اینالینا بئربوک: وہ خاتون جو جرمنی کی اگلی سربراہ بن سکتی ہیں
- ڈامیان میک گینیس
- بی بی سی نیوز، برلِن
اپنی چار دہائیوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جرمنی کی ’گرینز‘ کہلانے والی ماحولیات دوست سیاسی جماعت گرین پارٹی نے چانسلر کے عہدے کے لیے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان کیا ہے۔
اس طرح یہ بھی ایک تاریخی پیشرفت ہے کہ گرینز اس برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں ایک مرکزی کردار اد کرے گی۔
پیر کو گرین پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ چالیس برس کی اینالینا بئربوک ستمبر کے انتخابات میں موجودہ چانسلر اینگلا مرکل کے متبادل کے طور پر انتخابات میں حصہ لیں گی۔
توقع ہے کہ چانسلر کے عہدے کے مقابلے کی اگلی دوڑ میں بئربوک واحد خاتون امیدوار ہوں گی۔
گرینز جو کبھی ’ہِپیوں‘ جیسی لمبی لمبی داڑھیاں رکھنے والے بے ڈھّبی سی جوتیاں پہنے والے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے تھے، اب ممکن ہے کہ وہ آئندہ حکومت میں حصے دار ہوں۔
ایک ایسے پس منظر میں جب دائیں بازو کی قدامت پسند اس وقت امیدوار پر عدم اتفاق کی وجہ سے افراتفری کا شکار ہیں، گرین پارٹی نئے اتحاد میں ایک سب سے بڑی جماعت بن کر ابھر سکتی ہے۔
اس پیشرفت کا مطلب یہ ہو گا کہ اینالینا بئربوک جرمنی کی اگلی چانسلر ہوں گی اور اُن کا ابھی سے ہی نیوزی لینڈ اور فِن لینڈ کی جوان وزرائے اعظم سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
بئربوک سنہ 1980 میں پیدا ہوئی تھیں، یہ وہی سال ہے جب ان کی جماعت کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ اُن کے والدین جوہری ہتھیاروں کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں انھیں اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔ وہ اپنے بچپن میں مظاہرین پر پانی کی طاقتور دھار سے انھیں منتشر کرنے کے واقعات کو یاد کرتی ہیں اور پھر گھر پہنچ کر انھیں کھانے کو کیک ملتا تھا۔
یہ ایک قسم کا اُس زمانے کے ایک متمول اور آسودہ متوسط طبقے کا انقلابی انداز پیش کرتا ہے جو بالآخر گرین پارٹی کی صورت اختیار کرتا ہے اور آج کے دور میں اس کی عوامی مقبولیت کی وجہ بیان کرتا ہے۔
رائے عامہ کے ایک تازہ ترین جائزے کے مطابق، ملک کے 22 فیصد ووٹ گرین پارٹی کے حامی ہیں، جو کے اینگلا مرکل کی قدامت پسند جماعتوں کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین اور کرسچیئن سوشل یونین کے اتحاد کے بعد دوسری بڑی جماعت بنتی ہے۔
رابرٹ ہایبک اور اینالینا بئربوک گرین پارٹی کے مشترکہ امیدوار ہیں۔
قدامت پسند جماعتوں کے اتحاد کی مقبولیت گزشتہ گرمیوں کے موسم میں 40 فیصد تھی جب ملک میں وبا کی حالت قدرے بہتر تھی، اب یہ مقبولیت کم ہو کر 29 فیصد رہ گئی ہے۔
بعض دیگر رائے عامہ کے جائزوں نے قدامت پسندوں کی مقبولیت اس سے بھی کم دکھائی گئی ہے جن میں ان کی مقبولیت گرین پارٹی سے صرف چار یا پانچ فیصد زیادہ ہے۔ بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی چند ماہ سے نوجوانوں میں مقبول ہے۔ اس کے علاوہ دیگر چھوٹی بڑی جماعتیں 10 فیصد یا اس سے کم ووٹوں کی حمایت رکھتی ہیں۔
