ایمان خلیف: روٹی اور کچرا بیچنے والی باکسر جن کا اولمپکس میں متنازع سفر طلائی تمغے پر ختم ہوا،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, عامر فکری اور ریحام الدیب
  • عہدہ, بی بی سی عربی
  • 55 منٹ قبل

الجزائر کی باکسر ایمان خلیف طلائی نے اولمپکس خواتین کے باکسنگ مقابلوں کے فائنل میں چین کی باکسر یو یانگ کو شکست دے کر طلائی تمغہ جیت لیا ہے۔انھوں نے یہ میڈل ایک ایسے وقت میں جیتا ہے جب اولمپکس کے آغاز پر ہی ان ’اہلیت‘ یا جنس کے بارے میں شروع سے ہی سوال اٹھنے شروع ہو گئے تھے اور ایک برس قبل انھیں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ سے مبینہ طور ’صنفی اہلیت کا ٹیسٹ‘ پاس نہ کر پانے کے باعث نااہل قرار دیا گیا تھا۔چینی باکسر یو یانگ کو شکست دینے سے پہلے ہی وہ رنگ میں خوشی سے جھوم رہی تھیں اور جیسے بیل بجی تو دونوں باکسرز نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرا خواب ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ یہ لمحہ بہترین ہے۔ آٹھ سال محنت کی، بالکل نہیں سوئی۔ میں الجیریا میں تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ میں اپنی پرفارمنس کے لیے بہت خوش ہوں۔ میں ایک مضبوط خاتون ہوں۔‘

الجزائر کی 25 سالہ باکسر ایمان خلیف کی پیرس اولمپیکس میں ’اہلیت‘ پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور ان کی صنف کو لے کر سوشل میڈیا پر صارفین میں بحث چھڑی رہی ہے۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ٹرانس یعنی خواجہ سرا ہیں تو کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ مرد کے بھیس میں باکسنگ کر رہی ہیں۔بی بی سی نے ایمان خلیف کے خاندان سے خصوصی گفتگو کی جنھوں نے بتایا کہ ’ایمان پیدائش سے لڑکی ہیں اور انھوں نے اپنی زندگی بھی ایک لڑکی کی طرح ہی گزار رہی ہیں۔‘آئیے آپ کو الجزائر کی پہلی باکسنگ گولڈ میڈلسٹ کے بارے میں بتاتے ہیں۔

،تصویر کا کیپشنایمان خلیف اپنے پھوپھا راشد کے ساتھ

ایمان خلیف کون ہیں؟

سنہ 1990کی دہائی کے آخر میں الجزائر کی شمال مغربی ریاست تیارت میں ایک عام گھرانے میں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام ایمان رکھا گیا۔ایمان چھ بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑی ہیں۔ ان کا بچپن تیارت کے ایک دور افتادہ گاؤں میں گزرا جہاں اینٹوں سے بنے گھر تھے۔ اس علاقے میں بچوّں کی تفریح کے لیے کوئی مواقع نہیں تھے، بس کشادہ گلیاں اور میدان تھے جن میں صرف لڑکے ہی کھیلا کودا کرتے تھے۔ یہاں لڑکیوں کا گھر سے باہر نکلنا معیوب یعنی نامناسب سمجھا جاتا تھا۔تاہم ایمان کو فُٹ بال کھیلنا بہت پسند تھا۔ وہ گلی میں لڑکوں کے ساتھ خوب فٹ بال کھیلتی تھیں۔ جن لڑکوں کے ساتھ ایمان فٹ بال کھیلتی تھیں، وہ ان کی حفاظت کرتے تھے اور ایسے لوگوں سے لڑ پڑا کرتے تھے جنھیں ایمان کا لڑکوں کے ساتھ کھیلنا ناگوار تھا یا وہ اس بارے میں اُنھیں کُچھ کہتے تھے۔چونکہ ایمان کا بچپن میں ہی ایسے لڑاکا لوگوں سے پالا پڑا جس کے باعث ان میں چھپا باکسنگ کا ٹیلنٹ سامنے آیا۔ ایمان اپنی جسمانی صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور تھیں جس کی وجہ سے انھیں اپنے باقی ساتھیوں پر برتری حاصل تھی۔ان کی پرورش ایک سخت ماحول میں ہوئی تاہم ان کی صلاحیتوں نے انھیں گھر تک محدود نہیں رکھا۔ ایک مرتبہ ایمان گلی میں کھیل رہی تھیں تو ایک بچے نے انھیں دیکھ کر اپنے کوچ سے ان کا ذکر کیا۔ اس نے کوچ کو بتایا کہ ایک لڑکی ان کے ساتھ فٹ بال کھیلتی ہے جس کی شخصیت بہت مختلف ہے اور جسمانی ساخت بھی باقی لڑکیوں کے مقابلے میں مضبوط ہے۔یہ جاننے کے بعد کوچ نے ایمان اور ان کے والدین سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔

