متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر بحری امور فیصل سبزواری نے عمران خان حکومت میں شامل ہونے سے متعلق اہم انکشاف کردیا۔
جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل سبزواری نے کہا کہ عمران خان کے دور میں ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل رکھنے کیلئے بلیک میل کیا جاتا تھا ایم کیو ایم حکومت سے علیحدہ ہوئی تو 7 کارکنوں کو گرفتار کر کے ٹارچر کیا گیا ایم کیو ایم حکومت میں واپس آگئی۔
فیصل سبزواری نے کہا کہ ایم کیو ایم مرضی سے عمران خان کی کابینہ میں واپس نہیں گئی تھی، دسمبر 2019 میں خالد مقبول نے عمران خان کی کابینہ سے استعفیٰ دیا تھا، اس کے بعد ہمارے مارچ تک مذاکرات جاری رہے۔
رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ اچانک ہمیں "حکم” دیا گیا کہ دوبارہ عمران خان کی کابینہ جوائن کرلیں، ہم نے پوچھا کہ مطالبات حل ہوئے بغیر کیسے کابینہ میں شامل ہوں، جواب میں ایم کیو ایم کے 7 کارکنوں کو گرفتار کرکے ٹارچر کیا گیا۔
فیصل سبزواری نے کہا کہ ایم کیو ایم کو مجبوراً عمران خان کی کابینہ میں شامل ہونا پڑا، عمران خان کو ارکان کے سامنے بتایا کہ میں حالت مجبوری میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمہ بازی نہیں ہونی چاہیے، ہم پر تو ایک ہی دن میں 26 ،27 مقدمے دہشتگردی کے بنےتھے، ہم پر تو تالی بجانے پر بھی دہشتگردی کے مقدمات بنے، بہت سارے تو تالی بجانے کے وقت موجود بھی نہیں تھے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی تشریح کرسکتی ہے ری رائٹ نہیں کرسکتی، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کوئی جج لاشعوری طور پر غلط فیصلہ کرے تو پھر شعوری طور پر اس کو ٹھیک کر سکتا ہے، کراچی کے نسلہ ٹاور کو ہر قیمت پر توڑنے کا حکم دیا گیا۔
فیصل سبزواری نے مزید کہا کہ پنجاب میں عمران خان کو واضح اکثریت نہ ملی تو وہ الیکشن کو نہیں مانیں گے۔
Comments are closed.