قدامت پسند جماعتوں، کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین اور کرسچیئن سوشل یونین، کے لیے حالات کے اس سے بھی زیادہ خراب ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ موجودہ منفی جائزے ان کے اندر جاری اُس کشمکش پر بات نہیں کر رہے ہیں جو ان کے چانسلر کے امیدوار پر عدم اتفاق کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
اب جبکہ ’ایلفا میل‘ یعنی مردانہ برتری والے سیاسی نظریات رکھنے والے قدامت پسند، پارٹی کی قیادت کے لیے ایک دوسرے سے لڑائی میں اپنے آپ کو تباہ کرنے میں الجھے ہوئے ہیں تو گرین پارٹی نے بہت خاموشی کے ساتھ چانسلر کے لیے اپنے امیدوار کا انتخاب کر لیا ہے۔ جس طرح روس میں خفیہ انداز میں فیصلے لے لیے جاتے ہیں، اُسی خفیہ انداز میں پیر تک اس بارے میں گرین پارٹی نے کوئی باقاعدہ اعلان ہی نہیں کیا تھا کہ وہ اپنے امیدوار کے انتخاب کے لیے غور کر رہی ہے۔
گرین پارٹی کی نئی قیادت نے اپنی جماعت پر ایک سخت انداز کا پارٹی ڈسلپن نافذ کیا ہوا ہے اور اس میں اقتدار میں آنے کا ایک جوش ہے جس پر جرمنی کی تاریخ کے ایک قوم پسند رہنما بسمارک شاید فخر کرتے۔
یہ جماعت اپنے ابتدائی دنوں کی نسبت اب کافی بدل چکی ہے
لیکن ایک بات ہے کہ گرین پارٹی میں عموماً تمام معاملات بہت آسانی سے طے نہیں کر لیے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر قدامت پسند جماعتیں بہت منظم رہی ہیں جبکہ گرین پارٹی میں کافی افراتفری دیکھنے میں آتی رہی ہے۔
گرین پارٹی کے یومِ تاسیس کی تقریبات کی ویڈیوز دیکھنے سے لگتا ہے جیسے کسی سٹوڈنٹس یونین کا کوئی اجلاس ہو، جس میں بکھرے بالوں والے نوجوان جدید طرز کی قمیضیں اور جیکٹیں پہنے جذباتی نعرے بازی کر رہے ہوں۔
یہ جماعت اپنی تاریخ میں دو گروہوں میں تقسیم رہی ہے جن میں ایک گروہ تو ان پر مشتمل ہے جو ’ریالوز‘ یعنی حقیقت پسند ہیں، جو یہ چاہتے ہیں معاشرے میں اپنے آپ کو مقبول بنانے کے لیے کچھ سمجھوتے کرنا درست ہے جبکہ دوسرا گروہ جو ’فنڈیز‘ کہلاتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اصولوں پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے کو پارٹی کو فروخت کرنے کے مترادف کہتے ہیں۔
گرین پارٹی سنہ 1998 میں پہلی مرتبہ اُس وقت اقتدار میں آئی تھی جب یہ بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے جونیئر پارٹنر کے طور پر مخلوط حکومت میں شامل ہوئی تھی۔
گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ خارجہ جوشکا فِشر سے ابھی حال ہی میں صحافیوں نے سوال کیا تھا کہ کیا ’میسلی‘ (سوکھے پھلوں اور خشک میوے کو دودھ میں ملا کر بنائی ہوئی ناشتے کی صحت مند غذا) کھانا لازمی قرار دیا جائے گا۔
