نامزد صدر ٹرمپ کے سب سے اہم حامی سمجھے جانے والے مسک نے ان کی انتخابی مہم کو 11 کروڑ 90 لاکھ کا فنڈ دیا ہے۔ مسک گذشتہ چند ہفتوں سے صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے والی ریاستوں میں لوگوں کو ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس دوران انھوں نے ہر روز 10 لاکھ ڈالر بھی تقسیم کیے۔الیکشن کے روز جہاں ٹیسلا کے ایک شیئر کی قیمت 250 ڈالر تھی وہاں ٹرمپ کی جیت کے بعد یہ قیمت 280 ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔اس معاملے پر انھیں قانونی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا تاہم ریاست میں ایک جج سے انھیں ایسا کرنے کی اجازت مل گئی۔ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مسک کو اپنی انتظامیہ میں کام کرنے کی دعوت دیں گے تاکہ وہ حکومت کے غیر ضروری خرچے کم کر سکے اور کام کو مؤثر بنانے میں کام کر سکیں۔مسک نے اپنے ممکنہ کام کو ’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی‘ یا (DOGE) رکھا گیا ہے جو ایک میم اور کرپٹوکرنسی کا نام بھی ہے۔مسک کے حوالے سے یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے صدارتی دور میں اپنی خلائی کمپنی سپیس ایکس کے حوالے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو پہلے ہی حکومتی سیٹلائٹس کو خلا میں بھیجنے کی کاروباری صنعت پر غلبہ حاصل کر چکی ہے۔اب جبکہ مسک وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے حمایتی کے طور پر موجود ہوں گے تو وہ حکومت کے ساتھ بہتر روابط سے فائدہ حاصل کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمسک کی جانب سے ماضی میں اپنی حریف کمپنی بوئنگ کے حکومت کے ساتھ معاہدوں کی نوعیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے منصوبوں کو بجٹ اور وقت کے اندر ختم کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔سپیس ایکس کی جانب سے اب جاسوس سیٹلائٹس بھی بنائی جا رہی ہیں اور پینٹاگون اور امریکی خفیہ ایجنسیاں ان میں اربوں کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہیں۔ایلون مسک کی بجلی سے چلنے والی گاڑیاں (الیکٹرک وہیکل) بنانے والی کمپنی ٹیسلا کو ٹرمپ کی انتظامیہ سے فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کے دوسرے دور میں ’کم ترین نگرانی‘ ہو گی۔گذشتہ ماہ امریکی ایجنسی جو روڈ سیفٹی کے حوالے سے قواعد کی نگرانی کرتی ہے نے بتایا تھا کہ وہ ٹیسلا کے ’بغیر کسی ڈرائیور کے چلنے والی گاڑی‘ کے سافٹ ویئر سسٹمز کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔ایلون مسک پر ٹیسلا میں کام کرنے والوں کو مبینہ طور پر یونین بنانے پر پابندی عائد کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ٹرمپ کی جانب سے کارپوریشنز اور امیر افراد پر کم ٹیکسز لگانے کے بارے میں بھی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کی جانب چین پر مزید ٹیرف لگانے کی بات بھی کی گئی ہے جس کا فائدہ ایلون مسک کو اس طرح ہو سکتا ہے کہ ان کی الیکٹرک گاڑیوں کو چینی کمپنیوں سے ملنے والی مقابلے میں کمی آئے گی۔،تصویر کا ذریعہX/KaiTrumpایلون مسک جنھوں نے اپنی پہلی شناخت ایک ہونہار اور قابل ٹیک جینئس کے طور پر قائم کی اور جو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے تھے اب مکمل طور پر ٹرمپ کی حمایت میں سیاست میں کود چکے ہیں۔امریکی عوام کی نظر میں 53 سالہ ٹیک جائنٹ اپنا وقت، اپنی سمجھ بوجھ اور اپنا پیسہ ریپبلیکنز کو جیت دلانے کی کوشش پر خرچ کر رہے ہیں۔ یہ ایک انہونی بات ہے کیونکہ امریکی اشرافیہ اکثر پس پردہ رہ کر سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو عموماً روایتی سی ای اوز سے بہت مختلف ہے کیونکہ روایتی طور پر ایسی بڑی کمپنیوں کے سربراہان کو اپنے شاندار گھروں میں مہنگے ڈنرز اور فنڈ ریزنگ پروگرام منعقد کرتے ہی دیکھا گیا۔اور اسی بات نے مبصرین کو یہ سوال اٹھانے پر مجبور کیا کہ آخر ایلون مسک ٹرمپ کی حمایت کر کے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟Twitter پوسٹ نظرانداز کریںTwitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتاممواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا اتنی رقم، وقت اور اپنی کوششیں صرف کرنا بے مقصد نہیں اور وہ ٹرمپ اور اپنے تعلق کا فائدہ اٹھائیں گے۔ان خیالات کا اظہار کرنے والوں میں الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ پلیٹ فارم بنانے والی کمپنی چارج وے کے سربراہ میٹ ٹیسکے بھی شامل ہیں۔ان کے مطابق ایلون مسک کی سیاسی وابستگی میں تبدیلی الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت سے وابستہ لوگوں کے لیے سمجھنا کچھ مشکل ضرور ہے لیکن اس میں کوئی حیرانی نہیں کیونکہ گذشتہ چند برسوں کے دوران وہ سیاست میں کافی متحرک رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمیٹ ٹیسکے کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ مسک کے مفادات بہت واضح ہیں اور ممکنہ طور پر چیزوں سے منسلک ہیں جو ان کے اور ان کے کاروبار کے لیے اہم ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے کووڈ پابندیوں کے دوران کیلیفورنیا میں ان پابندیوں پر عمل کرنے میں بہت مزاحمت کی تھی۔‘مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسر گورڈن اس سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسک اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جسے ریگولیٹرز نے روک رکھا ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومتی مداخلت نے ان کی ٹیکنالوجیز کی ترقی کو روک دیا ہے جن پر ان کی توجہ مرکوز ہے، جیسے کہ ’سیلف ڈرائیونگ۔‘پروفیسر گورڈن کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک ایسا کاروباری شخص بننا چاہتے ہیں جو روایات کو توڑ کر نئی راہیں بنا سکتا ہے اور قواعد و ضوابط میں نہیں پھنستا، جو ٹیکنالوجی میں ترقی سے پانچ، 10، 20 سال آگے رہنا چاہتا ہے۔‘پروفیسر گورڈن کہتے ہیں کہ ’وہ مریخ پر جانا چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی کہ اگر وہ نومبر کا صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں تو وہ ایلون مسک کو امریکی حکومت کے اخراجات میں کمی کے معاملات کی ذمہ داری سونپ سکتے ہیں۔‘پروفیسر گورڈن کے مطابق اگر ٹرمپ ایسا نہیں بھی کرتے تو بھی ایلون مسک نے ان کی انتخابی مہم کے لیے جو کچھ کیا، ٹرمپ ان کی بات ضرور سنیں گے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا امریکہ کی انتظامیہ کی فیصلہ سازی پر گہرا اثر ہو گا۔جبکہ مسک کا کہنا ہے کہ وہ ’حکومتی کارکردگی کے محکمے‘ کی ذمہ داری سنبھالنے کو تیار ہیں اور وہ ایسے تمام قواعد و ضوابط کو ختم کریں گے ’جو امریکہ کا گلا گھوٹتے ہیں۔‘ایلون مسک جو روایتی طریقوں اور نظام سے منحرف ہونے کو پسند کرتے ہیں، ایسے میں یہ سوال ہے کہ کیا امریکی حکومت کے ساتھ ان کے منافع بخش تعلقات برقرار رہیں گے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.