے تین سے چار لاکھ اینگلو انڈین ہیں۔
بہت سے لوگ خاص طور پر 1947 میں انڈیا کی آزادی کے بعد انگلستان، آسٹریلیا اور کینیڈا جا کر آباد ہوگئے۔ بعد کی دہائیوں میں بہت سوں نے کمیونٹی سے باہر شادیاں کر لیں اور یوں ان کی الگ ثقافتی شناخت کمزور پڑ گئی۔
اینگلو انڈین کمیونٹی کی تاریخ کا پتہ 16ویں صدی میں ملتا ہے، جب پرتگالیوں نے انڈیا کے کچھ حصوں کو نوآبادی بنایا تھا۔ مصنف بیری اوبرائن اپنی کتاب ’دی اینگلو انڈینز: اے پورٹریٹ آف اے کمیونٹی‘ میں لکھتے ہیں کہ پرتگالیوں نے فوجیوں کو مقامی خواتین سے شادی کرنے کی ترغیب دی تاکہ’ایک ایسی کمیونٹی تشکیل دی جا سکے جو نوآبادکاروں کے ساتھ وفادار ہو، لیکن کالونیوں میں رہنے میں کوئی دشواری محسوس نہ کرے۔‘ بعد میں انگریزوں نے بھی یہی حکمت عملی اپنائی۔
ماہر تعلیم میرین سیمی راج کہتی ہیں، ’اینگلو انڈین شناخت مشرقی اور مغربی ثقافتوں کے اس امتزاج سے پیدا ہوئی۔‘
لیکن ثقافتوں کا یہ ملاپ بھی بے چینی اور بیگانگی کا ایک ذریعہ رہا ہے۔
میرین کہنا ہے کہ ’تاریخی طور پر انگریزوں نے اس برادری کے ساتھ ان کی جلد کے رنگ اور مخلوط نسل ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا تھا۔ جبکہ تاج برطانیہ سے وفاداری کی وجہ سے مقامی انڈین بھی انھیں شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔‘
بیگانگی کا یہ احساس ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے ۔ اینگلو انڈین اس وقت ناراض ہو گئے تھے جب 2019 میں ان کی دو پارلیمانی نشستوں کا کوٹہ ختم کر دیا گیا تھا۔
وان بیورل کہتے ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ آپ کی حکومت آپ کی شناخت کو تسلیم نہیں کرتی۔‘
یہ بھی پڑھیے
اینگلو انڈین ایسوسی ایشنز جہاں سیاسی نمائندگی کی وکالت کرتی ہیں، وہیں بیری جیسے افراد آن لائن رشتہ داری اور یکجہتی پیدا کر رہے ہیں۔
بیری کا کہنا ہے کہ ان کی پرورش ایک ’پکے اینگلو انڈین گھر‘ میں ہوئی، جہاں انھوں نے کنٹری میوزک سٹار مرلے ہیگرڈ اور بک اوونز کو سنا اور کوفتے، ناریل چاول اور چٹنی کھائی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ پھر بھی وہ اپنی برادری کے بارے میں، نوآبادیاتی پکوانوں کی ترکیبوں اور اپنے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش مند ہیں۔
بریجیٹ وائٹ کمار، جنھوں نے پکانے کی تراکیب پر مشتمل کئی کتابیں لکھی ہیں، کہتی ہیں کہ بہت سے نوجوان اینگلو انڈین کھانا بنانے کے لئے ’آسان اور سادہ طریقوں‘ کی تلاش میں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اینگلو انڈین کمیونٹی نے انڈین کھانوں سے سیکھا بھی ہے اور اس میں اپنا حصہ بھی ڈالا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ترکیبوں کو محفوظ بنائیں اور انھیں نوجوان نسل تک پہنچائیں۔‘
بریجیٹ وائٹ کمار نے اینگلو انڈین پکوانوں کے بارے میں کئی کتابیں تصنیف کی ہیں
بہت سے لوگ اپنے شجرۂ نسب پر تحقیق کرکے اپنی شناخت کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بنگلور سے تعلق رکھنے والی مونا بِیٹی اور ان کے شوہر مائیکل جینیالوجی یا نسب نامے سے متعلق ویب سائٹوں پر جا کر پیدائش، موت اور شادی کے سرٹیفیکیٹ جیسے پرانے ریکارڈ تلاش کرتے ہیں اور فوجی دفاتر، گرجا گھروں، قبرستانوں اور پرانے نوآبادیاتی بنگلوں کا دورہ کر کے معلوم کرتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کہاں رہتے تھے، کیا کام کرتے تھے اور کہاں دفن ہیں۔
