مشرقی ایشیائی تارکین وطن اپنے بچوں سے اتنی زیادہ توقعات کیوں وابستہ کر لیتے ہیں؟
امریکی کامیڈی پروگرام ’اوکوافینا از نورا فرام کوئنز‘ کے پُرستار اس کے مرکزی کردار نورا سے اچھی طرح واقف ہوں گے اور وہ ڈرائیور سے لے کر آفس اسسٹنٹ اور ایپ ڈویلپر تک مختلف ملازمتوں کے حصول کی اُن کی کوششوں سے بھی واقف ہوں گے۔
یہ پروگرام کامیڈین اوکوافینا کی اپنی زندگی پر مبنی ہے۔ وہ مشرقی ایشیائی فیملی کے ساتھ نیویارک کے کوئنز نامی علاقے میں پروان چڑھی ہیں۔ یہ شو جن موضوعات کا احاطہ کرتا ہے ان سے تارکین وطن کے بہت سے بچے اپنائیت محسوس کر سکتے ہیں۔ ان موضوعات میں سے ایک کامیاب ہونے اور ’باعزت‘ نوکری حاصل کرنے کے لیے خاندان کا بچوں پر دباؤ ہے۔
یہ ایک بہت معروف مگر فرسودہ تصور ہے کہ مشرقی ایشیائی والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بڑے ہو کر ڈاکٹر یا سائنسدان بنیں، لیکن اس تصور کی جڑیں قدیم کنفیوشس کی تعلیمات میں پنہاں ہیں، جنھوں نے خاندان اور بزرگوں کا احترام کرنے اور خود ایک قابل احترام شخص بننے کی اہمیت کو فروغ دیا۔ چینی تارکین وطن والدین کی اپنے بچوں سے توقعات کے بارے میں کیے جانے والے ایک کینیڈین مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ ان کی توقعات ’چینی روایت میں پیوست‘ ہیں۔
اب جبکہ ’نورا فرام کوئنز‘ کی دوسری سیریز بی بی سی تھری اور آئی پلیئر پر دکھائی جا رہی ہے تو ہم نے پوکر پلیئر کین چینگ اور سٹریپر سیم سن سے ان کے خاندان کی توقعات کے خلاف جانے کے بارے میں بات کی۔
کامیڈین نائجل این جی ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ ’آپ کے والدین نے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے کا سفر اور نسل پرستی سمیت بہت ساری مشکلات صرف اس لیے نہیں اٹھائیں کہ آپ میوزیکل تھیٹر کا مطالعہ کریں۔‘
ایکوافینا
میں نے میوزیکل تھیٹر کی تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن جہاں تک میرے والدین کا تعلق ہے تو انگریزی ادب کم و بیش ایک جیسا ہی ہے۔ آج کل میں ایک صحافی ہوں، اور میرے چینی خاندان کو واقعی علم نہیں کہ اس پر کیا کرنا ہے۔ حال ہی میں میں نے اپنے والد کو یہ بتانے کے لیے پیغام بھیجا کیا کہ میں نے انعام جیتا ہے، اور ان کا جواب تھا کہ مجھے کسی اور کے ایشیائی بیٹے کی تصویر بھیجو جس نے ایسا کیا ہو۔
ایسا ہی کچھ پاپ سٹار گریف کے ساتھ بھی ہوا جب انھوں نے اپنی چینی والدہ کو بتایا کہ انھوں نے سنہ 2021 کا برٹس رائزنگ سٹار ایوارڈ جیتا ہے تو ان کی والدہ نے پوچھا ’تو تم مجھ سے آخر کیا کہنا چاہتی ہو؟‘
نورا فرام کوئنز کو ’سلو کامیڈی‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس کہانی کی مرکزی کردار یعنی نورا اپنے 20 کی دہائی کے آخر میں ہیں اور وہ گھر پر ہی رہتی ہے، پی ایچ ڈی پروگرام چھوڑنے کے بعد مختلف ملازمتوں میں قسمت آزمائی کرتی رہتی ہے۔ اس کے والد اور دادی اس کی زندگی کے انتخاب سے مایوس ہیں، اور نرمی کے ساتھ نورا کو ’اپنی زندگی کو سنوارنے‘ کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
ایلین چوگ
مشرقی ایشیائی والدین اپنے بچوں سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں، لیکن جب تارکین وطن والدین کی بات آتی ہے، تو ان کے لیے اور زیادہ چیزیں داؤ پر لگی ہوتی ہیں، کیونکہ انھوں نے مغرب میں نئی زندگی شروع کرنے میں بڑی قربانیاں دی ہوتی ہیں۔ میرے تجربے سے، وہ سوچتے ہیں کہ اچھی تعلیم اور اعلیٰ درجہ کی ملازمت کامیابی کی ضامن ہے جبکہ زندگی کے کسی دوسرے راستے کو وہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
’میری امی کو میرے یونیورسٹی چھوڑنے کا افسوس ہے‘
