ایم آئی فائیو ایجنٹ، جس نے گرل فرینڈ کو ڈرانے کے لیے اپنے عہدے کا استعمال کیا
- ڈینیل ڈی سمیونے اور سرا تھیرجی
- بی بی سی نیوز
ایم آئی فائیو کے ایجنٹ نے چھرے سے اپنی پارٹنر کو خوفزدہ کیا
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی، ایم آئی فائیو کے ایک جاسوس نے اپنی پارٹنر کو خوفزدہ کرنے کے لیے اپنے عہدے کو استعمال کیا اور جب اس کے خلاف تحقیقات جاری تھیں تو وہ برطانیہ سے باہر چلا گیا۔
ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مرد ایک عورت کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور وہ اس پر چھرے کے ساتھ حملہ بھی کرتا ہے۔
اس کے باوجود کہ یہ غیر ملکی شخص، ایک عورت کے لیے خطرہ ہے، اس کا نام شائع نہیں کیا جا سکتا تاہم شہادتیں واضح کرتی ہیں کہ وہ شخص دائیں بازو کا شدت پسند ہے جس کا متشدد ماضی بھی ہے۔
حکومت نے بی بی سی کی اس خبر کی اشاعت کو رکوانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ اس غیر معمولی عدالتی جنگ میں بی بی سی نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ اس عورت کے لیے اس شخص کی شناخت کو جاننا ضروری ہے اور اس طرح دوسرے افراد بھی نقصان سے بچ سکتے ہیں۔
بی بی سی نے حکومت کی جانب سے اس خبر کی اشاعت کو رکوانے کی کوشش کا کامیابی سے دفاع کیا۔
بیتھ (فرضی نام) ایک برطانوی شہری ہیں اور ان کی ایم آئی فائیو ایجنٹ سے ڈیٹنگ ویب سائٹ پر ملاقات ہوئی۔ دونوں نے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ابتدا میں وہ بہت ’پیارا‘ تھا۔ بظاہر ہم دونوں میں بہت سی قدریں مشترک ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ظاہر ہوا کہ وہ انتہا پسند، متشدد اور ظالم شخص ہے۔
بیتھ کا کہنا ہے کہ اس شخص نے ان سے بدسلوکی اور ان پر جنسی حملے بھی کیے اور انھیں ڈرانے کے لیے برطانوی سکیورٹی سروسز میں اپنی پوزیشن کو استعمال کیا۔
بیتھ نے کہا کہ ’اس کا مجھ پر مکمل کنٹرول تھا اور جو میں آج ہوں، میں اس کا سایہ بھی نہیں تھی۔‘ جوں جوں ان کا تعلق خراب ہوتا گیا، بیتھ کی ذہنی صحت خراب ہونے لگی۔
’جب ہمارا تعلق ختم ہوا اس وقت وہ مجھے بتاتا تھا کہ میں کب نیند سے جاگی، میں کہاں گئی، کس سے ملی، کیسے کام کیا اور کام پر کیا کیا اور میں نے کیسا ڈریس پہنا۔۔۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ایکس نے مجھے بے وقعت ہونے کا احساس دلایا اور میری ذہنی صحت کے مسائل کو استعمال کر کے مجھے ڈرایا دھمکایا اور مجھے احساس دلایا کہ میں بہت کمزور ہوں۔ اس نے ہتھیار حاصل کیے اور دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی ویڈیوز دیکھنے پر مجبور کیا۔‘
بیتھ نے اپنے اوپر ہونے والے حملے کو اپنے موبائل میں ریکارڈ کیا
بیتھ نے بتایا کہ ’اس نے مجھے نفسیاتی طور پر اتنا دہشت زدہ کر دیا کہ میری ہمت جواب دے گئی۔ میں اس کی ہر چیز سے ڈرتی تھی۔ ان لوگوں سے جن سے وہ رابطے میں تھا اور ان سے جن کے ساتھ وہ کام کرتا تھا کیونکہ اس نے مجھے ایسا سوچنے پر مجبور کیا تھا۔‘
بیتھ نے بتایا کہ ایکس نے انھیں بتایا کہ وہ برٹش سکیورٹی سروسز کا مخبر ہے جس سے اسے رقوم ملتی ہیں یعنی وہ ان کا ایجنٹ یا ’خفیہ انسانی انٹیلجنس ذریعہ‘ جسے سی ایچ آئی ایس کہا جاتا ہے، تاکہ وہ انتہا پسندوں کے نیٹ ورکس میں گھس سکے۔
