ایلون مسک: ’ٹوئٹر چلانا بہت تکلیف دہ ہے‘

ایلون مسک بی بی سی انٹرویو
،تصویر کا کیپشن

ایلون مسک بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے

  • مصنف, جیمز کلےٹون
  • عہدہ, بی بی سی، نارتھ امریکہ ٹیکنالوجی رپورٹر

ایلون مسک نے بی بی سی کے ساتھ ایک براہ راست انٹرویو میں کہا ہے کہ ٹوئٹر چلانا ’کافی تکلیف دہ‘ رہا ہے اور ’ایک رولر کوسٹر‘ جیسا تجربہ ہے۔

ارب پتی کاروباری نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی صحیح شخص نظر آیا تو وہ اُسے ٹوئٹر کمپنی فروخت کر دیں گے۔

مسک نے، جو کار بنانے والی کمپنی ٹیسلا اور راکٹ فرم ’سپیس ایکس‘ (SpaceX) بھی چلاتے ہیں، اکتوبر میں ٹوئٹر کو 44 ارب ڈالر میں خریدا تھا۔

سان فرانسسکو میں ٹوئٹر کے ہیڈکوارٹر سے انٹرویو میں بڑے پیمانے پر ملازمتوں کے خاتمے، غلط معلومات اور ان کے اپنے کام کی عادات جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

لیکن انھوں نے اعتراف کیا کہ انھوں نے صرف کمپنی کو اس لیے خریدا کیونکہ ایک جج انھیں اس کو خریدنے کے لیے مجبور کرنے والے تھے۔

اور انھوں نے تصدیق کی کہ ٹوئٹر بی بی سی کے اکاؤنٹ کے لیے اپنے نئے شامل کردہ لیبل کو ’سرکاری مالی اعانت سے چلنے والے میڈیا‘ سے تبدیل کر کے اس کی جگہ ‘پبلک فنڈ‘ سے چلنے والا میڈیا لکھے گا۔

بی بی سی کو انٹریو کے دوران انھوں نے کمپنی کو چلانے کے لیے اپنی پالیسیوں کا بھی دفاع کیا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہیں ٹوئٹر خریدنے پر کوئی پچھتاوا ہے، دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص نے کہا کہ ’درد کی سطح بہت زیادہ ہے، یہ کسی قسم کی کوئی پارٹی نہیں ہے۔‘

اب تک اس کے سربراہ کے طور پر اپنے گزرے وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، مسک نے کہا کہ ’اس میں اکتاہٹ نہیں ہے بلکہ یہ انتہائی اتھل پتھل کا کھیل ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس میں واقعی کافی دباؤ والی صورتحال رہی ہے‘، لیکن ساتھ ہی کہا کہ وہ اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ ان کا کمپنی خریدنے کا فیصلہ درست ہے۔

2022 کے آغاز میں ٹوئٹر کے حصص خریدنے کے بعد، مسک نے اسے کنٹرول میں لینے کی پیشکش کی۔ لیکن بعد میں ٹوئٹر نے ان پر مقدمہ کر دیا جب انھوں نے اس سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی۔

مسک نے بی بی سی کو یہ بتاتے ہوئے کہ سائٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے اور ’سائٹ کام کر رہی ہے‘ کہا کہ اب چیزیں ’کافی حد تک ٹھیک ہو رہی ہیں۔‘

کام کے بوجھ کا مطلب ہے کہ ’میں کبھی کبھی دفتر میں سوتا ہوں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس لائبریری میں صوفے پر سونے کی جگہ ہے ’جس پر کوئی اور نہیں سوتا ہے‘۔

ایلون مسک بی بی سی انٹرویو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹوئٹر اپنا بلیو ٹیک ہٹا رہا ہے

اور انہوں نے اپنی بعض متنازعہ ٹویٹس کے بارے میں کہا کہ ’کیا میں نے متعدد بار متنازعہ ٹویٹس پوسٹ کر کے اپنے پاؤں میں گولی ماری ہے؟ جی ہاں مجھ سے ایسا ہوا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں مجھے صبح 3 بجے کے بعد ٹویٹ نہیں کرنا چاہیے۔‘

بی بی سی کے مرکزی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک لیبل لگانے کے فیصلے کے بارے میں پوچھے جانے پر مسک نے کہا کہ ’میں جانتا ہوں کہ بی بی سی کو عام طور پر سرکاری میڈیا کا لیبل لگنے پر خوشی نہیں ہوتی۔‘

اس ہفتے کے شروع میں بی بی سی نے ٹویٹر سے اس وقت رابطہ کیا جب اس کے اکاؤنٹ @BBC کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ یہ ’سرکاری مالی اعانت سے چلنے والا میڈیا‘ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’بی بی سی آزاد ادارہ ہے، اور ہمیشہ سے آزاد رہا ہے۔ ہمیں برطانوی عوام کی طرف سے لائسنس فیس کے ذریعے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔‘

مسک نے کہا کہ ٹوئٹر بی بی سی کے لیبل کو ’پبلک کے فنڈ سے چلنے والا‘ ادارے کے طور پر تبدیل کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم قطعی طور پر درست ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں واقعی میں بی بی سی کا بہت احترام کرتا ہوں۔‘ انہوں نے کہا کہ یہ انٹرویو ’کچھ سوالات پوچھنے کا ایک اچھا موقع تھا‘ اور ’اس بارے میں کچھ رائے حاصل کرنے کا بھی کہ ہمیں مختلف کیا کرنا چاہیے‘۔

