ایشیا کا امیر ترین شخص 220 ارب ڈالر کی کاروباری سلطنت نوجوان بچوں کے حوالے کیوں کر رہا ہے؟
- مصنف, زویا متین
- عہدہ, بی بی سی
کئی ماہ سے دنیا بھر میں ایمی ایوارڈ یافتہ ’سکسیشن‘ نامی انگریزی ڈرامہ سیریز کا آخری سیزن ناظرین کی توجہ کا مرکز رہا جس میں کارپوریٹ دنیا کے سب سے اعلی طبقے کی زندگی دکھائی گئی ہے۔
انڈیا میں ایک ایسا ہی حقیقی منصوبہ زیر عمل اور خبروں کی زینت بنا ہوا ہے جس میں اربوں ڈالر کی وراثت کے مستقبل کو طے کیا جا رہا ہے۔
ایشیا کے سب سے امیر شخص اور ریلائنس انڈسٹریز کے سربراہ، مکیش امبانی کے تین بچے اب ان کی 220 ارب ڈالر کی کاروباری سلطنت کے بورڈ میں جگہ لینے والے ہیں۔
31 سالہ ایشا اور آکاش جڑواں ہیں جبکہ اننت 28 سال کے ہیں جو شیئر ہولڈرز کی جانب سے فیصلہ سامنے آنے کے بعد بورڈ میں شامل ہوں گے۔
سوموار کو ایک بیان میں مکیش امبانی نے کہا کہ ’سینیئر سربراہوں کے تجربے اور نئے سربراہوں کے جذبے کا امتزاج ریلائنس کی ہر لمحہ بڑھتی کامیابیوں کی کتاب میں نئے اور پرجوش مضامین کے اضافے کا سبب بنے گا۔‘
تبدیلی کے اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد کمپنی کی سربراہی تیسری نسل کو منتقل ہو جائے گی۔ انڈیا کی کارپوریٹ دنیا میں منتقلی کے اس منصوبے پر سب کی نگاہیں مرکوز ہیں۔
ایک وسیع کاروباری سلطنت کے ذریعے، جس میں تیل، ٹیلی کام، کیمیکلز، ٹیکنالوجی، فیشن اور خوراک تک کے کاروبار شامل ہیں، امبانی انڈیا میں ہر جگہ موجود ہیں۔ شاید اسی لیے اس خاندان کی ہر بات انڈیا میں عوامی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔
لیکن امبانی خاندان کے ان بچوں کے لیے یہ سفر آسان نہیں ہو گا۔
امبانی گروپ مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر عالمی شراکت داروں کے ساتھ جنرل اور ہیلتھ انشورنس کے کاروبار میں قدم بڑھانے والا ہے۔ ساتھ ہی یہ گروپ 200 کروڑ گھروں میں فائیو جی وائرس لیس براڈ بینڈ سروس متعارف کروانے کے علاوہ مصنوعی ذہانت سے لیس کمپیوٹنگ صلاحیت کے 2000 میگاوٹ بھی تیار کرنا چاہتا ہے۔
ہوا کی توانائی کے کاروبار سمیت سولر فیکٹری کے منصوبے اس کے علاوہ ہیں۔
امبانی گروپ نے حال ہی میں 1970 کی مشہور سافٹ ڈرنک ’کامپا کولا‘ کو پھر سے مارکیٹ میں متعارف کروایا ہے اور اب اسے عالمی سطح پر لے جانے کی تیاری کر رہا ہے۔
سندیپ نیرلیکر ’ٹیرینشیا کنسلٹنٹ‘ نامی کمپنی چلاتے ہیں جس کا کام کاروبار کی منتقلی پر مشورے دینا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مکیش امبانی اور ان کی اہلیہ نیتا کئی برسوں سے اپنے بچوں کو اسی وقت کے لیے تیار کر رہے تھے۔‘
’ان کو یہ کاروبار صرف اس لیے نہیں دیا جا رہا کہ وہ مکیش امبانی کی اولاد ہیں، یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ انھوں نے اس منصوبے کو تیار کرنے پر وقت صرف کیا ہے اور اپنے بچوں کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح طور پر ان کے لیے مناسب کاروبار کی نشان دہی کی ہے۔‘