بیتھ ایکس کی اپنے ہینڈلرز کے ساتھ ملاقاتوں، پیسوں کے حصول اور آلات دیے جانے کے بارے میں آگاہ تھیں۔
ابتد میں اس نے بیتھ سے اپنا اصلی نام چھپائے رکھا۔ بی بی سی کی تحقیق میں سامنے آیا کہ ایکس نے برسوں تک ایم آئی فائیو کے سی ایچ آئی ایس کے طور پر کام کیا اور فرضی نام استعمال کیے۔
سکیورٹی سروسز دہشتگردوں کے نیٹ ورکس میں اپنے ایجنٹ رکھتی ہیں جو خفیہ طور پر ایم آئی فائیو افسران کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
ان ایجنٹوں کو خود کو خفیہ رکھنے کے لیے جرائم کا ارتکاب کرنے کا بھی اختیار ہوتا ہے لیکن ایسا صرف جان بچانے والی انٹیلیجنس تک رسائی کے لیے تاکہ سنگین جرائم کی روک تھام میں مدد مل سکے یا ایجنٹ کو اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ان اختیارات کو استعمال کر سکے ہیں لیکن خفیہ ایجنٹوں کو اپنی ذاتی زندگی میں ان اختیارات کے استعمال کی اجازت نہیں۔
بیتھ نے کہا کہ ایکس نے اسے بتایا کہ اس کی خفیہ پوزیشن کی وجہ سے وہ (بیتھ) اس کے رویے کے حوالے سے کوئی شکایت درج نہیں کرا سکے گی۔
’اس کا مطلب ہے کہ میں اس کے رویے کے بارے میں بات نہیں کر سکتی، اس تشدد کے بارے میں جس کا مجھے سامنا کرنا پڑ، جسمانی اور جنسی کیونکہ اعلی جگہوں پر اس کے لوگ تھے جو اس کی حمایت کریں گے اور اگر میں نے آواز اٹھائی تو مجھے قتل کر دیں گے۔‘
ایکس کو دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے نیٹ ورکس کے بارے اطلاعات فراہم کرنے پر ادائیگی کی گئی تھی لیکن جو شواہد بی بی سی نے دیکھے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے ’خطرناک خیالات‘ حقیقی ہیں۔
بیتھ نے بتایا کہ ایکس متعدد سفید فام بالادست قاتلوں کی تعریف کرتا اور کہتا کہ وہ خود بھی ایسے کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
گھر میں بیتھ ایم آئی فائیو ایجنٹ کے متشدد رویے کا شکار تھیں۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایم آئی فائیو کا یہ ایجنٹ ایک بڑے چھرے کے ساتھ بیتھ پر حملہ آور ہو رہا ہے۔
بیتھ نے اس واقعے کو اپنے موبائل فون پر ریکارڈ کیا۔ اس حملے سے پہلے وہ قتل کی دھمکی کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ یہ رویہ ان کے لیے ناقابل قبول ہے۔
ایکس یہ کہتے ہوئے کمرے سے نکل جاتا ہے کہ وہ بیتھ کو جان سے مار دے گا اور پھر چھرا اٹھائے واپس آتا ہے۔
بیتھ یہ کہتے ہوئی سنی جاتی ہیں کہ وہ اس ویڈیو کو پولیس کے حوالے کر دیں گی تو ایکس ہتھیار اور مکوں کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ ویڈیو چیخوں کے ساتھ بند ہو جاتی ہے۔
بیتھ اسے پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوتی ہیں لیکن وہ کچھ گھنٹوں بعد چاقو کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوتا اور ان کا گلہ کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایکس نے انھیں روکنے کے لیے ان کے ہاتھ کو کاٹ لیا۔
پولیس اس ایڈریس پر پہنچی لیکن تحقیقات سے پتہ چلا کہ پولیس کے ردعمل میں بہت خامیاں سامنے آئیں۔ ایکس کو بیتھ پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور عدالت میں پیش کیا گیا۔ البتہ کراؤن پراسیکیوشن نے ان کے خلاف کیس ختم کر دیا۔