بی بی سی برطانیہ کا قومی نشریاتی ادارہ ہے اور حکومت کے ساتھ متفقہ رائل چارٹر کے ذریعے کام کرتا ہے۔ اس کی مالی اعانت برطانیہ کے گھرانوں کی طرف سے ادا کی جانے والی لائسنس فیس کے ذریعے کی جاتی ہے ۔ جو کہ 2022 میں 3.8 ارب سٹرلنگ پاؤنڈ ہے، جو بی بی سی کی کل آمدن 5.3 ارب سٹرلنگ پاؤنڈ کا تقریباً 71 فیصد بنتا ہے۔

باقی فنڈنگ اس کی تجارتی اور دیگر سرگرمیوں جیسے گرانٹس، رائلٹی اور کرایہ کی آمدنی سے حاصل ہوتی ہے۔ بی بی سی کو بی بی سی ورلڈ سروس کی مدد کے لیے حکومت سے ہر سال 9 کروڑ سٹرلنگ پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم بھی ملتی ہے، جو بنیادی طور پر غیر برطانیہ کے سامعین کی خدمت کرتی ہے۔

ایلون مسک بی بی سی انٹرویو

،تصویر کا کیپشن

ایلون مسک ٹوئٹر پر بی بی سی کو ’پبلک فنڈ‘ سے چلنے والے میڈیا ادارے کا لیبل دینے کے لیے تیار ہے

ٹوئٹر کے مالی معاملات پر بحث کرتے ہوئے مسک نے کہا کہ کمپنی اب ’تقریباً اپنے اخراجات پورے کر پا رہی ہے،‘ کیونکہ اس کے زیادہ تر مشتہرین واپس آ چکے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے ٹوئٹر کمپنی کو خریدا تھا اس وقت 8,000 سے کم افرادی قوت کو کم کر کے تقریباً 1,500 تک لانا آسان نہیں تھا۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ذاتی طور پر سب کو برطرف نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’بہت سے لوگوں سے آمنے سامنے بات کرنا ممکن نہیں ہے۔‘

مسک کی جانب سے کمپنی کو خریدنے کے بعد سے ٹوئٹر کے بہت سے انجینئرز کے اسے چھوڑ جانے سے پلیٹ فارم کے استحکام کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔

انہوں نے سائٹ پر بندش سمیت کچھ خرابیوں کو تسلیم کیا لیکن انہوں نے کہا کہ یہ بندش زیادہ دیر سے نہیں ہے اور سائٹ فی الحال ٹھیک کام کر رہی ہے۔

انٹرویو میں – جو ٹوئٹر سپیس سروس کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا تھا – مسک کو پلیٹ فارم پر غلط معلومات اور نفرت انگیز تقریر پر بھی چیلنج کیا گیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹوئٹر کو کنٹرول میں لینے کے بعد سے ٹوئٹر پر کم غلط معلومات موجود ہیں، اور ان کی بوٹس کو حذف کرنے کی کوششوں سے جعلی خبروں میں کمی آئے گی۔

لیکن بہت سے بیرونی ماہرین اس سے متفق نہیں ہیں۔ ایک تحقیق اور اسی سے ملتی جلتی دیگر تحقیق کے مطابق مسک کے ادارے کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد غلط معلومات پھیلانے والے اکاؤنٹس کی تعداد میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے بارہا سوال کیا کہ کیا صحافی سچائی کے منصفانہ جج ہیں اور کہا کہ انہیں ’عام لوگوں‘ پر زیادہ اعتماد ہے۔

پلیٹ فارم پر مصدقہ اکاؤنٹ کی تصدیق والے نیلا نشان جو بلیو ٹک کہلاتا ہے، کے مسئلے پر مسک نے کہا کہ انہیں اگلے ہفتے کے آخر تک اکاؤنٹس سے ہٹا دیا جائے گا۔

ٹوئٹر کے سابق ایگزیکٹو بروس ڈیزلی – جنہوں نے آٹھ سال تک یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں کاروبار چلایا – نے کہا کہ انٹرویو نے ’ہمیں اس ارب پتی کی عجیب زندگی کے بارے میں کچھ بصیرت فراہم کی ہے۔‘

’انھوں نے آج اعتراف کیا کہ ان کے ٹویٹر خریدنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ انہیں یقین تھا کہ ایک جج انہیں ٹویٹر خریدنے کی پیش کرنے کے اعلان سے پھر جانے کی صورت میں اسے خریدنے پر مجبور کرے گا۔ انہوں نے اب تک کبھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا تھا، اس لیے یہ ایک انتہائی سنسنی خیز انٹرویو تھا۔‘

ڈیزلی نے یہ بھی تجویز کیا کہ انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسک ہمیشہ اپنی باتوں میں ایک جیسی بات نہیں کرتے ہیں۔

فوربز کی ارب پتیوں کی فہرست کے مطابق ایلون مسک کی ذاتی دولت تقریباً 190 ارب ڈالر ہے، جس سے وہ دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص بن چکے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