تھیرانوس سکینڈل: ایلزبتھ ہومز کون ہیں اور ان پر مقدمہ کیوں چل رہا ہے؟
- ڈینیئل تھامس
- بزنس رپورٹر، نیو یارک
ایلزبتھ ہومز کو سب سے کم عمر ارب پتی خاتون کہا جاتا تھا
فوربز میگزین کے مطابق وہ ’دنیا کی سب سے کم عمر خود ساختہ خاتون ارب پتی‘ تھیں۔ ایک اور جریدے ’انک‘ نے اپنے سرِورق پر ان کی تصویر لگائی اور لکھا کہ وہ ’اگلی سٹیو جابز‘ ہیں۔
2014 میں ایلزبتھ ہومز، جو اس وقت 30 سال کی تھیں، بہت بلندی پر تھیں۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی سے ڈراپ آؤٹ ہونے والی ہومز نے ایک کمپنی قائم کی جس کی مالیت نو ارب ڈالر تھی اور جس کے متعلق کہا جا رہا تھا کہ وہ بیماری کی تشخیص میں ایک انقلاب برپا کر دے گی۔
ان کی کمپنی تھیرانوس نے دعویٰ کیا کہ صرف خون کے چند قطروں کے ساتھ اس کا ایڈیسن ٹیسٹ کینسر اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کا فوری پتہ لگا سکتا ہے۔ ان کی کمپنی میں ہینری کسنجر سے لے کر روپرٹ مرڈوک جیسے بڑے لوگوں نے سرمایہ کاری کی تھی۔
لیکن 2015 تک اس کمپنی کا پول کھلنا شروع ہوا اور ایک سال کے اندر اندر ہومز کو بے نقاب کر دیا گیا۔ انھوں نے جس ٹیکنالوجی کے دعوے کیے تھے وہ بالکل کسی کام کی نہیں تھی اور 2018 تک ان کی قائم کردہ کمپنی ختم ہو چکی تھی۔
روپرٹ مرڈوک نے تھیرانوس میں 12 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی
اگر ان کے خلاف دھوکہ دہی کے 12 الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو ایلزبتھ ہومز کو، جن کی عمر اب 37 سال ہے، 20 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ان کا مقدمہ اگلے مہینے شروع ہو گا جس میں توقع کی جا رہی ہے کہ وہ کہیں گی کہ وہ قصوروار نہیں ہیں۔
ا س کہانی میں ایک دلچسپ موڑ اختتام ہفتہ کو اس وقت آیا جب ان کے وکلا نے کہا کہ وہ یہ ثابت کریں گے کہ ہومز کو ان کے سابق بوائے فرینڈ اور کاروباری پارٹنر رمیش ’سنی‘ بلوانی نے ان مبینہ جرائم کے وقت ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی اور انھیں جذباتی طور پر قابو کر رکھا تھا جس سے ان کی ذہنی حالت مفلوج ہو کر رہی گئی تھی۔
56 سالہ سنی بلوانی، جن کو بھی انہی الزامات کا سامنا ہے، ان دعووں کو ’اشتعال انگیز‘ کہتے ہیں۔ اب یہ جیوری پر منحصر ہے کہ وہ اس خاتون کے ساتھ کیا ہمدردی یا سختی دکھاتی ہے جس نے سیاستدانوں سے لے کر سیکریٹریوں تک سب کو بیوقوف بنایا ہے۔
ایک بڑا آغاز
ایک کتاب، ایچ بی او کی ڈاکیومنٹری اور آنے والی ٹی وی سیریز اور فلم کا موضوع ہونے کے باوجود، یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ ہومز نے ایسی ٹیکنالوجی پر جوا کیوں کھیلا جس کے بارے میں وہ جانتی تھیں کہ وہ کام نہیں کرے گی۔
جو لوگ انھیں جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کی پرورش واشنگٹن ڈی سی میں ایک کھاتے پیتے گھرانے میں ہوئی اور وہ ایک تمیز دار لیکن دوسروں سے دور رہنے والی لڑکی تھیں۔