بیتھ کہتی ہیں کہ ایکس واپس اسی گھر میں آ گیا اور پھر اس کے ناروا سلوک جاری رکھا۔
پولیس نے نہ تو بیتھ کا مکمل بیان ریکارڈ کیا اور نہ ہی ان پر حملے کی ویڈیو کو حاصل کیا۔ کراؤن پراسیکیوشن نے جلدی سے کیس ختم کر دیا۔ متعلقہ پولیس اور کراؤن پراسیکیوشن کا اصرار ہے کہ ناکافی شہادتوں کی وجہ سے کیس ختم کیا گیا۔
بیتھ کا کہنا ہے کہ جب ایکس واپس آیا تو اس نے دعویٰ کیا کہ سکیورٹی سروسز اس کی مدد کریں گے اور بیتھ کی کوئی حیثیت نہیں۔
ایک اور ویڈیو جو بیتھ نے چھپ کر بنائی ہے اس میں بیتھ اور ایکس کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کیا گیا۔ اس گفتگو میں بیتھ اس خدشے کا اظہار کرتی ہیں کہ شاید انھیں بہت زیادہ سوالات کرنے کی وجہ سے مار دیا جائے۔
ویڈیو میں بیتھ کہتی ہیں کہ کیا انھیں قتل کرنے والا ایکس ہو گا؟ ایکس کے جواب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انھوں نے تقریباً یہ کام پچھلے حملے میں کر دیا تھا۔
ایکس کو صوفے پر بیٹھتے ہوئے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’یہ ہمیشہ سے مجھ میں ہے، قتل کرنے والی چیز ہمیشہ سے مجھ میں ہے۔۔۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ کیسے کسی کو موت کے گھاٹ اتار دوں۔ یہ مجھ میں ہمیشہ سے ہے۔ میں جب چھ برس کا تھا تب سے میں یہ کر رہا ہوں۔۔۔ میں بہت جارح ہوں۔ مجھے معلوم ہے۔‘
دونوں زیادہ عرصہ ساتھ نہیں رہے۔ ایکس نے بیتھ کو گھر سے نکال دیا اور جب ان کے خلاف ایک اور تفتیش ہو رہی تھی تو وہ غائب ہو گیا۔
بیتھ پر چھرے کے ساتھ حملے کے بعد ایک چھاپے کے دوران پولیس کو ایکس کے گھر سے شدت پسندانہ مواد ملا جس میں ایکس کا نازی سازو سامان بھی شامل تھا۔
بی بی سی نے پولیس کی جمع شدہ شہادتوں کی فہرست دیکھی ہے جو پولیس افسران کو ملی تھی۔ اس میں ایکس کی پرائیویٹ ڈائری بھی ہے جس میں انھوں نے ’یہودیوں‘ کو مارنے کے بارے میں لکھا۔ اس ڈائری میں بیتھ کو قتل کرنے کے بارے میں بھی لکھا ہے۔
مقامی پولیس نے کاؤنٹر ٹیرر پولیس کے تفتیش کاروں کو بلایا جنھوں نے پولیس سے تمام اشیا لے لیں جو انھوں نے جمع کی تھی۔ اس کے بعد تحقیق شروع ہوئی لیکن جب تحقیق ابھی جاری تھی تو ایکس برطانیہ سے چلا گیا۔
اس کے برطانیہ سے چلے جانے کے چند ہفتوں بعد بیتھ کو مینٹل بریک ڈاؤن ہوا اور انھیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔
جب وہ ہسپتال میں تھیں تو ان کی وہ اشیا جو کاؤنٹر ٹیرر پولیس کے افسران نے قبضے میں لی تھیں، ایک اجنبی شخص بیتھ کے خاندان کے ایک فرد کے حوالے کر کے چلا گیا۔
بیتھ کے خاندان نے یہ سمجھا یہ شخص ایکس کا کوئی ساتھی تھا۔ نہ تو بیتھ اور نہ ہی ان کے خاندان کے کسی فرد کو معلوم تھا کہ ایکس کے خلاف کوئی تحقیق ہو رہی ہے۔
بیتھ کا خاندان اس اجنبی شخص کی آمد سے پریشان تھا کہ اس اجنبی کو کیسے ان کا ایڈریس معلوم تھا اور اس کے پاس بیتھ کی چیزیں کیسے آئیں۔
بی بی سی نے تصدیق کی ہے کہ بیتھ کی اشیا کو ان کے خاندان کے فرد کے حوالے کرنے والا اجنبی شخص ایم آئی فائیو کا آفیسر تھا۔ پولیس نے وارنٹ کے تحت جو مواد جمع کیا گیا تھا وہ ایم آئی فائیو کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
لندن میں ایم آئی فائیو کا ہیڈکوارٹر
