تحریک انصاف کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف اینٹی کرپشن مقدمے کے ڈسچارج کا تحریری فیصلہ سامنے آگیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ ریحان الحسن نے تحریری حکم جاری کیا۔ جس میں کہا گیا کہ پرویزالہٰی کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جاتا ہے، ملزم کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں تو فورا رہا کردیا جائے۔
تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ڈسچارج کا مطلب بریت نہیں کیونکہ بریت ٹرائل کورٹ کی مرضی ہوتی ہے۔ ٹرائل کورٹ کو مکمل اختیار ہے کہ ملزم کو ڈسچارج ہونے کے باوجود ٹرائل کےلیے طلب کرلے۔
عدالت نے کہا کہ مقدمے کا اندراج ایل ڈی اے نہیں بلکہ سرکل آفیسر اینٹی کرپشن کے کہنے پر ہوا، ایل ڈی اے نے ہی ماسٹر پلان 2050 شروع کیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ سرکاری وکیل اور تفتیشی افسر نے تسلیم کیا کہ ملزم نے کسی کمپنی، ادارے کو نقصان نہیں پہنچایا، جب نقصان نہیں پہنچا تو سوال ہے کہ متاثر کون ہوا؟
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سرکاری وکیل، ڈپٹی ڈائریکٹر اور تفتیشی افسر نے تسلیم کیا کہ ان افسران میں سے کسی کو ملزم نہیں بنایا۔ جنہوں نے ماسٹر پلان بدلا وہ آزاد ہیں اور جس کا براہ راست کردار نہیں وہ حراست میں ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اینٹی کرپشن کا ضابطہ اور قانون ہے، ایف آئی آر سے پہلے انکوائری کی جاتی ہے، کوئی انکوائری نہیں کی گئی بلکہ جلدی میں مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بظاہر ملزم کو اس مبینہ جرم سے ملانے کےلیے کوئی مواد موجود نہیں۔
کیس میں پرویز الہٰی کی پیروی رانا انتظار حسین نے کی، اس موقع پر عدالت نے پرویز الہٰی کا ایک روزہ سفری ریمانڈ بھی منظور کیا۔
اینٹی کرپشن نے استدعا کی کہ پرویز الہٰی کو اڈیالہ جیل واپس پہنچانا ہے، جہاں پہنچتے ہوئے آدھی رات ہوجائے گی۔
اینٹی کرپشن نے استدعا کی کہ پرویز الہٰی کو شام کے وقت ڈسچارج کیا گیا ہے، جیل کے اوقات میں نہیں پہنچایا جاسکتا۔
Comments are closed.