81 سالہ موجد اور تاجر رچرڈ فوئز کہتے ہیں کہ شاید ہومز پر کامیاب ہونے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہو گا۔ ان کا خاندان کئی سال تک ہومز کے گھر کے قریب رہتا تھا لیکن جب تھیرانوس نے 2011 میں ایک پیٹنٹ کے تنازع پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا تو وہ یہ گھر چھوڑ گئے۔ (بعد میں یہ مقدمہ ختم کر دیا گیا)۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ ہومز کے والدین نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ کیپٹل ہل پر بیوروکریٹس کے طور پر گزارا تھا لیکن ’وہ سٹیٹس میں بہت دلچسپی رکھتے تھے‘ اور ’کنکشنز کے لیے رہتے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ہومز کے والد کے پر دادا نے فلیشمینز خمیر کی بنیاد رکھی تھی جس نے امریکہ کی روٹی کی صنعت کو بدل کر رکھ دیا تھا اور خاندان اپنے نسب کے متعلق بہت سوچتا تھا۔
جب ایلزبتھ نو سال کی تھیں تو انھوں نے اپنے والد کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ’چاہتی ہیں کہ وہ زندگی میں کوئی نئی چیز دریافت کریں، کوئی ایسی چیز جو انسانیت سمجھتی ہو کہ ممکن نہیں ہے۔‘
جب وہ سنہ 2002 میں کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سٹینفورڈ یونیورسٹی گئیں تو انھوں نے ایک ایسے ’پیچ‘ کے بارے میں تجویز کیا جسے جب کوئی لگائے گا تو وہ اسے پہننے والے کی انفیکشن سکین کر سکتا ہو گا اور جب بھی ضرورت پڑے اس سے اینٹی بائیوٹکس بھی جاری کر سکتا ہو گا۔
پروفیسر فیلس گارڈنر نے ہومز کو بتایا کہ ان کا آئیڈیا کام نہیں کرے گا
سٹینفورڈ میں کلینیکل فارماکولوجی کی ماہر فیلس گارڈنر کہتی ہیں کہ انھوں نے ہومز کے جلد پر ’پیچ‘ کے آئیڈیا پر بحث کی تھی اور انھیں بتایا تھا کہ یہ کام نہیں کرے گا۔
ڈاکٹر گارڈنر نے بی بی سی کو بتایا کہ بس وہ ان کی طرف دیکھتی رہیں۔
’اور ایسا لگتا تھا کہ انھیں صرف اپنی ذہانت پر کامل یقین تھا۔ انھیں میری مہارت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور یہ پریشان کن تھا۔‘
ترقی سی ترقی
چند مہینوں بعد ہومز نے 19 سال کی عمر میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کو چھوڑ دیا اور تھیرانوس کمپنی بنائی۔ اس بار ان کا آئیڈیا انگلی سے ایک قطرہ خون لے کر بظاہر ایک انقلابی طریقے سے اس کا ٹیسٹ کرنا تھا۔
ان کے اس پراجیکٹ کے سحر میں آ کر بہت سے مشہور اور با اثر افراد نے بغیر کچھ سوچے سمجھے سرمایہ لگا دیا۔
امریکی وزیر خزانہ جارج شولٹز، میرین کور کے جنرل جیمز میٹس (جنھوں نے بعد میں ٹرمپ انتظامیہ میں خدمات سرانجام دیں) اور امریکہ کے امیر ترین خاندان والٹنز کے افراد میں ان کے حمایتیوں میں شامل تھے۔
ان کی حمایت سے ان کے پراجیکٹ کو ساکھ ملی۔
یہ بھی پڑھیئے
2015 میں انھیں ایک لنچ پر ملنے والے ہارورڈ میڈیکل سکول کے سابق ڈین ڈاکٹر جیفری فلیئر کہتے ہیں کہ ’میں جانتا تھا کہ ان کے پاس ایک شاندار آئیڈیا ہے اور وہ ان تمام سرمایہ کاروں اور سائنسدانوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔‘
ڈاکٹر فلئر مزید کہتے ہیں کہ ’انھیں خود پر مکمل یقین تھا، لیکن جب میں نے ان کی ٹیکنالوجی کے بارے میں ان سے کئی سوالات پوچھے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ انھیں سمجھ ہی نہیں پا رہیں۔ یہ تھوڑا عجیب سا لگا لیکن میں یہ سوچ کر پیچھے نہیں ہٹا کہ یہ کوئی فراڈ ہے۔‘
سنہ 2015 میں ہومز سابق صدر بل کلنٹن کے ساتھ ایک سٹیچ پر۔ اس وقت ہومز کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ دنیا کی سب سے کم عمر ارب پتی خاتون ہیں
ڈاکٹر فلئیر نے انھیں اس وقت میڈیکل سکول کے بورڈ آف فیلوز میں شمولیت کی دعوت دی، جس پر انھیں اب افسوس ہے، حالانکہ جب سکینڈل سامنے آیا تو انھیں بورڈ سے ہٹا دیا گیا تھا۔