یہ انتہائی غیر معمولی اقدام سکیورٹی سروس کے فوجداری نظام میں مداخلت سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایکس کی اپنی اشیا بھی پولیس نے ایم آئی فائیو کے حوالے کی تھیں۔
کاؤنٹر ٹیرر پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی پوچھ گچھ کے دوران کسی جرم کی نشاندہی نہیں کی گئی لیکن اس حقیقت کے لیے معافی مانگی ہے کہ قبضے میں لی گئی بیتھ کی اشیا کو براہ راست ان کے حوالے نہیں کیا گیا۔
ہسپتال سے واپس آنے کے بعد بیتھ نے مقامی پولیس سے شکایت کی کہ اس کا مقدمہ کیوں ختم کر دیا گیا تھا، ان کی اشیا کو کیوں قبضے میں لیا گیا تھا اور کیوں ایک اجنبی انھیں واپس کرنے آیا تھا؟
پولیس نے بیتھ کی شکایت کے ایک سال بعد ان کا انٹرویو کیا۔ اس کے بعد سے پولیس کہہ چکی ہے کہ جن معاملات کی پہلے تحقیق ہو چکی ہے ان میں ایسا کچھ نہیں رہ گیا جس کی از سر نو تحقیق کی ضرورت ہے لیکن ایسا نہیں۔
بیتھ کی شکایت کے دوران پولیس نے انھیں بتایا کہ پولیس فورس کے پاس ان اشیا کی کوئی معلومات نہیں، جنھیں قبضے میں لیا گیا تھا اور انھیں نوٹس سے یہ پتا چلا کہ کچھ اشیا کو قبضے میں لیا گیا تھا جنھیں ایکس کو واپس کر دیا گیا۔
پولیس نے کہا کہ انھوں اپنی تحقیق کے دوران کسی چیز کو قبضے میں نہیں لیا اور اس پر کوئی مشورہ نہیں دے سکتے ہیں کہ کب اور کیوں ان کی اشیا کو قبضے میں لیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
پولیس کا یہ کہنا سچ نہیں کہ ایکس کو ان کی اشیا واپس کر دی گئی ہیں۔ وہ اشیا ایم آئی فائیو کو دی گئی ہیں۔
ہم نے اس کی تصدیق کی ہے جب ایکس غائب ہو گیا تو وہ برطانیہ سے چلا گیا اور ایک غیر ملکی انٹیلیجنس ایجنسی کے لیے کام کرنا شروع کر دیا لیکن ایکس کے ایم آئی فائیو کے ایجنٹ بننے سے پہلے ایکس کا انتہا پسندانہ اور متشدد رویوں کا ایک بھیانک ریکارڈ موجود ہے۔
بی بی سی نے غیر ملک میں ایکس کی ایک سابق پارٹنر سے بات کی۔ ایکس کا اپنی سابق پارٹنر کے ساتھ رویہ بھی بیتھ کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے جیسا ہے دونوں عورتیں کبھی نہیں ملی اور نہ ہی ان کی کبھی بات چیت ہوئی۔
روتھ (فرضی نام) بتاتی ہیں کہ ابتدا میں اس کا رویہ ٹھیک تھا لیکن پھر وہ اسے تنگ کرنے اور ڈرانے لگا۔ ایکس نے اسے اور اس کی بچی کو مارنے کی دھمکی دی۔
’اس نے کہا کہ وہ مجھے اور میری بچی کو قتل کر کے ہماری لاشیں کہیں پھینک دے گا اور کسی کو معلوم نہیں ہو سکے گا کہ میں کون ہوں۔‘
روتھ نے اپنی جان کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے ایک میڈیکل تنظیم سے مدد مانگی جس نے انھیں پناہ دی۔ اس صدمے کی وجہ سے ان کی قوت گفتار ختم ہو گئی اور انھیں ہسپتال داخل ہونا پڑا۔
’میں نفسیاتی طور پر تباہ ہو گئی، بلکل ختم ہو گئی تھی۔ میں حیران تھی کہ وہ اتنا تبدیل کیسے ہو گیا۔ اس نے ایک بار مجھے بتایا کہ میرا اصل چہرہ یہ ہی ہے اور اس سے پہلے میں تمام وقت وہ اداکاری کر رہا تھا۔‘
ہم نے ایک پروفیشل کو ڈھونڈ لیا جس نے روتھ کے علاج میں مدد کی تھی۔ اس پروفیشنل نے بھی ان باتوں کی تصدیق کی جو روتھ نے ہمیں بتائیں تھیں۔
اس پروفیشنل نے ہمیں ایکس کی ایک نوٹ بک کا بھی بتایا جس میں ایکس نے روتھ کو قتل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ روتھ نے بھی اس چیز کے بارے میں بات کی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے ذہن میں ’خون، ہڈیاں، گوشت، انسانی گوشت، بچوں کا گوشت کھانے‘ جیسے خیالات تھے۔