بِیٹی کا کہنا ہے کہ اس تلاش نے انھیں دنیا بھر میں اپنے خاندان کے افراد سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے میں مدد دی ہے اور اب انھوں نے ’فائنڈنگ دا بِیٹیز‘ کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا ہے۔
مارسیلے بریٹو کو اس سے اپنی ماں کے منفرد بچپن کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ ان کی والدہ کی، جو اپنے والد کی طرف سے آئرش نسب رکھتی ہیں، زندگی ان سے بالکل مختلف تھی۔ وہ ایک بڑے نوآبادیاتی بنگلے میں درجنوں نوکروں کے ساتھ پلی بڑھی، اور انھیں چائے کی پارٹیوں اور بال روم رقص میں مدعو کیا جاتا تھا۔
بریٹو سنہ 1700 تک اپنے نسب کا سراغ لگانے میں کامیاب رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میری والدہ کی کہانیاں اور میری اپنی مخلوط شناخت اب زیادہ معنی رکھتی ہے۔‘
وین بیورل کہتے ہیں کہ چند دہائیاں پہلے تک اینگلو انڈین اپنے نسب کے بارے میں جاننا چاہتے تھے کیونکہ اس سے انھیں بیرون ملک ہجرت کرنے میں مدد ملتی تھی۔ لیکن انڈیا میں کمیونٹی کے کامیابی سے ضم ہونے کے ساتھ اب لوگ اتنی تعداد میں انڈیا نہیں چھوڑ رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کسی کے نسب اور شناخت کی جستجو اب ثبوت حاصل کرنے کے لیے نہیں کی جاتی بلکہ اپنے خاندانی ورثے کی پہچان کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ اپنی ذات اور تاریخ کے بارے میں مزید جاننے کا ایک دلچسپ سفر ہے۔‘
سسیلیا ابراہم کے دادا ان (سسیلیا) کی پھوپھی کی شادی کے موقع پر
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی 47 سالہ سسیلیا ابراہم ’اینگلو انڈین سٹوریز‘ کے نام سے سوشل میڈیا پر ایک پروجیکٹ چلاتی ہیں، جہاں لوگوں کو فیملی کی تصاویر اور پرانی یادیں شیئر کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
سسیلیا کہتی ہیں کہ اگرچہ ان کی پرورش ’اینگلو انڈین‘ تھی لیکن وہ اپنے نسب کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھیں۔ ان کے والد نے خود کو ’انڈین مسیحی‘ کہنے کو ترجیح دی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس کمیونٹی کے بارے میں دقیانوسی تصورات میں سے ایک یہ ہے کہ اینگلو انڈین بہت زیادہ شراب پیتے ہیں اور پارٹی کرتے ہیں اور زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ میرے والد نہیں چاہتے تھے کہ ہمیں اس نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے۔‘
اس پروجیکٹ میں حصہ لینے والوں نے اپنے خاندانوں کے انڈیا کی ریلوے اور فوج کے ساتھ تعلقات اور آزادی سے پہلے اور بعد کی زندگی کے بارے میں بتایا ہے۔ کچھ لوگ قریبی رشتہ داروں سے رابطہ ٹوٹ جانے کے کرب کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
سسیلیا کو توقع ہے کہ ان کے پروجیکٹ سے لوگ اپنی شناخت پر فخر کر سکیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب ہمیں کوئی چیز پسند آتی ہے، تو ہم اس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ہم اس کا خیال رکھتے ہیں۔ اور اس طرح ثقافت سمیت دوسری باتیں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ ہو جاتی ہیں۔‘
Comments are closed.