گرین پارٹی کے اندر ’ریالوز‘ نے کامیابی حاصل کر لی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد مفاہمت اور اصولوں پر سمجھوتے کرنے کی لڑائی میں شدت آ گئی۔ سنہ 1999 میں جوشکا فِشر پر اُس وقت پینٹ کی ایک بالٹی پھینک دی گئی تھی جب انھوں نے کہا تھا کہ وہ نیٹو کی فضائیہ کی کسووو پر بمباری کی حمایت کریں گے۔
ان دونوں دھڑوں کے درمیان قومی سیاسی منظر نامے میں کشیدگی کئی دہائیوں تک جاری رہی جس کے نتیجے میں گرین پارٹی منقسم رہی اور افراتفری کا شکار رہی۔
تاہم جرمنی میں ریجنل یا صوبائی حکومتوں میں گرین پارٹی کی عملیت پسند اور کامیاب قیادت نے ثابت کیا ہے کہ وہ اب اپنے ملک کو ایک موثر حکمرانی دے سکتی ہے۔ ے۔
گرین پارٹی کے لیڈر وِن فرائیڈ کرٹشمین
سنہ 2011 میں جرمنی کے امیر صوبے بادن۔ورتھمبرگ نے گرین پارٹی کے ایک لیڈر وِن فرائیڈ کرٹشمین کو پہلی مرتبہ سربراہ منتخب کیا تھا۔ اقتصادی عملیت پسندی اور ماحولیاتی اقدار سے مضبوط وابستگی کے درمیان ایک توازن کی بدولت وہ نہ صرف کافی عرصے تک اقتدار میں رہے ہیں بلکہ اپنے صوبے میں مقبول بھی رہے۔
تین برس قبل گرین پارٹی نے مس بئربوک اور رابرٹ ہابیک کو مشترکہ قیادت کے طور پر منتخب کیا، دونوں ہی ’ریالوز‘ ہیں تاہم ان دونوں میں ایک زبردست خصوصیت ہے وہ یہ کہ دونوں اپنی جماعت کے دونوں دھڑوں کو اپنے ساتھ ملا کر پارٹی کو متحد رکھتے ہیں۔ اب جس طرح گرین پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کی مخالفت کمزور ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود ان کا اقتدار تک پہنچنے کا سفر آسان نہیں ہو گا۔
گرین پارٹی مقبول زیادہ ہوتی ہے لیکن عموماً انتخابات میں اچھی کارکاردگی دکھانے میں ناکام ہوتی ہے۔ ووٹروں میں ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ اقدار سے جڑے رہنا پسند کرتے ہیں اور اسی لیے وہ گرین پارٹی کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔ لیکن جب ووٹ ڈالنے کا وقت آتا ہے تو روایتی وفاداریاں اور اقتصادی خاشات اُن کی رائے کو متاثر کرتے ہیں۔
گرینز کو اس وقت ہر طرف سے حملوں کا سامنا ہو گا۔ بائیں بازو والے انھیں اشرافیہ بورژوزی ہونے کے طعنے دیں گے جنھیں مزدوروں کے حقوق سے زیادہ مہنگے قسم کے ’سویا لاٹے‘ جیسے صحت مند مشروبات کا زیادہ خیال ہوتا ہے۔ دائیں بازو والے ان کے بارے میں یہ بات کہیں گے کہ یہ لوگ ماحولیات کے تحفظ کے نام پر جرمن کار انڈسٹری اور کبابوں پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔
لیکن 16 برس کے اینگلا مرکل کے اقتدار کے دوران اُن کی ماحولیات دوست پالیسیوں کے پس منظر میں مثلاً وہ جرمنی میں جوہری اور کوئلوں سے چلنے والے بجلی گھر ختم کر رہی ہیں۔۔۔ جرمنی میں اب کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ اب سیاسیت میں مرکزی مسئلہ ماحولیات دوستی ہے اور گرین پارٹی سب سے زیادہ ماحول دوست جماعت ہے اور اب ماحولیات کے خلاف باتیں کرنا متروک ہوتا جارہا ہے بلکہ ووٹر ایسی باتوں پر برا مناتے ہیں۔
سیاست کوئی بھی رخ اختیار کرے، گرین پارٹی اس وقت یکسوئی کے ساتھ اقتدار پر نظر جمائے بیٹھی ہے۔ اب کوئی بھی میسلی کا مذاق اُڑاتا نظر نہیں آئے گا۔
Comments are closed.