ایکس نے روتھ کے جاننے والے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے اور قتل کی دھمکی دی تھی۔ اس نے ایسی ہی دھمکی بیتھ کو بھی دی تھی۔
غیر ملک کی پولیس کو ایکس کے بارے میں اور ان کی موجودگی میں خطرات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
ایکس نے جس طرح بیتھ کو تنگ کر نے کے لیے ایم آئی فائیو کا نام استعمال کیا تھا، اسی طرح روتھ کو تنگ کرنے کے لیے اس مجرموں کی تنظیم کا نام استعمال کیا جس کے ساتھ وہ منسلک تھا۔ ایکس نے روتھ کو بتایا کہ اس تنظیم کے لوگ انھیں قتل کر سکتے ہیں۔
ایکس روتھ کے لیے اپنے مالی قرضے چھوڑ کر بالآخر غائب ہو گیا۔
روتھ کہتی ہیں کہ ’میں سمجھتی ہوں یہ ناانصافی ہے، میں بہت ناراض ہوں، میں دکھی ہوں، مجھے دھوکہ دیا گیا ، یہاں کوئی انصاف نہیں۔‘
ہماری تحقیق میں ایسی شہادتیں سامنے آئیں جو ایکس کے بارے میں دونوں عورتوں کے خیالات سے ہم آہنگ ہیں۔
ہم نے ایسی تحریریں حاصل کی ہے جن میں وہ متعدد عورتوں کو جنسی طور استعمال کرنے کے بارے ایسی زبان میں بات کر رہا ہے جسے دہرایا بھی نہیں جا سکتا اور تحریروں میں ایک نوجوان لڑکی کے ریپ اور قتل کو جائز قرار دے رہا ہے۔
وہ کھلے عام اس نام کے ساتھ ویب سائٹ پر رجسٹر ہوا جو نام وہ ایم آئی فائیو کے ساتھ کام کے لیے استعمال کرتا تھا۔ بیتھ نے اس تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ عورتوں کو اپنے مقاصد کے استعمال کرنے کے لیے آن لائن سرچ کرتا تھا۔
اگر بی بی سی ایکس کے متشدد ماضی کی تصدیق کر سکتا ہے تو ایم آئی فائیو کو بھی اس بارے میں آگاہ ہونا چاہیے تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس ایک حاضر سروس پولیس افسر نے اپنی پوزیشن کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سارہ ایوارڈ کو ریپ اور قتل کیا تھا۔
اس پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا تھا، جس میں حکومتی وزیر بھی شامل تھے۔ اس ردعمل میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد پر آواز اٹھائی گئی۔
سارہ ایوارڈ کے قتل کی انکوائری کا حکم ہو چکا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ انکوائری پولیس کے نظام میں خامیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کو ٹھیک کرنے سے متعلق سفارشارت مرتب کرے گی۔
ایکس کے کیس میں خطرات بہت واضح ہیں۔ دونوں عورتیں، جن کا ہم نے انٹرویو کیا، سمجھتی ہیں کہ وہ کسی انسان کو قتل کرنے کے اہلیت رکھتا ہے۔
لیکن جب بی بی سی نے اپنی تحقیقات حکومت کے سامنے رکھیں تو حکومت نے اس خبر کی اشاعت رکوانے کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔
عدالت نے بی بی سی کو قانونی طور پر ایکس کی شناخت ظاہر کرنے سے روک دیا۔ حکومت نے کہا کہ وہ سکیورٹی اور انٹیلیجنس معاملات پر تبصرہ نہیں کر سکتی لیکن عدالتی حکم ’قومی سلامتی کے تحفظ اور زندگی کو فوری اور حقیقی خطرے اور پرائیسوسی کے تحفظ کے لیے ہے۔‘
بی بی سی ایکس کی شناخت ظاہر کرنا چاہتا تھا تاکہ ایسی عورتیں جو اس سے پہلے ہی رابطے میں ہیں یا مستقبل میں رابطے میں آ سکتی ہیں، کو خبردار کیا جا سکے۔
Comments are closed.