’ٹریننگ کرنے کے لیے گلی میں روٹی بیچنی پڑی‘

تاہم ایمان ایک ایسے گاؤں میں رہتی تھیں جہاں عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں تھی۔ لمبا سفر کرنے کے لیے لوگوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا اور ان مسائل کے علاوہ وہاں خواتین پر پابندیاں تھیں اور وہ اکیلے سفر نہیں کر سکتی تھیں۔جب ان مقامی کوچز نے ایمان کے والد سے بات کی کہ ایمان کو 10 کلومیٹر دور واقع ٹریننگ سینٹر بھیجا جائے تو ایمان کے والد کو معاشرتی رویوں کے خوف کے باعث منانا کافی مشکل تھا۔ تاہم کوچ کے اصرار پر ان کے والد نے ایمان کو تربیتی سینٹر بھیجنے کی حامی بھر لی۔تاہم ٹریننگ سینٹر جانے کے لیے ایمان کے پاس کرائے کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور کرائے کے پیسے جمع کرنے کے لیے وہ اور ان کی والدہ گلیوں میں روٹی اور کوسکوس (گندم کی ایک قسم) فروخت کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔تاہم جب ایمان ٹریننگ سینٹر سے روزانہ الگ الگ گاڑیوں میں واپس لوٹتی تھیں تو گاؤں والوں نے باتیں بنانا شروع کر دیں۔ ان دنوں ایمان کے والد بھیڑ بکریاں چراتے تھے اور گھنٹوں گھر سے باہر رہتے تھے۔ جب انھیں ایمان کے بارے میں لوگوں کی قیاس آرائیوں کا علم ہوا تو انھوں نے ایمان کے سفر کرنے پر اعتراض کیا اور ان سے کہا کہ وہ اب مزید ٹریننگ سینٹر جانا اور کھیل میں حصہ لینا چھوڑ دیں۔،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنایمان خلیف کے والد فون پر ان کی تصویر دکھاتے ہوئے
ایمان کے حوصلے پست پڑنے لگے اور انھوں نے کھیل سے دوری اختیار کرنے کا سوچا۔ تاہم ان کی پھوپھی نے اپنے بھائی کو ایمان کی ذمہ داری لینے کی پیش کش کی۔ایمان کے پھوپھا بھی ان کے والد کے کزن تھے اور ان کے بچے ایمان کے کزن۔ ایمان کو بچپن سے ہی اپنی پھوپھی کے گھر جانا پسند تھا کیونکہ ان کی گھر کے مالی حالات کے باعث ان کے پاس اپنے کھلونے نہیں ہوتے تھے اور وہ اپنی پھوپھی کے گھر اس لیے جاتی تھی تاکہ ان کے بچوں کے کھلونوں سے کھیل سکیں۔ایمان کے پھوپھا راشد نے بتایا کہ ’ہم نے ایمان کے معاملے میں مداخلت کی اور انھیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئے کیونکہ ٹرنیننگ سینٹر ہمارے گھر سے بہت نزدیک تھا۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ایمان کا خیال رکھا کہ ان کی غذا کھیل کے مطابق ہو اور انھیں گھر کے فرد کی طرح سمجھا۔ ان کے والد نے اسی لیے انھیں ہمارے ساتھ رہنے کی اجازت دی تھی کیونکہ ہم نے کہا تھا کہ ایمان ہماری بیٹی جیسی ہے۔ وہ بے فکر ہو جائیں۔‘جب ایمان اپنی پھوپھی کے گھر رہنے گئیں تو ان کے پاس ایک دینار بھی نہ تھا۔ اپنا خرچہ اٹھانے کے لیے وہ تانبے کا ’سکریپ‘ یعنی کچرا بیچتی تھیں۔ تاہم ان کے ارد گرد لوگوں نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ ایمان کے پھوپھا اور ان کے کزنز انھیں تربیتی سینٹر لے کر جاتے تھے۔ محلّے والے بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