غربت میں پلنے والے مکیش امبانی ایک ایسی پیچیدہ شخصیت کے مالک سمجھے جاتے ہیں جو عام طور پر زیادہ نمائش کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن ان کے بچوں نے ایک پرآسائش زندگی دیکھی ہے۔ عالیشان مکانات، نجی جہازوں پر سفر اور مشہور شخصیات سے میل جول ان کی زندگی کا حصہ رہا۔
مکیش امبانی کو اپنے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے کے لیے امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم کو ادھورا چھوڑنا پڑا تھا۔ تاہم ان کے جڑواں بچے، ایشا اور آکاش، امریکہ کی ییل اور براؤن یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔
یہ دونوں کارپوریٹ دنیا کی تقاریب اور میگزین کے سرورق پر اکثر نظر آتے ہیں۔ ان دونوں کی ہی شادیاں امیر انڈسٹریل گھرانوں میں ہوئی جن میں بیونسے سمیت دنیا بھر کی مشہور شخصیات نے شرکت کی۔
سندیپ نیرلیکر کا کہنا ہے کہ ’مکیش امبانی سمیت پورا خاندان پیسے خرچ کرنے، شادیوں اور جائیداد سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں۔ اور کیوں کہ یہ بچے ابھی نوجوان ہیں اسی لیے ان کی زندگیوں کے بارے میں دلچسپی پائی جاتی ہے لیکن وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، ان کی اچھی پرورش ہوئی ہے۔‘
تعلیم مکمل کرنے کے بعد آکاش نے ریلائنس کے ٹیلی کام یونٹ، ریلائنس جیو، میں 2014 میں شمولیت اختیار کی۔ آکاش اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے 2020 میں میٹا پلیٹ فارم سے ریلائنس کے جیو پلیٹ فارمز میں پانچ اشاریہ سات ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ انڈین پریمیئر لیگ کی امیر ٹیم ممبئی انڈینز کی کرکٹ ٹیم کو بھی سنبھالتے ہیں۔
ایشا کو کمپنی کے ریٹیل اور ای کامرس کاروبار کے ساتھ ساتھ لگژری منصوبوں کو آگے بڑھانے کا کام سونپا جا چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فیشن کی دنیا میں کمپنی کی عالمی برینڈز سے شراکت داری کے پیچھے ایشا ہی ہیں۔
ریلائنس کے مرکزی کاروبار میں ایشا کا کردار اہم ہے کیوںکہ ان کو سینیئر پوزیشن دی گئی ہے جبکہ خاندان کی دیگر خواتین اب تک کاروبار میں اتنے اہم عہدوں پر نہیں رہیں۔
2021 میں فوربز میگزین نے انھیں ’ہیئرس آن ڈیوٹی‘ کا لقب دیتے ہوئے انڈیا کی 21ویں طاقتور خاتون کی رینکنگ دی تھی۔ ان کے والد کے مطابق وہ کافی پرعزم اور پرجوش ہیں۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں مکیش امبانی نے کہا کہ ان کی بیٹی اکثر ان کے کاروباری طریقوں پر سوال اٹھاتی ہیں۔ مکیش امبانی نے کہا کہ ایک بار ایشا نے ان سے کہا کہ وہ اپنے پورٹ فولیو پر ازسرنو غور کریں کیوںکہ ان کی چند کمپنیاں پلاسٹک کے کاروبار سے منسلک تھیں ’جس کی وجہ سے کافی آلودگی پھیلتی ہے۔‘
ایشا امبانی