فراڈ اس وقت سامنے آنے لگا جب 2015 میں ایک وسل بلوئر نے تھیرانوس کی اہم ٹیسٹنگ ڈیوائس ایڈیسن کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔ اخبار دی وال سٹریٹ جرنل نے اپنی لاتعداد رپورٹس میں دعویٰ کیا کہ کمپنی کی طرف سے پیش کیے جانے والے نتائج ناقابل اعتبار ہیں اور یہ کہ کمپنی دوسرے مینوفیکچررز کی تیار کردہ تجارتی طور پر دستیاب مشینوں کو زیادہ تر ٹیسٹنگ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
مقدمات کے ڈھیر لگ گئے، شراکت داروں نے تعلقات منقطع کر دیے اور 2016 میں امریکی ریگولیٹرز نے ایلزبتھ ہومز پر دو سال کے لیے خون کی جانچ کی سروس چلانے پر پابندی عائد کر دی۔
سنہ 2018 میں تھیرانوس ختم کر دی گئی۔
زیادتی ہوئی یا زیادتی کی؟
اس سال مارچ میں ہومز نے مالیاتی ریگولیٹرز سے دھوکہ دہی سے سرمایہ کاروں سے 700 ملین ڈالر اکٹھے کرنے کے سول معاملات طے کر لیے۔
لیکن تین ماہ بعد انھیں اور ان کے ساتھی بلوانی کو وائر فراڈ اور وائر فراڈ کرنے کی سازش کے مجرمانہ الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ ہومز نے جان بوجھ کر مریضوں کو ٹیسٹوں کے بارے میں گمراہ کیا اور مالی معاونت کرنے والوں کے لیے فرم کی کارکردگی کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
ہومز نے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد 2019 میں 27 سالہ ولیم ’بلی‘ ایونز کے ساتھ شادی کر لی جو ایونز ہوٹل گروپ کے وارثوں میں سے ایک ہیں۔ رواں سال جولائی میں ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ہے۔
لاس اینجلیز کی سابق ڈسٹرکٹ اٹارنی اور ماہرِ قانون ایمیلی ڈی بیکر کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ان کا نئی ماں ہونا مقدمے پر اثر انداز ہو گا لیکن اگر وہ قصوروار پائی جاتی ہیں تو ممکن ہے کہ جج اس کو مدنظر رکھے۔‘
ہومز دعوی کرتی ہیں کہ رمیش بلوانی کا ان پر قابو تھا اور وہ ان کے ساتھ زیادتی کرتے تھے۔ بلوانی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں
عدالتی کاغذات کے مطابق ہومز کے وکلاء یہ دلیل دینے کے لیے تیار ہیں کہ ’وہ یقین کرتی ہیں کہ تھیرانوس کے بارے میں کوئی بھی مبینہ غلط بیانی درست تھی اور یہ کہ یہ سرمایہ کاروں کے لیے پیسہ بنانے کا ایک جائز کاروبار تھا۔‘
توقع ہے کہ وہ یہ بھی دعویٰ کریں گے کہ بلوانی کے مبینہ طور پر ہومز کو کنٹرول کرنے والے رویے نے ان کی ’فیصلے کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا تھا، جس میں ان کی متاثرین کو دھوکہ دینے کی صلاحیت بھی شامل تھی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ تھیرانوس کے سابق چیف آپریٹنگ آفیسر نے، جن پر اگلے سال علیحدہ مقدمہ چلایا جائے گا، انھیں کنٹرول کر رکھا تھا کہ انھیں کس طرح کے کپڑے پہننے ہیں، کیا کھانا ہیں اور کس کے ساتھ بات کرنی ہے۔ ایسا ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک چلتا رہا تھا۔ وہ جنسی زیادتی کے حوالے سے ایک ماہر نفسیات کو بطور گواہ بھی بلائیں گے۔
ایمیلی بیکر کہتی ہیں کہ ’دھوکہ دہی سے متعلق کسی بھی کیس میں سب سے مشکل چیز یہ ثابت کرنا ہوتی ہے کہ کیا اس شخص کا مقصد دھوکہ دینا تھا۔‘
’لہذا پراسیکیوٹرز کو ان کے ٹیکسٹ اور ای میلز کو دیکھنا پڑے گا، اور اس بات پر بحث کرنا پڑے گی کہ وہ جانتی تھیں کہ ٹیکنالوجی نے کام نہیں کیا لیکن انھوں نے کہا کہ اس نے کیا ہے۔‘
Comments are closed.