وہ سال جس میں ان کی قسمت بدلی

ایمان نے تین سال لگ کر ٹریننگ کی۔ وقت کے ساتھ ان میں خود اعتمادی آتی گئی اور انھوں نے الجزائر کی قومی ٹیم میں شمولیت حاصل کی۔ انھوں نے 19 سال کی عمر میں 2018 میں ’ویمنز ورلڈ چیمپیئن شپ‘ میں حصہ لیا جس میں وہ پہلے راؤنڈ میں باہر ہو گئی تھیں۔ تاہم انھوں نے 17ویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ایمان کے پھوپھا کہتے ہیں کہ ’سنہ 2019 میں حالات نے بدلنا شروع کیا۔ ایمان نے خوب کامیابی حاصل کی اور کئی اعزازت جیتے۔ انھوں نے اپنے لیے ہر وہ چیز خریدی جس کی انھیں ضرورت تھی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ ہمارے خرچے اٹھانے لگی اور ہمارا خوب خیال رکھا۔ انھوں نے ہسپتالوں کے دورے کرنا شروع کیے اور بوڑھے لوگوں اور مریضوں سے ملاقات کی۔ انھوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کی خوب مدد کی۔‘ایمان کے گاؤں میں ان کے لڑکوں کے ساتھ کھیلنا کافی متنازع تھا لیکن ایمان کو اس کی عادت ہوتی جا رہی تھی۔ پھر انھوں نے گاڑی اور موٹر سائکل چلانے کے لیے لائسنس بھی حاصل کر لیا۔ انھیں گھڑ سواری کا بھی شوق تھا۔ لوگوں کی باتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے انھوں نے اپنے شوق خوب پورے کیے۔ایمان کے پھوپھا بتاتے ہیں کہ ’حال ہی میں جو ایمان نے باتیں سنیں اور لوگوں نے جس طرح ان پر طنز کیا، انھیں اور ہمیں اس کی توقع تھی۔ سنہ 2023 میں ہم نے ساتھ مل کر اس کا تجربہ کیا تاہم الجزائر کی ریاست ہمارے ساتھ کھڑی ہوئی اور ہمارا دفاع کیا۔ ہم لوگوں کی باتوں کو ہنس کر ہوا میں اڑا دیتے ہیں اور کسی کی بات پر توجہ نہیں دیتے کیونکہ جو لوگ ان کے قریب ہیں وہ ان کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایمان ہار مان جانے میں یقین نہیں رکھتیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’ایمان لڑکی پیدا ہوئی تھیں اور انھوں نے اپنی پوری زندگی ایک لڑکی کی طرح گزاری ہے۔ میرے بچے انھیں ٹریننگ سینٹر لے کر جاتے تھے تاکہ ان کی حفاظت کی جا سکے اور انھیں کوئی کُچھ بُرا بھلا نہ کہے۔‘ایمان خلیف کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن وہ گھبرائی نہیں۔ آج ایمان خلیف اپنے ملک میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کی قومی سفیر ہیں۔ دارالحکومت الجزائر میں عالمی تنظیم کے دفتر میں ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا کہ ملک میں لڑکیوں کے لیے کھیل کے مواقع بہت کم ہیں، خاص طور پر چھوٹے گاؤں اور دور افتادہ علاقوں میں جہاں لڑکیوں کو صحت کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ایمان خلیف کی زندگی کی کہانی ایک فلم کی جیسی ہے، ان کے والد کا معاشرے کے خوف اور دباؤ کی وجہ سے انھیں ٹریننگ کرنے سے روکنا، ان کا اپنی پھوپھی کے گھر منتقل ہونے سے باکسنگ کی دنیا میں ان کے عروج تک، ورلڈ چیمپئن شپ کے فائنل سے لے کر انھیں مقابلے سے باہر کر دینے تک اور بالآخر سینے پر تمغہ سجانے تک سب ایک خواب سا لگتا ہے، جسے ایمان نے اپنی مسلسل جدوجہد اور محنت سے تعبیر دی۔ایمان خلیف کے پیرس اولمپکس میں باکسنگ میڈل کے لیے ملک کو دہائیوں سے انتظار تھا۔ انھیں ’تیارت کی بیٹی‘ کہا جانے لگا ہے کیونکہ انھوں نے کئی مشکلات اور مسائل کا سامنا کیا اور لڑکیوں کو پیغام دیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر کبھی شک نہ کریں اور خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں، کامیابی ضرور اُن کے قدم چومے گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}