کامیڈین کین چینگ نے پیشہ ورانہ پوکر میں کیریئر بنانے کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی کی ڈگری کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میری اپنی ماں سے اس بارے میں کافی بحث ہوئی۔‘
سکول میں ریاضی میں اچھے ہونے کے باوجود انھیں ڈگری کورس مشکل معلوم ہوا، اور انھوں نے دوسرے آپشنز پر غور کرنا شروع کیا۔
وہ 17 سال کی عمر سے پوکر کھیل رہے ہیں۔ پہلے سکول میں دوستوں کے ساتھ اور پھر اپنی والدہ کا کریڈٹ کارڈ لے کر آن لائن کھیلنے لگے جہاں انھوں نے ہزاروں ڈالر جیتے۔ کین نے کیمبرج میں پوکر کھیلنا جاری رکھا اور وہ اس گیم میں بہتر ہوتا چلے گئے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نوکری کے جتنی رقم نہیں تو جیت رہا تھا، یہ کافی تھا۔‘
کچھ تارکین وطن والدین اپنے بچوں سے اتنی زیادہ توقعات کیوں رکھتے ہیں؟
سٹینفورڈ میں سماجیات کے پروفیسر، ٹامس آر جیمینز بتاتے ہیں: ’سام کا تجربہ تارکین وطن کے والدین کے دوہرے فریم کی ایک انتہائی مثال ہے، جو انھیں اپنے آبائی ملک اور اپنائے ہوئے ملک کے درمیان موازنہ فراہم کرتا ہے۔‘
’تارکین وطن والدین اکثر اپنے بچوں سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں۔ والدین نے طویل فاصلے طے کرنے اور ایک ایسی جگہ پر نئے سرے سے آغاز کرنے کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہوتی ہیں جہاں انھیں سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر باہری سمجھا جاتا ہے۔‘
کین چینگ
‘والدین اکثر اپنے بچوں سے ان قربانیوں سے فائدہ اٹھانے کی توقع رکھتے ہیں، اور اس کے لیے اکثر والدین کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے مخصوص پیشوں کو اختیار کریں جنھیں والدین کامیابی سمجھتے ہیں۔‘
کین کی ماں کو اس کے جوئے کھیلنے پر بہت ملال نہیں ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کا بیٹا پوکر میں جانے کے لیے کافی ہوشیار تھا، لیکن وہ کین کے کیمبرج چھوڑنے کے بارے میں یقین نہیں کر پا رہی تھیں۔
‘اسے اس بات سے نفرت تھی کہ میں نے یونیورسٹی کو چھوڑ دیا۔ وہ ایک تعلیمی پس منظر سے آتی ہیں اور یہ محسوس کرتی ہیں کہ میں نے زندگی بھر میں ایک بار ملنے والا موقع کھو دیا ہے۔’
یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد پہلا سال کین کے پوکر کے لیے اچھا سال نہیں تھا۔ ‘میں نے محسوس کیا کہ آپ کو پڑھنا چاہیے، اور صرف اپنی انا کی وجہ سے پھولنا نہیں چاہیے۔ خوش قسمتی سے سنہ 2006 میں کسی کا بھی آن لائن پوکر میں بہت اچھا حال نہیں تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے
پچھلے کچھ سالوں میں کین نے پیشہ ورانہ سٹینڈ اپ (کامیڈین) بننے کی طرف اپنی توجہ مبذول کی۔ انھوں نے کہا کہ ’پوکر کافی غیر سماجی ہے اور میں نے محسوس کیا کہ میری زندگی میں تخلیقی طور پر کچھ کمی ہے۔‘
انھوں نے ایک کلب میں ایک وقت کے لیے شمولیت اختیار کی۔ ’میں ذلت، ناکام ہونے، اور اپنی کمزوری سے خوفزدہ تھا۔۔۔ لیکن میں پوکر کی وجہ سے خطرہ مول لینے کا عادی ہوں۔‘
کین کی والدہ ان کی کامیڈی کے بارے میں اپنے خاندانی دوستوں سے بات کرتی ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر ان کو فالو کرتے ہیں۔ ان کی ماں اس کی کامیڈی کو پوکر پر ترجیح دیتی ہیں، کیونکہ اس طرح وہ انھیں ٹی وی اور ریڈیو پر دیکھ اور سُن سکتی ہیں۔
’وہ چاہتے ہیں کہ میں لنکڈان پروفائل والا شخص ہوتا‘
ابتدائی قسط میں نورا ایک ڈریگن کے لباس میں کیمنگ کیریئر کی کوشش کرتی ہیں، یعنی ویب کیم کے سامنے جنسی فعل انجام دیتی ہیں۔ اس قسط کے اختتام تک، نورا فیصلہ کرتی ہیں کہ کیمنگ ان کے لیے نہیں ہے لیکن سیم سن کے لیے، سٹرپنگ اس کے کیریئر کا انتخاب ہے۔
