ایم ایچ 370: ہوا بازی کا سب سے پُراسرار حادثہ، ’رابطہ ٹوٹنے‘ کے بعد 10 سال سے یہ طیارہ کیوں لاپتہ ہے؟
- مصنف, جوناتھن ہیڈ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 28 منٹ قبل
گذشتہ ایک دہائی سے، دو الفاظ نے لی ایرو کو پریشان کر رکھا ہے، وہ الفاظ ہیں ’رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔‘یہ بات ملائیشیا ایئرلائنز نے انھیں اس وقت بتائی تھی جب پرواز ایم ایچ 370 لاپتہ ہو گئی تھی اور اس میں ان کے بیٹے ینلن سوار تھے۔’برسوں سے میں پوچھ رہا ہوں کہ ’رابطہ منقطع ہونے‘ سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر آپ کا کسی سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے تو آپ کو ان کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔‘بیجنگ کے جنوب میں واقع ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے کسان وہ اور ان کی اہلیہ لیو شوانگ فینگ ہوا بازی کی تاریخ کے سب سے بڑے اور پُراسرار حادثے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
8 مارچ 2014 کی رات کوالالمپور سے بیجنگ جانے والی معمول کی پرواز میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں پائلٹ نے ملائیشین ایئر ٹریفک کنٹرول کو گڈ نائٹ کہا۔ بوئنگ 777 طیارہ 227 مسافروں اور عملے کے 12 ارکان کو لے کر ویتنام کی فضائی حدود میں داخل ہونے والا تھا۔اس کے بعد اس نے اچانک سمت بدل لی، اور جہاز کا تمام الیکٹرانک اور مواصلات کا نظام دُنیا سے کٹ گیا۔ اس نے پہلے ملائیشیا کے اوپر اور پھر دور دراز جنوبی بحر ہند میں اس وقت تک پرواز جاری رکھی جب تک اطلاعات کے مطابق اس کا ایندھن ختم نہیں ہوگیا۔ اب تک کا سب سے بڑا اور مہنگا ترین سرچ آپریشن چار سال تک جاری رہا لیکن لاپتہ طیارے کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ہزاروں سمندری ماہرین، ایروناٹیکل انجینیئرز اور پرائیویٹ جاسوسوں نے لاپتہ پرواز کے ٹوٹے پھوٹے اعداد و شمار کا جائزہ لیا ہے اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ اس جہاز کا سفر کہاں ختم ہوا۔جہاز میں سوار افراد کے اہل خانہ کے لیے یہ 10 سال سے ناقابل برداشت غم اور صدمہ ہے، وہ تلاش جاری رکھنے اور یہ جاننے کے لیے اب بھی جدوجہد کر رہے ہیں کہ ایم ایچ 370 کے ساتھ کیا ہوا اور کیوں ہوا۔لی ایرو نے اس لاپتہ جہاز کی تلاش میں اب بھی ایک مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی بچت یورپ اور ایشیا اور مڈغاسکر کے ساحلوں پر سفر کرنے کے لیے خرچ کر دی ہے جہاں لاپتہ طیارے کا کچھ ملبہ ملا ہے۔انھوں نے کہا کہ وہ اُس ساحلی ریت کو اپنے ہاتھوں میں لے کر محسوس کرنا چاہتے تھے کہ جہاں شاید اُن کا بیٹا بہہ کر آیا ہو۔ انھیں یاد ہے کہ انھوں نے بحر ہند کے کنارے اُسی ریت پر کھڑے ہو کر چیختے ہوئے ینلن (اپنے بیٹے) سے یہ کہا تھا کہ وہ انھیں گھر لے جانے کے لیے آئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کے ’میں اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کے لیے اس دنیا کے ختم ہونے تک یہ سفر کرتا رہوں گا۔‘،تصویر کا ذریعہBBC/ Lulu Luo
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesبی بی سی کی ایک نئی دستاویزی فلم ’وائے پلینز وینش‘ میں، دو فرانسیسی ایرو سپیس ماہرین، ایک تجربہ کار پائلٹ، نے ملائیشیا کے ائیر ٹریفک کنٹرول کے ساتھ آخری رابطے کے فوراً بعد، بحیرہ جنوبی چین کے اوپر بنائے گئے بوئنگ 777 کے روٹ کو دوبارہ بنانے کے لیے فلائٹ سمیلیٹر کا استعمال کیا ہے۔ انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ صرف ایک ہنر مند اور تجربہ کار پائلٹ ہی کر سکتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ بالکل اسی طرح کیا گیا تھا جب ایم ایچ 370 ملائیشیا سے ویتنام کی فضائی حدود کی طرف بڑھ رہا تھا، ان کے لیے یہ بتاتا ہے کہ پائلٹ اس چال کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور یہ کہ وہ جانتا تھا کہ یہ کچھ وقت ہو گا جب ویتنامی ایئر ٹریفک کنٹرول نے اطلاع دی کہ ان کا ابھی تک ہوائی جہاز سے رابطہ نہیں ہوا ہے۔اس کے علاوہ اور بھی تھیوریز اس حادثے کے اطراف گھومتی ہیں کہ جہاز میں موجود ہر شخص کو ہائپوکسیا، آکسیجن کی کمی، ایک ناقابل برداشت ذہنی دباؤ کے بعد، یا یہ کہ اچانک تباہ کن آگ یا دھماکے نے رابطے کو ہمیشہ کے لیے منقطع کر دیا اور پائلٹوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔اس کے باوجود یہ خیال کہ پائلٹوں میں سے ایک نے جان بوجھ کر جہاز اور اس کے تمام مسافروں کو موت کی جانب لے جانے کا فیصلہ کیا۔اس حادثے سے جُڑی اس طرح کی تمام قیاس آرائیوں نے اس جہاز میں سوار مسافروں کے خاندانوں یا لواحقین کو شدید ذہنی صدمہ اور نقصان پہنچایا۔ایم ایچ 370 پر انفلائٹ سپروائزر پیٹرک گومز کی اہلیہ، جیکیٹا گونزالیز کہتی ہیں کہ ’میں اپنے بدترین دشمن سے یہ خواہش نہیں کروں گی۔‘،تصویر کا ذریعہLulu Luo/BBC
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.