سب سے چھوٹا بیٹا آننت کمپنی کے توانائی کاروبار سے جڑا ہوا ہے۔ براؤن یونیورسٹی سے ہی تعلیم یافتہ آننت ریلائنس چیریٹی کے بورڈ میں بھی شامل ہیں اور اکثر اپنی والدہ کے ساتھ آئی پی ایل میچوں میں اپنی ٹیم کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
ہمانشو رائے، جو آئی آئی ایم اندور کے ڈائریکٹر ہیں، نے بزنس سٹینڈرڈ اخبار کو بتایا کہ ’منتقلی کا یہ منصوبہ تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے ایک مثبت پیغام ہے جو مستقبل میں کسی تنازع کی روک تھام کرے گا۔‘
2002 میں والد کی موت کے بعد مکیش امبانی اور ان کے چھوٹے بھائی انیل امبانی کے درمیان کاروباری سلطنت کی وراثت پر تلخ لڑائی اب تک بہت سے لوگوں کو یاد ہے۔ والد کی جانب سے کسی قسم کی تقسیم کی غیر موجودگی میں دونوں بھائی کئی سال تک خاندانی کاروبار پر لڑتے رہے جس کے بعد ان کی والدہ نے ایک درمیانی راستہ نکالا۔
سندیپ نیرلیکر کہتے ہیں کہ ’اس وقت وہ جن حالات سے گزرے وہ کافی تلخ اور تکلیف دہ تھے تو وہ اپنی وراثت کا فیصلہ بروقت کرنا چاہیں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کورونا کی وبا کے بعد دنیا بھر میں لوگ اپنی موت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے وراثتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں دیر نہیں کرتے اور جائیداد کی تقسیم کو تحریری طور پر طے کر لیتے ہیں۔‘
’یہ سادہ سی حقیقت ہے کہ آپ بیمار ہو سکتے ہیں یا مر سکتے ہیں اور اسی غیر یقینی نے مکیش امبانی کے منصوبے میں کردار ادا کیا ہے۔‘
ممبئی میں مکیش امبانی کا کثیر المنزلہ گھر جسے ’انٹیلا‘ کہا جاتا ہے
یہ تبدیلی ایک ایسے وقت میں ہو گی جب امبانی سلطنت کو گوتم اڈانی کی جانب سے ایک بڑا چیلنج درپیش ہے جنھوں نے گذشتہ سال ایک مختصر مدت کے لیے ایشیا کے سب سے امیر شخص کا عہدہ مکیش امبانی سے چھین لیا تھا۔
مکیش امبانی اور گوتم اڈانی توانائی کی منڈی میں آمنے سامنے ہیں اور انڈیا کے کاروباری حلقے ان کی کاروباری چپقلش پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
فی الحال مکیش امبانی کے مطابق وہ پانچ سال تک چیئرمین اور مینیجنگ ڈائریکٹر رہیں گے اور اس دوران اگلی نسل کے سربراہوں کو تیار کریں گے تاکہ ’وہ ایک مشترکہ قیادت فراہم کرتے ہوئے ریلائنس کو قابل بھروسہ طریقے سے نئی بلندیوں تک لے جا سکیں۔‘
سندیپ نیرلیکر کا کہنا ہے کہ ’مکیش امبانی کے پاس ایک اچھی ٹیم ہے جو کئی برسوں سے ان کے ساتھ ہے اور اگلی نسل کو اسی وجہ سے مستقبل میں ترقی کی حکمت عملی طے کرنے میں مدد ملے گی۔‘
لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ امبانی کی نئی نسل کیسے آگے بڑھتی ہے اور اگلے چند سال کافی اہم ہوں گے۔
سندیپ نیرلیکر کے مطابق مکیش امبانی کے بعد کسی نے گروپ کی سربراہی کرنی ہے تو وہ اس منصوبے کو استعمال کرتے ہوئے درست رہنما کی شناخت کریں گے۔ ’لیکن ان کو کسی قسم کی جلدی نہیں ہے۔‘
Comments are closed.