سام کے والدین اونچی آواز میں ’سٹریپنگ‘ نہیں کہتے۔ ’میرے والدین جانتے ہیں کہ سرکس کے فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ، میں 19 سال کی عمر سے سٹریپر رہی ہوں۔ میں نے انھیں باضابطہ طور پر کبھی نہیں بتایا، لیکن ماں نے مجھے انسٹاگرام پر فالو کیا اور کچھ سٹرپ والی تصاویر دیکھیں۔ والد نے مجھ سے کہا: ’جب تم نے گھر چھوڑا تو مجھے معلوم تھا کہ تم اس طرح کا کوئی کام کرو گی۔‘
’میں سکول گئی، ڈگری حاصل کی، تارکین وطن کے والدین کی توقع کے مطابق کام کیا۔ میں اپنی مالی مدد کرتی ہوں اور میں اپنے چھوٹے کزنز کے ساتھ اچھی ہوں۔ میں اپنی دادی اور اپنی بزرگ آنٹیوں کو باقاعدگی سے فون کرتی ہوں۔‘
سامانتھا سن
‘سٹریپنگ آسان کام نہیں ہے، لیکن میرے لیے یہ ’حقیقی نوکری‘ حاصل کرنے سے زیادہ آسان ہے۔‘
سام کی دلچسپی سٹریپنگ میں اس وقت شروع ہوئی جب اس نے ٹمبلر پر سٹریپرز کی پوسٹ دیکھی اور ایک دوست نے سٹرپ کرنا شروع کیا۔ ’جب میں 18 سال کی ہوئي تو میں نے سٹرپ کلبوں کو ای میل بھیجے۔ میں مشرقی لندن کے ہوکسٹن میں رہتی تھی جہاں بہت سارے سٹرپ پب ہیں، جو باقاعدہ پب ہیں لیکن سٹریپر کے ساتھ۔ یہ بہت آرام دہ ہے، لوگ فٹ بال دیکھنے آتے ہیں تو شاید ایک آدھ لیپ ڈانس سے بھی لطف اندوز ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’شاید میں ایک اکاؤنٹنٹ کے طور پر زیادہ پیسہ کما رہی ہوتی، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنی زندگی سے پیار کرتی یا نہیں۔ اگر آپ نے آزادی کا تجربہ کیا ہے تو یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ آپ پھر وہاں سے واپس جائيں۔‘
سام بہت سے تارکین وطن بچوں کو جانتی ہیں جو مستحکم ملازمتیں کر رہے ہیں لیکن جو انھیں پسند نہیں ہیں۔ ’ایشیا کا اجتماعی معاشرہ ہے، جو دوسروں کی بھلائی کو اپنے اوپر اوڑھے رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے خاندانوں کی خاطر ملازمتیں برداشت کرتے ہیں۔ ایشیائی تارکین وطن کچھ حد تک ایسا ہی سوچتے ہیں، لیکن غور کرنے کے لیے اور بھی جہتیں ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ظالم حکومتوں میں رہنا کیسا ہے۔‘
وہ اپنی ماں کو سابقہ ’ٹائیگر مم‘ یعنی ایک مطالبہ کرنے والے چینی والدین کہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مشرقی ایشیائی اپنے بچوں کا ایک دوسرے سے بہت موازنہ کرتے ہیں۔ کین کی طرح، کبھی کبھی خاندانی دوست اس کی ماں سے کہتے ہیں کہ ‘کیا آپ سام کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہیں؟
‘وہ حصہ لینے سے انکار کرتی ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ ماں دل سے ڈینگیں مارنا چاہتی ہوں گی۔’
ان کے گھر والے پریشان ہیں کہ اس کی زندگی کہاں جائے گی۔
‘وہ چاہتے ہیں کہ میں مستقل آمدنی والا کوئی کام کروں یا ایسی شخص بنوں جس کے پاس لنکڈان پروفائل ہو۔’
سام کی چھوٹی بہن پولیٹیکل سائنس کی تعلیم حاصل کر رہی ہے اور سرکاری ملازمت کے لیے کوشاں ہے۔ ‘میرے دادا دادی کا تعلق ہانگ کانگ سے ہے اور وہ سرکاری بیوروکریسی سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ میری بہن سے پوچھتے ہیں ‘آپ کو کوئی حقیقی نوکری کیوں نہیں ملتی؟’
حال ہی میں سام نے لندن سکول آف اکنامکس سے بزنس مینجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیے تعلیم شروع کی ہے۔ ‘یہ زندگی کا وہ سٹیج محسوس ہوتا ہے جو میرے والدین میرے لیے چاہتے تھے کہ میں وہاں پہنچوں۔’
ان کے والدین نے انھیں چھیڑتے ہیں کہ ‘یہ کوئی اچھا سکول ہے جو وہ آپ کو لے رہے ہیں؟’ لیکن در پردہ وہ فخر کرتے ہیں- شاید اب وہ میری ڈگری کے بارے میں شیخی بگھار سکتے ہیں۔’
Comments are closed.